سیدہ امِ کلثوم رض اور سیدنا عمر فاروق رض کا نکاح: تاریخی حقائق
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد ہونے کا شرف حاصل تھا، نے اپنی صاحبزادی سیدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کیا۔ یہ واقعہ تاریخی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بارے میں تواتر اور اجماع پایا جاتا ہے۔ اہل سنت اور شیعہ دونوں مکاتب فکر میں اس نکاح کے بارے میں اتفاق رائے ہے، اور شیعہ محدثین و فقہاء نے بھی اس نکاح کا ذکر اپنی کتب میں کیا ہے۔

نکاح کی روایات:

مشہور شیعہ مؤرخ، احمد بن یعقوب نے اپنی کتاب میں 17 ہجری کے واقعات میں یہ ذکر کیا ہے کہ:

"اسی سال سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی کے لئے پیغامِ نکاح بھیجا، اور یہ بات واضح ہے کہ امِ کلثوم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی تھیں۔ سیدنا علی نے فرمایا کہ وہ ابھی چھوٹی ہیں، جس پر سیدنا عمر نے کہا: ’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ قیامت کے دن تمام نسب اور تعلقات ختم ہو جائیں گے، سوائے میرے نسب اور سسرالی رشتہ کے۔‘” (تاریخ الیعقوبي: 149/2، 150)

شیعہ کتب میں اس نکاح کی تفصیل کے حوالے سے کئی روایات ملتی ہیں، جن میں محمد بن جعفر کلینی کی روایت اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا قول بھی شامل ہے:

"جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر اپنے گھر لے گئے۔”
(الکافي في الفروع: 115/6)

مزید تاریخی حوالہ جات:

شیعہ عالم، طوسی نے امام باقر رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک ہی وقت میں انتقال ہوا۔ اس میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ:

"دونوں کی نماز جنازہ اکٹھی ادا کی گئی اور دونوں کا وارث کوئی نہ بن سکا۔”
(تہذیب الاحکام، کتاب المیراث: 262/9)

نکاح کے حوالے سے شیعہ علماء کی تصدیق

سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح کو مختلف شیعہ علماء نے بھی اپنی کتابوں میں تسلیم کیا ہے۔ ان میں سے چند اہم نام درج ذیل ہیں:

➊ سید مرتضیٰ علم الہدیٰ نے اپنی کتاب الشافی (166) میں اس نکاح کا تذکرہ کیا۔
➋ ابن شہر آشوب، جو ایک مشہور شیعہ مؤرخ ہیں، انہوں نے بھی اپنی کتاب مناقب آل ابی طالب (162/3) میں اس نکاح کا ذکر کیا ہے۔
➌ اربلی نے اپنی کتاب کشف الغمہ (10) میں اس روایت کو بیان کیا ہے۔
➍ ابن ابو الحدید نے اپنی معروف کتاب شرح نہج البلاغہ (124/3) میں اس نکاح کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔

ان روایات کے تناظر میں، شیعہ فقہاء نے ہاشمیہ عورت کے غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح کے جواز کو بھی استدلال کے طور پر پیش کیا۔ شیعہ فقیہ حلّی نے لکھا ہے کہ:

"آزاد عورت کا غلام مرد کے ساتھ، عربی عورت کا عجمی مرد کے ساتھ اور ہاشمی عورت کا غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے۔”
(شرائع الإسلام في مسائل الحلال والحرام، کتاب النکاح: 467/2)

شرعی اور فقہی استدلال:

شیعہ علماء نے اس نکاح سے یہ استنباط کیا کہ عربی عورت کا عجمی مرد، اور ہاشمی عورت کا غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ اس حوالے سے شہید الثانی، جو ایک مشہور شیعہ فقیہ ہیں، نے بھی اس مسئلہ پر وضاحت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں کا نکاح غیر ہاشمی مردوں کے ساتھ کیا۔ انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ:

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسری کا نکاح سیدنا ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کیا، حالانکہ یہ دونوں بنو ہاشم سے نہیں تھے۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کیا۔”
(مسالک الافہام شرح شرائع الإسلام، باب لواحق العقد: 410/7)

شیعہ مؤرخین کی روایات اور نکاح کی تفصیلات

معروف معتزلی شیعہ عالم ابن ابو الحدید نے بھی سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نکاح کا ایک واقعہ اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد کو رومی بادشاہ کے پاس بھیجا۔ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے رومی بادشاہ کی بیوی کو تحفے کے طور پر خوشبو بھیجی تھی۔ جب قاصد واپس آیا، تو وہ جواہرات کی بھری ہوئی بوتلیں ساتھ لایا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان جواہرات کو مسلمانوں کا مال قرار دیا اور انہیں تقسیم کر دیا۔

"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قاصد کو رومی بادشاہ کی طرف بھیجا۔ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے کچھ دینار کی خوشبو خریدی اور اسے دو بوتلوں میں بند کر کے رومی بادشاہ کی بیوی کو تحفہ بھیجا۔ جب قاصد واپس آیا تو وہ جواہرات کی بھری بوتلیں لایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواہرات مسلمانوں میں تقسیم کر دیے اور سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے دینار کے عوض کچھ جواہرات دیے گئے۔”
(شرح نہج البلاغۃ: 575/4)

شیعہ مؤرخین کی جانب سے اعتراضات اور ان کا جواب

کچھ شیعہ علماء نے اس نکاح کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے اور یہ دعویٰ کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس نکاح پر راضی نہیں تھے اور انہوں نے ڈر کی وجہ سے یہ رشتہ قبول کیا۔ مقدس اردبیلی، جو ایک شیعہ عالم ہیں، نے یہ کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے خوف کی وجہ سے یہ نکاح کیا:

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کرنا نہیں چاہتے تھے، مگر ڈر کی وجہ سے انہوں نے اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو یہ نکاح کرنے کی ذمہ داری سونپی۔”
(حدیقۃ الشیعۃ: 277)

حقیقت اور وضاحت

یہ بیانات نہ صرف تاریخی طور پر بے بنیاد ہیں، بلکہ ان سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی شخصیتوں کو غیر مناسب طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ڈر کی وجہ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا، کسی بھی مضبوط تاریخی بنیاد سے خالی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مقام بلند تھا اور وہ ایک بہادر اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اس طرح کی من گھڑت روایات کو ماننا نہایت ہی گمراہ کن ہے۔

اہل سنت کی کتب میں سیدہ امِ کلثوم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا نکاح

اہل سنت کی کتب میں بھی اس نکاح کے حوالے سے مستند دلائل موجود ہیں۔ مشہور صحابی سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کیں، جس دوران ایک چادر بچ گئی۔ کسی نے تجویز دی کہ یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی، یعنی سیدنا عمر کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کو دی جائے، جس پر سیدنا عمر نے کہا کہ ایک اور انصاری خاتون، امِ سلیط، اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سیدہ اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا واقعی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں۔

"سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں، تو ایک عمدہ چادر بچ گئی۔ وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ امیر المومنین! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی، سیدہ اُمِ کلثوم کو دے دیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امِ سلیط زیادہ مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے غزوۂ احد کے دن ہمیں پانی پلایا تھا۔”
(صحیح البخاري: 2725)

سیدہ امِ کلثوم اور ان کے بیٹے کی وفات

اہل سنت کی مستند روایات میں یہ بھی ذکر ہے کہ سیدہ اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید بن عمر رضی اللہ عنہما کا انتقال ایک ساتھ ہوا اور ان کی نماز جنازہ اکٹھی پڑھی گئی۔ اس سلسلے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ تفصیل موجود ہے:

"سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نو میّتوں کی ایک ساتھ نماز جنازہ ادا کی، جن میں سیدہ اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید بن عمر بھی شامل تھے۔ ان کی نماز جنازہ سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، جبکہ صحابہ کرام میں سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔”
(سنن النسائي: 1980، سنن الدارقطني: 79/2)

یہ روایات نہایت مضبوط سند کے ساتھ اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں اور ان سے اس نکاح کی صداقت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔

مزید دلائل اور احادیث

اہل سنت کی کتب میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی جانب سے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا اور ان کے بیٹے زید بن عمر رضی اللہ عنہما کی نمازِ جنازہ کی مزید تفصیل بھی ملتی ہے۔ امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بھائی زید بن عمر اور والدہ امِ کلثوم بنت علی کی نمازِ جنازہ اس ترتیب سے ادا کی کہ بچے کو امام کے قریب اور خاتون کو پیچھے رکھا۔

"سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بھائی زید بن عمر اور اپنی والدہ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی، انہوں نے بچے کو امام کے قریب اور عورت کو اس کے پیچھے رکھا۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي: 38/4)

یہ احادیث اس بات کو مزید تقویت دیتی ہیں کہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان نکاح واقعی ہوا تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے۔

اہل بیت اور صحابہ کرام کا باہمی تعلق

سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نکاح ایک اہم واقعہ ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کے درمیان محبت اور احترام کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نکاح اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت اور خلفائے راشدین کے درمیان قریبی رشتے اور تعلقات قائم تھے، جن کا مقصد باہمی اتحاد اور اسلامی معاشرتی نظام کو مضبوط بنانا تھا۔

جھوٹے اعتراضات کا رد

کچھ روایات میں اس نکاح پر اعتراضات کیے گئے ہیں، جیسا کہ شیعہ کتب میں بعض روایات کا ذکر کیا گیا کہ یہ نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مرضی کے بغیر ہوا۔ تاہم، اہل سنت اور مستند تاریخی روایات اس بات کی واضح تردید کرتی ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک نہایت بہادر اور مضبوط شخصیت کے حامل تھے اور ان کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے کسی دباؤ یا خوف کے تحت یہ نکاح کیا، نہایت بے بنیاد اور جھوٹی بات ہے۔

خلاصہ

➊ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کیا۔
➋ اس نکاح کے حوالے سے اہل سنت اور شیعہ دونوں مکاتب فکر میں روایات موجود ہیں۔
➌ یہ نکاح صحابہ کرام اور اہل بیت کے درمیان محبت اور باہمی احترام کا مظہر ہے۔
➍ بعض من گھڑت روایات جو اس نکاح کو متنازع بنانے کی کوشش کرتی ہیں، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔
➎ اس نکاح کا تاریخی اور دینی اعتبار سے اہمیت اور مقام اپنی جگہ قائم ہے اور اس سے خلفائے راشدین اور اہل بیت کے درمیان گہرے تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔

حوالاجات:

تاریخ الیعقوبي: 149/2، 150
الکافي في الفروع، کتاب الطلاق: 115/6
تہذیب الاحکام، کتاب المیراث: 262/9
الشافي، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ: 166
مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب: 162/3
کشف الغمہ، اربلی: 10
شرح نہج البلاغہ، ابن ابو الحدید: 124/3
حدیقۃ الشیعۃ، مقدس اردبیلی: 277
شرائع الإسلام في مسائل الحلال والحرام، حلّی: 467/2
مسالک الافہام شرح شرائع الإسلام، شہید الثانی: 410/7
شرح نہج البلاغۃ، ابن ابو الحدید: 575/4
صحیح البخاري: 2725
سنن النسائي: 1980
سنن الدارقطني: 79/2
السنن الکبرٰی للبیہقي: 33/4
السنن الکبرٰی للبیہقي: 38/4
التلخیص الحبیر، حافظ ابن حجر: 146/2
مسند علي ابن الجعد: 574
الطبقات الکبرٰی لابن سعد: 340/8

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!