سوال
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام قبول کر سکتے ہیں تو ایک مسلمان اپنا مذہب تبدیل کیوں نہیں کر سکتا؟ جب ایک یہودی یا عیسائی کے اسلام قبول کرنے پر کوئی سزا لاگو نہیں ہوتی، تو ایک مسلمان کے کسی اور مذہب کو اختیار کرنے پر اسے قتل کیوں واجب ہو جاتا ہے؟
الجواب
بنیادی طور پر، ہم اس سوال کا جواب دینے کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ یہ ان لوگوں کا معاملہ ہے، وہ سزا دیں یا نہ دیں۔ لیکن اس اعتراض کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ سادہ لوح مسلمان اس سے متاثر ہو کر سزائے ارتداد کو غیر منطقی اور آزادی اظہار یا مذہب کے خلاف سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطہ کا جواب دیا جائے۔
➊ حق اور باطل کے درمیان فرق
اسلام اپنے آپ کو حق سمجھتا ہے، اور اس کا ایمان ہے کہ یہ ایک سچا دین ہے۔ اس لیے وہ شخص جو حق کی طرف آتا ہے اور جو حق سے منہ موڑتا ہے، ان دونوں کو برابر نہیں سمجھا جا سکتا۔ جو حق کی طرف آتا ہے، وہ تعریف کا مستحق ہے، اور جو حق کو ترک کرتا ہے، وہ مذمت کا مستحق ہے۔ اگر اسلام اپنے پیروکاروں اور چھوڑنے والوں کو ایک ہی درجے میں رکھتا، تو یہ ایک تناقض ہوتا۔
➋ سابقہ ادیان کی منسوخی
پچھلے انبیاء کی شریعتیں اور ادیان اسلام کے آنے کے بعد منسوخ ہو چکے ہیں۔ جیسے کسی ملک کے قانون کو تبدیل کر کے نیا قانون نافذ کر دیا جائے، اور پرانے قانون پر عمل کرنے والا قانون شکن قرار پاتا ہے۔ اگر کوئی شخص نئے آئین کی مخالفت کرے اور منسوخ شدہ آئین کو نافذ کرنے کی کوشش کرے، تو اسے باغی کہا جائے گا۔
اگر ایک ریاست کا سربراہ، آئین کی مخالفت کرنے والے کو سزا دیتا ہے، تو کیا اسے انصاف کہا جائے گا یا ظلم؟ اسی طرح، اسلام کو چھوڑنے والا جان بوجھ کر حق سے انکار کرتا ہے، اور اس کی مخالفت کرنے والا مذمت کے لائق نہیں۔
خلاصہ
اسلام اور دیگر مذاہب کے معاملے میں تضاد نظر نہیں آتا، کیونکہ اسلام اپنے آپ کو حق مانتا ہے اور حق سے انکار کرنے والے کو سزا دینا منطقی سمجھتا ہے۔ سابقہ ادیان اور ان کی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، اس لیے ان پر عمل کرنے والا قانون شکن اور حق سے انکار کرنے والا تصور کیا جاتا ہے۔