کیا جمہوریت شرک اور کفر ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث, جلد 09

سوال

کیا یہ بات درست ہے کہ موجودہ جمہوری نظام شرک اور کفر ہے، یا گناہ کبیرہ اور اللہ کی نافرمانی کے مترادف ہے؟

جواب

الحمد للہ! اس سوال کے جواب کے لیے جمہوریت کے تصور کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے۔ اگر جمہوریت کو اس انداز میں سمجھا جائے کہ انسانی قوانین کو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر فوقیت دی جا رہی ہو، تو یہ شرک اور کفر کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ تاہم، اگر جمہوریت کا مطلب عوام کی رائے سے ایسے فیصلے کرنا ہے جو قرآن اور سنت کے دائرے میں ہوں، تو یہ شرک یا کفر نہیں ہے۔

➊ جمہوریت کی تشریح

جمہوریت اور شریعت کا موازنہ: جمہوریت ایک سیاسی نظام ہے جس میں عوام کی رائے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اگر اس نظام میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو نظرانداز کرتے ہوئے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو زیادہ اہمیت دی جائے، تو یہ بات شرک یا کفر کے زمرے میں آ سکتی ہے، کیونکہ یہ اللہ کے قانون کو ترک کر کے انسانی قوانین کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔

"اگر کثرت اور جمہوریت کو قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم سمجھا جائے، تو یہ شرک اور کفر ہے۔”

➋ اسلامی جمہوریت

اگر جمہوریت کے تحت فیصلے اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں اور عوام کی رائے کو شریعت کے مطابق استعمال کیا جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی مشاورت (شورٰی) کا نظام موجود رہا ہے، جس میں حکومتی فیصلے کرنے میں عوامی رائے کو اہمیت دی گئی ہے، لیکن یہ تمام فیصلے اللہ کے احکامات کے مطابق ہوتے تھے۔

➌ موجودہ جمہوریت کا مسئلہ

اگر جمہوری نظام میں قوانین اور فیصلے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں اور ان میں اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈالا جائے، تو یہ گمراہی اور اللہ کی نافرمانی کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ فیصلے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق کیے جائیں:

"اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی لوگ کافر ہیں۔”
(سورہ المائدہ: 44)

➍ خلاصہ

◄ اگر جمہوریت کے تحت انسانوں کے قوانین کو اللہ کے احکامات پر فوقیت دی جائے، تو یہ شرک اور کفر ہے۔
◄ اگر جمہوریت اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہو اور قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کیے جائیں، تو یہ شرک یا کفر کے زمرے میں نہیں آتا۔
◄ اسلامی نظام میں شریعت کے مطابق مشاورت (شورٰی) کو جائز سمجھا جاتا ہے، بشرطیکہ اس میں اللہ کے احکامات کو ترجیح دی جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!