سوال
مقتدیوں کا امام کے پیچھے چھ رکعتوں میں بلند آواز سے آمین کہنا اور گیارہ رکعتوں میں آہستہ آواز سے کہنا کس حدیث سے ثابت ہے؟
جواب
مقتدیوں کا امام کے پیچھے آمین کہنا احادیث سے ثابت ہے، اور جہاں تک آمین کے بلند یا آہستہ کہنے کا تعلق ہے، تو اس کا انحصار نماز کی نوعیت (جہری یا سری) پر ہوتا ہے۔ جہری نمازوں میں آمین بلند آواز میں اور سری نمازوں میں آہستہ کہی جاتی ہے۔
1. وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ فاتحہ کے بعد ‘غیر المغضوب علیھم ولا الضالین’ پڑھتے ہوئے سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے ‘آمین’ کہی۔”
(ترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء فی التامین؛ ابو داؤد)
ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے، اور ابن حجر اور دار قطنی نے اسے صحیح کہا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہری نمازوں میں آمین بلند آواز میں کہی جاتی ہے، کیونکہ سننا صرف جہری آواز کو ہی ممکن ہوتا ہے۔
2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہودی تم پر کسی چیز سے اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ تمہارے سلام اور آمین کہنے سے حسد کرتے ہیں۔”
(صحیح ابن ماجہ)
یہ حدیث آمین کہنے کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
3. قاری کے آمین کہنے پر مقتدی کا آمین کہنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔”
(صحیح بخاری)
نتیجہ
➊ جہری نمازوں (فجر، مغرب، عشاء) میں مقتدیوں کو بلند آواز میں آمین کہنا چاہیے، کیونکہ اس کا ثبوت سنت سے ملتا ہے۔
➋ سری نمازوں (ظہر، عصر) میں آمین آہستہ آواز میں کہی جائے گی، جیسا کہ اصول قرآنی اور سنت سے ثابت ہے کہ آہستہ ذکر و دعاء کرنا چاہیے۔
ان احادیث کو ملانے سے واضح ہوتا ہے کہ مقتدی جہری نمازوں میں امام کے پیچھے آمین بلند آواز میں کہیں گے، اور سری نمازوں میں آہستہ۔