صحابہ کرامؓ کی فضیلت
اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ}
(آل عمران: 110)
ترجمہ: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”
اس آیت کا اولین مصداق صحابہ کرامؓ ہیں، کیونکہ نزولِ وحی کے وقت وہی مخاطب تھے۔ مشہور لغوی امام اور مفسر زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَأَصْلُ الْخِطَابِ لأَِصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ یَعُمُّ سَائِرَ أُمَّتِہٖ”
"بنیادی طور پر یہ خطاب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کو ہے اور عمومی طور پر ساری اُمت اس کا مصداق ہے۔”
(زاد المسیر فی علم التفسیر لابن الجوزی: 1/314)
حدیث: صحابہ کرامؓ کی فضیلت
حضرت معاویہ بن حیدہ قشیریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
أَنْتُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِینَ أُمَّۃً، أَنْتُمْ خَیْرُہَا وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ
"تم ستر امتوں کا تتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور معزز ہو۔”
(سنن الترمذی: 3001، مسند احمد: 5/4)
ترجمہ: "تم ستر امتوں کا تتمہ ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین اور معزز ہو۔”
اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے:
تُوفُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعِینَ أُمَّۃً، أَنْتُمْ آخِرُ الْـأُمَمِ وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ
"تم روزِ قیامت ستر امتوں میں سب سے بھاری ہو گے، تم آخری اُمت ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے معزز ہو۔”
(مسند احمد: 4/446، 447)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا قول
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"ہُمُ الَّذِینَ ہَاجَرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَّکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ”
"اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔”
(تفسیر عبد الرزاق: 1/134، تفسیر ابن جریر: 5/671)
امام ابن عطیہؒ کا بیان
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إِنَّ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِي الصَّحَابَۃِ، قِیْلَ لَہُمْ : کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ”
"یہ آیت صحابہ کرامؓ کے بارے میں نازل ہوئی اور انہیں مخاطب کر کے کہا گیا کہ تم بہترین امت ہو۔”
(تفسیر ابن عطیہ: 1/489)
صحابہ کرامؓ کے بارے میں مفسرین کا اتفاق
مفسر ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَالظَّاہِرُ أَنَّ الْخِطَابَ ہُوَ لِمَنْ وَقَعَ الْخِطَابُ لَہٗ أَوَّلاً؛ وَہُمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ”
"یہ بات واضح ہے کہ اس آیت کا اولین مخاطب رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہیں۔”
(البحر المحیط: 3/299)
اسی طرح عظیم مفسر امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وَالصَّحِیحُ أَنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ عَامَّۃٌ فِي جَمِیْعِ الْأُمَّۃِ، کُلُّ قَرْنٍ بِحَسَبِہٖ”
"صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت تمام امت کے لیے عمومی ہے، ہر دور اپنی شان کے مطابق اس کا مصداق ہے، لیکن بہترین دور وہی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے۔”
(تفسیر ابن کثیر: 2/92)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا موقف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مَنْ زَعَمَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ فَسَقُوْا أَوْ ارْتَدُّوْا بَعْدَ وَفَاۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَہٰذَا لَا رَیْبَ أَنَّہٗ کَافِرٌ”
"جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ صحابہ کرامؓ فاسق یا نبی ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے، وہ بلا شبہ کافر ہے۔”
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول: 586)
خلاصہ
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کو بہترین امت قرار دیا ہے۔
صحابہ کرامؓ کی فضیلت قرآن اور احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
مفسرین اور علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صحابہؓ اس آیت کے اولین مصداق ہیں۔
صحابہ کرامؓ کی عزت اور عظمت اسلام کی اساس ہے، اور ان پر طعن و تشنیع کرنے والے لوگ گمراہ اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔