نبی کریم ﷺ کی نمازِ جنازہ سے متعلق 5 روایات
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کسی امام کی سربراہی میں نہیں پڑھی گئی۔ اس کی بجائے، لوگوں نے انفرادی طور پر اس میں شرکت کی، اس طرح کہ ہر گروہ ایک دروازے سے حجرے میں داخل ہوتا، تکبیرات کہتا، درود پڑھتا اور دعا کرتا، اور پھر دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتا۔ اس کی تفصیل اور دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر 1

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ جب افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) کو اذان دینے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو امامت کرنے کا حکم دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوبارہ غشی طاری ہو گئی۔ جب دوبارہ افاقہ ہوا، تو آپ نے پھر دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ ازواجِ مطہرات نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو اذان دینے اور ابوبکر کو امامت کا حکم دو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: میرے والد صاحب کمزور دل ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان عورتوں کی طرح ہو جو یوسف کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئی تھیں۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا کہا گیا۔ جب جماعت کھڑی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جماعت کھڑی ہو گئی ہے؟ ازواجِ مطہرات نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے کسی کو بلاؤ جس کا میں سہارا لے سکوں۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا اور ایک دوسرے شخص نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا اور آپ مسجد میں تشریف لے آئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور نماز مکمل ہونے تک ان کے ساتھ بیٹھے رہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔ اس پر لوگ خاموش ہو گئے کیونکہ وہ اَن پڑھ تھے اور ان میں آپ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ پھر لوگوں نے کہا: سالم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔ میں نکلا اور انہیں مسجد میں کھڑے پایا۔ انہوں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں؟ میں نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔ اس پر انہوں نے میری کلائی پکڑی اور حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تو لوگوں نے انہیں راستہ دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے قریب جھک کر دیکھنے لگے اور جب یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں تو انہوں نے آیت: اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ (الزمر 39: 30) تلاوت فرمائی۔ پھر صحابہ نے دریافت کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں! پھر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی فوت ہو چکے ہیں۔

پھر صحابہ نے سوال کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کریں گے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں! انہوں نے پوچھا: ہم کس طرح نماز جنازہ ادا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا: لوگ گروہ در گروہ حجرہ میں داخل ہوں گے، تکبیریں کہیں گے اور دعا کریں گے، پھر باہر نکل جائیں گے اور دوسرا گروہ آئے گا۔ صحابہ نے مزید سوال کیا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی ہو گی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ صحابہ نے پوچھا: آپ کی تدفین کہاں ہو گی؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اللہ نے پاکیزہ جگہ ہی میں قبض کی ہے۔ لوگوں نے تسلیم کر لیا کہ یہ بات درست ہے۔

پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے اور مہاجرین جمع ہو کر خلافت کے بارے میں مشورہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: چلو انصار کے پاس چلتے ہیں کیونکہ ان کا بھی اس معاملے میں حق ہے۔ جب وہ انصار کے پاس پہنچے تو انصار نے کہا: ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو تلواریں ایک میان میں نہیں رہ سکتیں۔ پھر انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: یہ تین باتیں کس کے بارے میں ہیں؟ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ (التوبہ 9: 40) "جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے”، وہ ساتھی کون تھا؟ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ (التوبہ 9: 40) "جب وہ دونوں غار میں تھے”، وہ دونوں کون تھے؟ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ 9: 40) "اے نبی! آپ غم نہ کھائیے، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے”۔ اس کے بعد انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اور لوگوں کو بھی بیعت کرنے کا کہا۔ پھر سب نے بڑے خوبصورت اور احسن انداز میں بیعت کی۔

(سنن ابن ماجہ: 1234، الشمائل المحمدیۃ للترمذی: 396، مسند عبد بن حمید: 365، المعجم الکبیر للطبرانی: 65/7، دلائل النبوۃ للبیہقی: 299/7، وسندہ حسن)

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1514، 1624) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

حافظ بوصیری کہتے ہیں: "ہٰذا اِسناد صحیح، رجالہ ثقات” (مصباح الزجاجۃ: 146/1، ح: 1234)

حافظ ہیثمی کہتے ہیں: "رجالہ ثقات” (مجمع الزوائد: 183/5)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اسنادہ صحیح، لکنہ موقوف” (فتح الباری شرح صحیح البخاری: 523/1)

دلیل نمبر 2

سنن کبریٰ بیہقی میں روایت موجود ہے:

یَجِیئُونَ عُصْبًا عُصْبًا، فَیُصَلُّونَ

’’لوگ گروہ در گروہ آئیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔‘‘ (سنن کبریٰ بیہقی: 30/4، وسندہ حسن)​

دلیل نمبر 3

شمائل ترمذی میں ایک روایت ہے جس میں یہ تفصیل دی گئی ہے:

قَالُوا : یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَیُصَلّٰی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالُوا : وَکَیْفَ؟ قَالَ : یَدْخُلُ قَوْمٌ، فَیُکَبِّرُونَ وَیُصَلُّونَ وَیَدْعُونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ، ثُمَّ یَدْخُلُ قَوْمٌ، فَیُکَبِّرُونَ وَیُصَلُّونَ وَیَدْعُونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ، حَتّٰی یَدْخُلَ النَّاسُ

’’لوگوں نے پوچھا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں! لوگوں نے پوچھا: کیسے؟ تو فرمایا: لوگ اندر (حجرے میں) داخل ہوں گے، تکبیریں پڑھیں گے، درود پڑھیں گے اور دعا کریں گے، پھر باہر آ جائیں گے۔ پھر دوسرا گروہ داخل ہو گا اور وہ بھی اسی طرح کرے گا۔ اس طرح سارے لوگ باری باری نمازِ جنازہ میں شرکت کریں گے۔‘‘ (شمائلِ ترمذی: 396، وسندہ حسن)​

دلیل نمبر 4

حضرت بہز بن اسد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّہٗ شَہِدَ الصَّلَاۃَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالُوا : کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْہِ؟ قَالَ : ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا، قَالَ : فَکَانُوا یَدْخُلُونَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ، فَیُصَلُّونَ عَلَیْہِ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ، قَالَ : فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِیرَۃُ : قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَیْہِ شَيْئٌ لَّمْ یُصْلِحُوہُ، قَالُوا : فَادْخُلْ فَأَصْلِحْہُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ یَدَہٗ، فَمَسَّ قَدَمَیْہِ، فَقَالَ : أَہِیلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَہَالُوا عَلَیْہِ التُّرَابَ، حَتّٰی بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَیْہِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَکَانَ یَقُولُ : أَنَا أَحْدَثُکُمْ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

’’وہ مدینہ میں موجود تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ لوگوں نے پوچھا: ہم کیسے نماز جنازہ ادا کریں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک ایک گروہ کی شکل میں آئیں۔ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوتے، نماز جنازہ ادا کرتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں رکھا گیا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے قریب کچھ حصہ درست نہیں کیا گیا۔ لوگوں نے کہا: آپ ہی قبر میں داخل ہو کر اسے ٹھیک کریں۔ وہ قبر میں داخل ہوئے اور قدم مبارک کو چھوا، پھر کہا: میری طرف سے مٹی ڈال دو۔ لوگوں نے مٹی ڈالنی شروع کی، یہاں تک کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک پہنچ گئی۔ پھر وہ باہر آ گئے اور فرمایا: میں تم میں سے آخری شخص ہوں جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔‘‘ (مسند الإمام أحمد: 81/5، ح: 21047، وسندہٗ صحیحٌ)​

دلیل نمبر 5

حضرت ابو عسیم یا حضرت ابو عسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ قَالُوا : کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْہِ؟ قَالُوا : ادْخُلُوا مِنْ ذَا الْبَابِ أَرْسَالًا أَرْسَالًا، فَصَلُّوا عَلَیْہِ، وَاخْرُجُوا مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ

’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو لوگوں نے پوچھا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کیسے ادا کی جائے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا: اس دروازے سے گروہ در گروہ داخل ہو کر نماز جنازہ ادا کرو اور دوسرے دروازے سے نکل جاؤ۔‘‘ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 289/2، وسندہٗ صحیحٌ)​

اہل علم کا فیصلہ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَذٰلِکَ لِعِظَمِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، بِأَبِي ہُوَ وَأُمِّي، وَتَنَافُسِہِمْ فِي أَنْ لَّا یَتَوَلَّی الْإِمَامَۃَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ وَاحِدٌ، وَصَلَّوْا عَلَیْہِ مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃً

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ فرداً فرداً اس لیے ادا کی گئی تاکہ آپ کی عظمت کا اظہار ہو اور اس وجہ سے کہ صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس بات پر راضی نہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی امامت کرے۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیہقی: 30/4، وسندہٗ صحیحٌ)​

محدث اندلس، علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا قول:

وَأَمَّا صَلَاۃُ النَّاسِ عَلَیْہِ أَفْذَاذًا، فَمُجْتَمَعٌ عَلَیْہِ، عِنْدَ أَہْلِ السِّیَرِ، وَجَمَاعَۃُ أَہْلِ النَّقْلِ لَا یَخْتَلِفُونَ فِیہٖ

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرداً فرداً نماز جنازہ ادا کرنے پر اہل سیرت کا اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔‘‘ (التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید: 397/24)​

مؤرخ اسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وَہٰذَا الصَّنِیعُ، وَہُوَ صَلَاتُہُمْ عَلَیْہِ فُرَادٰی، لَمْ یَوُمَّہُمْ أَحَدٌ عَلَیْہِ، أَمْرٌ مُّجْمَعٌ عَلَیْہِ، لَا خِلَافَ فِیہٖ

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کے فرداً فرداً ادا کیے جانے اور کسی کے امامت نہ کرنے پر اجماع ہے، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: 232/5)​

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!