حدیث طیر کی 34 اسناد اور ان کی تحقیق
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

حدیث الطیر اور اس کی سند کی حقیقت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس مضمون میں آخر میں صحیح احادیث کی روشنی میں اس بات کی تفصیل دی گئی ہے۔ بعض افراد حدیث الطیر کے ذریعے اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، آئیے اس روایت پر اصولِ محدثین کے مطابق تحقیق کا جائزہ لیتے ہیں:

1. حدیث انس رضی اللہ عنہ:

یہ روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پکا ہوا پرندہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: اے اللہ! اپنے اس بندے کو بھیج دے، جو تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے، تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے، تو انہیں بھی واپس بھیج دیا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔” (السنن الکبرٰی للنسائي، خصائص علي بن أبي طالب)

تبصرہ:

یہ روایت "ضعیف” اور "منکر” ہے کیونکہ:

◄ مسہر بن عبدالملک اس روایت کا راوی ہے جو کہ کمزور ہے۔

◄ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔

(التاریخ الصغیر)

◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مسہر کی بہت کم روایات ہیں۔

(الکامل)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ راوی غلطیوں کا شکار تھا۔

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اسے "لین” یعنی کمزور قرار دیتے ہیں۔

واضح طور پر، اسے صرف حسن بن حماد نصیبی نے ثقہ کہا ہے، تاہم جمہور محدثین نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔

2. طریق السدی عن انس:

یہ روایت بھی "منکر” ہے کیونکہ اس کے راوی عبیداللہ بن موسیٰ عبسی ہیں، جو اگرچہ ثقہ ہیں، لیکن اس خاص روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شیعہ مکتبہ فکر کی منکر روایات بیان کرتا تھا، جس بنا پر بہت سے محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا۔

3. طریق الحارث بن نبہان عن السدی عن انس:

یہ سند "من گھڑت” ہے کیونکہ اس میں حارث بن نبہان شامل ہیں جو کہ "منکر الحدیث” اور "متروک الحدیث” ہیں۔

4. طریق حماد بن مختار عن عبد الملک بن عمیر:

یہ سند بھی "ضعیف” ہے کیونکہ اس کا راوی حماد بن مختار مجہول ہے۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ غیر معروف راوی ہے۔

5. قطن بن نسیر، ثنا جعفر بن سلیمان:

یہ روایت بھی "منکر” ہے۔ اگرچہ جعفر بن سلیمان ثقہ ہیں، لیکن محدثین کے مطابق ان کی بعض روایات منکر ہیں۔

فائدہ جلیلہ:

شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا ایک اہم قول ہے: "امام مسلم رحمہ اللہ کے لیے جعفر بن سلیمان کی احادیث بیان کرنا کوئی عیب نہیں ہے، کیونکہ وہ ایسے راویوں کی وہی احادیث بیان کرتے ہیں، جن کے متعلق انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ جیسے وہ ثقہ راویوں سے ایسی روایات کو الگ کر دیتے ہیں جن میں ان کو کسی غلطی کا علم ہو۔ ان افراد نے اس معاملے میں غلطی کی ہے، جو یا تو تمام ثقہ راویوں کی روایات کو بلا استثناء قبول کرتے ہیں، یا تمام ضعیف حافظے والے راویوں کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ امام مسلم کا طریقہ وہی ہے، جو اس فن کے معتبر ائمہ کا طریقہ ہے۔” (زاد المعاد: 136/1)

6. طریق ابو الہندی عن انس:

اس سند کا راوی ابو الہندی "مجہول” ہے۔

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ مجہول ہے، اس کا نام بھی معلوم نہیں۔”
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ غیر معروف راوی ہے۔” (میزان الاعتدال: 583/4)

7. طریق اسماعیل بن سلمان ازرق:

یہ سند سخت "ضعیف” ہے کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن سلمان ازرق سخت ضعیف ہے۔

اسے امام یحییٰ بن معین، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام نسائی، اور جمہور محدثین رحمہم اللہ نے "ضعیف” اور "متروک” قرار دیا ہے۔

8. طریق عثمان الطویل عن انس:

یہ سند بھی "ضعیف” ہے کیونکہ:

◄ راوی عثمان الطویل "متکلم فیہ” ہے۔

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کبھی کبھی غلطی کر جاتا ہے۔”

◄ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ صرف ایک شیخ ہے۔”

◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے مطابق: "اس کی سند عزیز (یعنی دو واسطوں والی) ہے اور اس کے پاس

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے صرف دو روایات ہیں۔”

◄ امام شعبہ رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے، لیکن امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو بھی

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کرتا ہے، وہ قوی نہیں۔”

◄ امام خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حدیث الطیر کو کسی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا۔”

(الإرشاد: 420/1)

◄ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عثمان الطویل کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔”

(التاریخ الکبیر: 3/2)

9. طریق محمد بن عیاض عن انس:

یہ سند بھی "ضعیف” ہے کیونکہ:

◄ راوی ابن عیاض مجہول ہے۔

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں جانتا۔”

(میزان الاعتدال: 465/3)

◄ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے۔”

(مجمع الزوائد: 125/9)

10. عن إسماعیل بن سلیمان الرازي، عن عبد الملک بن أبي سلیمان، عن عطاء عن أنس

(المعجم الکبیر للطبراني : 7462، تاریخ بغداد للخطیب : 36/9، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 227/1، ح : 365)

تبصرہ

یہ سند بھی ناقابل قبول ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر باطل قرار دی گئی ہے:

◄ مجہول راویوں کا شامل ہونا: اس سند میں کئی راوی مجہول ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ صحیح سند پیش کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ تمام راویوں کی توثیق کو ثابت کرے۔

اسماعیل بن سلیمان رازی کے متعلق:

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اَلْغَالِبُ عَلٰی حَدِیثِہِ الْوَہْمُ” یعنی اس کی روایتوں پر وہم کا غلبہ ہوتا ہے۔
(الضعفاء الکبیر: 82/1)

◄ امام عقیلی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ دونوں مذکورہ روایات محفوظ نہیں ہیں اور ان کی کوئی متابعت نہیں ملتی۔

◄ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت صحیح نہیں، اس میں مجہول راوی شامل ہیں جن کی معرفت نہیں ہوسکتی”
(العلل المتناہیۃ: 227/1)

11. عن مسلم بن کیسان، عن أنس

(الموضح للخطیب البغدادي: 398/2، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 236/1، تاریخ دمشق لابن عساکر: 256/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي: 398)

تبصرہ

یہ سند بھی سخت "ضعیف” ہے اور اس کی وجہ راوی مسلم بن کیسان اعور کا ضعیف ہونا ہے، جس پر جمہور محدثین نے تنقید کی ہے:

◄ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے”
(مجمع الزوائد: 29/1)

◄ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے”
(التاریخ الکبیر: 271/7)

◄ امام فلاس رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ سخت منکر الحدیث راوی ہے”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 192/8)

◄ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس پر محدثین نے جرح کی ہے اور یہ ضعیف الحدیث ہے”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 192/8)

◄ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ بھی اسے "ضعیف الحدیث” کہتے ہیں۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 192/8)

◄ امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام جوزجانی، امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین اسے "ضعیف” قرار دیتے ہیں۔

◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی روایات میں ضعف بالکل واضح ہے”
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 308/6)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے مطابق: "یہ آخری عمر میں حافظے کے اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اس نے ثقہ راویوں سے منسوب کرکے بے اصل روایات بیان کیں، اور ان میں صحیح اور ضعیف میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا”
(المجروحین: 8/3)

12. عن إبراہیم بن ثابت البنانيّ، عن أنس

(الضعفاء الکبیر للعقیلي: 46/1، المستدرک للحاکم: 131/3)

تبصرہ

یہ سند بھی سخت "ضعیف” ہے اور اس کی وجہ ابراہیم بن ثابت قصار بصری نامی راوی کا ضعیف ہونا ہے:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ راوی سخت ضعیف ہے”
(المغني في الضعفاء: 10/1)

◄ مزید فرماتے ہیں کہ "یہ ساقط راوی ہے”
(تلخیص المستدرک: 131/3)

13. عن بشر بن الحسین، عن الزبیر بن عدي، عن أنس

(أخبار أصبہان لأبي نعیم الأصبہاني: 232/1، تاریخ دمشق لابن عساکر: 252/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي: 163)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے کیونکہ بشر بن حسین اصبہانی نامی راوی ناقابل اعتبار ہے:

◄ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بشر بن حسین اصبہانی زبیر بن عدی سے موضوع روایات پر مشتمل نسخہ بیان کرتا تھا، جب کہ زبیر بن عدی ثقہ ہیں”
(الضعفاء والمتروکون: 126)

◄ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 355/2)

◄ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس پر محدثین کی جرح موجود ہے”
(التاریخ الصغیر: 26/2)

◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی اکثر روایات غیر محفوظ ہیں”
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 11/2)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بشر بن حسین زبیر بن عدی سے موضوع روایات نقل کرتا تھا۔
(المجروحین من المحدّثین والضعفاء والمتروکین: 190/1)

◄ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ زبیر بن عدی کے واسطے سے ایک سو پچاس سے زائد روایات بیان کرتا تھا، جن میں سے اکثر موضوع تھیں”
(المدخل إلی الصحیح، ص: 123)

14. عن عبد اللّٰہ بن محمّد بن عمارۃ، عن مالک، عن إسحاق بن عبد اللّٰہ، عن أنس

(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني: 339/6، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 225/1)

تبصرہ

یہ سند بھی "ضعیف” ہے، اس کی بنیاد ابن عمارہ راوی کی کمزوری پر ہے:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ مستور راوی ہے، نہ اس کی توثیق کی گئی ہے اور نہ تضعیف”
(میزان الاعتدال: 489/2)

◄ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "امام دارقطنی نے اس سند کو حدیث الطیر کے حوالے سے نقل کیا ہے، اور یہ منکر روایت ہے۔ دارقطنی فرماتے ہیں کہ ابن عمارہ نے مالک سے روایت کرنے میں تفرد کیا ہے، اور دوسرے راوی اس سے زیادہ مضبوط ہیں”
(لسان المیزان: 336/3)

15. عن أبي مکیس دینار، عن أنس

(تاریخ جرجان للسہمي: 169، تاریخ بغداد للخطیب: 382/8، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 229/1)

تبصرہ

یہ سند جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہے:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ راوی سخت ضعیف ہے”
(المغني في الضعفاء: 224/1)

◄ مزید فرماتے ہیں: "یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب جھوٹی روایات بیان کرتا تھا، اور یہ متہم بالکذب ہے”
(میزان الاعتدال: 30/2)

◄ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ منکر الحدیث ہے اور اس کی بیان کردہ روایات سخت ضعیف ہیں”
(الکامل فی ضعفاء الرجال: 109/3)

16. عن یغنم بن سالم، عن أنس

(فضائل الخلفاء الراشدین لأبي نعیم الأصبہاني: 50، مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي: 164، 171)

تبصرہ

یہ سند بھی جھوٹی ہے:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یغنم بن سالم سخت جھوٹا راوی تھا”
(المغني في الضعفاء: 760/2)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب جھوٹی روایات بیان کرتا ہے”
(المجروحین: 145/3)

17. عن عليّ بن الحسن، حدّثنا خلید بن دعلج، عن قتادۃ عن أنس

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 250/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي: 169)

تبصرہ

یہ سند جھوٹی ہے اور اس کے راوی سخت ضعیف ہیں:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "علی بن حسن سامی کا شمار متروک راویوں میں ہوتا ہے”
(میزان الاعتدال: 160/3)

◄ خلید بن دعلج کے متعلق جمہور محدثین جیسے امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام دارقطنی اور امام ابو حاتم رازی رحمہم اللہ نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔

◄ قتادہ بن دعامہ تابعی "مدلس” ہیں اور ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔

18. عن خالد بن عبید، عن أنس

(مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي: 173، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 229/1)

تبصرہ

یہ سند بھی باطل ہے:

◄ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس پر محدثین کی جرح کی گئی ہے”
(التاریخ الصغیر: 162/3)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خالد بن عبید عتکی ایک موضوع اور من گھڑت نسخے سے روایات بیان کرتا تھا اور اس کی روایات لکھنا جائز نہیں، سوائے تعجب کے لیے۔
(المجروحین: 279/1)

◄ امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ دونوں نے خالد بن عبید کی روایت کو جھوٹی قرار دیا ہے۔

19. عن عبد اللّٰہ بن زیاد أبي العلائ، عن علي بن زید، عن سعید بن المسیّب، عن أنس

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 248/42)

تبصرہ

یہ سخت "ضعیف” سند ہے:

◄ عبداللہ بن زیاد کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "منکر الحدیث” قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر: 95/5)

◄ علی بن زید بن جدعان کو جمہور محدثین جیسے حافظ ہیثمی، علامہ بوصیری، علامہ ابن العراقی، اور علامہ بقاعی نے ضعیف قرار دیا ہے.

20. عن میمون أبي خلف، عن أنس

(التاریخ الکبیر للبخاري: 358/1، الضعفاء الکبیر للعقیلي: 189/4، تاریخ دمشق لابن عساکر: 251/42)

تبصرہ

یہ سند سخت "ضعیف” ہے، اور اس کی وجہ راوی میمون بن جابر ابو خلف کا غیر معتبر ہونا ہے:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کا کوئی اعتبار نہیں”
(المغني في الضعفاء: 690/2)

◄ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی روایت صحیح نہیں ہوتی”
(الضعفاء الکبیر: 188/4)

21. عن عبد اللّٰہ بن میمون، عن جعفر بن محمّد، عن أبیہ، عن أنس

(طبقات المحدّثین لأبي الشیخ: 924، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 232/1)

تبصرہ

یہ سند بھی "سخت ضعیف” ہے، کیونکہ:

◄ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ راوی منکر الحدیث اور متروک ہے”
(تقریب التہذیب: 3653)

22. عن محمّد بن زکریا بن ذوید، عن حمید الطویل، عن أنس

(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي: 156)

تبصرہ

یہ سند "باطل” ہے کیونکہ:

◄ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "محمد بن زکریا نے حمید طویل سے جھوٹی روایت منسوب کی ہے”
(میزان الاعتدال: 549/3)

23. عن الحسن بن عبد اللّٰہ الثقفي، عن نافع، عن أنس

(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي: 167)

تبصرہ

یہ سند "باطل” ہے:

◄ حسن بن عبداللہ ثقفی کو حافظ ذہبی "منکر الحدیث” اور "متروک” قرار دیتے ہیں۔
(میزان الاعتدال: 501/1)

◄ نافع بن ہرمز کو امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم اور دیگر محدثین نے "ضعیف” اور "متروک” کہا ہے۔
(میزان الاعتدال: 243/4)

24. عن محمّد بن سلیم، عن أنس

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 253/42)

تبصرہ

یہ سند "ضعیف” ہے کیونکہ:

◄ محمد بن سلیم راوی "مجہول” ہے۔
(لسان المیزان: 192/5)

25. عن عبد اللّٰہ بن المثنّٰی، عن ثمامۃ، عن أنس

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 253/42، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 231/1)

تبصرہ

یہ سند "باطل” ہے، اس کے دو مختلف نسخوں میں درج راوی بھی ضعیف ہیں:

◄ ابن عساکر کی سند میں عبدالسلام بن راشد ہے، جس کے بارے میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "اس کا کوئی پتہ نہیں کہ یہ کون ہے”
(المغني في الضعفاء: 394/1)

◄ ابن الجوزی کی سند میں عباس بن بکار شامل ہیں، جنہیں امام دارقطنی "بصری کذاب” کہتے ہیں۔
(الضعفاء والمتروکون: 424)

26. عن سالم مولی عمر بن عبید اللّٰہ، عن أنس

(العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 230/1)

تبصرہ

یہ سند جھوٹی ہے کیونکہ:

◄ احمد بن سعید بن فرقد نامی راوی کے متعلق حافظ ذہبی فرماتے ہیں: "اس نے حدیث الطیر کو صحیحین کی سند سے روایت کیا، مگر وہ خود اس پر حدیث گھڑنے کا الزام رکھتا ہے”
(میزان الاعتدال: 100/1)

27. عن مفضّل بن صالح، عن الحسن بن الحکم، عن أنس

(العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 231/1)

تبصرہ

یہ سند "باطل” ہے:

◄ مفضل بن صالح اسدی کو امام بخاری اور امام ابو حاتم نے "منکر الحدیث” قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر: 264/2، الجرح والتعدیل: 317/8)

◄ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ "یہ منکر الحدیث ہے، اور کثرت سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے”
(المجروحین: 32/3)

28. عن حماد، عن إبراہیم النخعي، عن أنس

(أسد الغابۃ لابن الأثیر: 30/4)

تبصرہ

یہ سند موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ:

◄ محمد بن اسحاق بن ابراہیم اہوازی "متہم بالوضع” (جھوٹ گھڑنے کا الزام) ہے۔
(میزان الاعتدال للذہبي: 478/3)

◄ اس سند میں مزید کئی علتیں موجود ہیں جو اس کی صحت کو خراب کرتی ہیں۔

29. عن عبد الملک بن أبي سلیمان، عن أنس

(التاریخ الکبیر للبخاري: 3/2، مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي: 157)

تبصرہ

یہ روایت انقطاع (سلسلہ سند میں ٹوٹ) کی وجہ سے "ضعیف” ہے:

◄ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عبدالملک بن ابی سلیمان کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے”
(المراسیل لابن أبي حاتم: 132)

30. عن یحییٰ بن أبي کثیر، عن أنس

(المعجم الکبیر للطبراني: 206/2، 207، ح: 1744)

تبصرہ

یہ سند "ضعیف” ہے کیونکہ:

◄ یحییٰ بن ابی کثیر "مدلس” ہیں اور انہوں نے لفظ "عن” کے ساتھ روایت کیا ہے، لیکن سماع کی تصریح موجود نہیں۔

◄ یحییٰ بن ابی کثیر کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
(تحفۃ التحصیل في ذکر رواۃ المراسیل للعراقي: 346، 347)

31. عن خالد بن عبید أبي عصام، عن أنس

(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 25/3)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے کیونکہ:

◄ اس میں خالد بن عبید عتکی "متروک” راوی ہے، جیسا کہ پہلے تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے۔

32. عن عمر بن عبد اللّٰہ بن یعلی بن مرّۃ، عن أبیہ، عن جدّہ، وعن أنس

(تاریخ بغداد للخطیب: 376/11، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي: 230/1)

تبصرہ

یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ:

◄ عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ کو محدثین جیسے امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ، امام بخاری، اور امام نسائی رحمہم اللہ نے "ضعیف و مجروح” قرار دیا ہے۔

◄ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے "متروک” کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون: 376)

◄ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی اپنے والد سے بیان کردہ روایات منکر ہیں”
(المجروحین: 91/2)

33. عن عبد اللّٰہ بن المثنّٰی، عن أبان، عن أنس

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 406/37)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے کیونکہ:

◄ ابان بن ابو عیاش "متروک الحدیث” ہے۔

◄ ابو الولید ہاشم بن احمد بن مسرور کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے۔

◄ عبیداللہ بن اسحاق بن سہل سنجاری کی توثیق درکار ہے۔

◄ اس سند میں مزید علتیں موجود ہیں۔

34. عن الحسن، عن أنس بن مالک

(المعجم الأوسط للطبراني: 146/8، ح: 9372)

تبصرہ

یہ سند باطل ہے کیونکہ:

◄ ہارون بن محمد بن منخل واسطی "مجہول” ہے۔

◄ موسیٰ بن سعد بصری بھی "مجہول” ہے۔

◄ حفص بن عمر عدنی جمہور محدثین کے نزدیک سخت "ضعیف” ہے۔

◄ امام حسن بصری "مدلس” ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔

خلاصہ: حدیث سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی تمام روایات

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث الطیر اور دیگر روایات کی تمام اسناد کی تحقیق کے بعد یہ ثابت ہوا کہ:

◄ تمام روایات کی سندیں ضعیف ہیں، اور ان میں کئی راوی متروک یا ضعیف ہیں۔

◄ بہت سی روایات میں سلسلہ سند میں انقطاع ہے، یعنی راویوں کا سلسلہ مکمل نہیں۔

◄ کئی اسناد میں مدلس راویوں کا ذکر ہے، جنہوں نے عنعنہ کے ساتھ روایت کی ہے، جبکہ ان کا سماع ثابت نہیں ہو سکا۔

◄ بعض راویوں کو محدثین نے متہم بالوضع (جھوٹ گھڑنے کا الزام) قرار دیا ہے، اور من گھڑت احادیث بیان کرنے کے الزامات موجود ہیں۔

◄ جمہور محدثین جیسے امام بخاری، امام ابو حاتم، امام ابن حبان، امام نسائی، امام دارقطنی، اور امام ابن عدی رحمہم اللہ نے ان سندوں میں موجود راویوں کو ضعیف، متروک یا منکر الحدیث قرار دیا ہے۔

نتیجہ:

◄ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ان تمام روایات کی سندیں ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں، اور ان پر اعتماد کرنا درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے