سانحہ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کا قصہ: حقیقت یا افسانہ؟
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کی آواز

کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 63ھ میں پیش آنے والے سانحۂ حرہ کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے اذان کی آواز سنائی دیتی رہی۔ تاہم، کسی بھی واقعے کی صحت کو اس کی سند کی جانچ کے ذریعے پرکھا جا سکتا ہے۔ محدثین نے اس سلسلے میں اصول و ضوابط قائم کیے ہیں اور روایات کے راویوں کے حالات کو محفوظ کر دیا ہے تاکہ ہر روایت کی تصدیق ہو سکے۔ ذیل میں سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کے بارے میں ملنے والی روایات، ان کی سندیں اور ان پر تبصرے پیش کیے گئے ہیں۔ فیصلہ خود کریں کہ آیا یہ روایتیں قابل اعتبار ہیں یا نہیں۔

1. سعید بن عبد العزیز تنوخی رحمہ اللہ (م: 90ھ) کی روایت

حدیث: "سانحۂ حرہ کے دوران تین دن تک مسجد نبوی میں اذان اور اقامت نہیں ہوئی تھی۔ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ مسجد نبوی میں موجود تھے، اور انہیں نماز کا وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے سنائی دینے والی ہلکی سی آواز سے معلوم ہوتا تھا۔”
(مسند الدارمي: 44/1)

تبصرہ:

اس روایت کی سند "انقطاع” (منقطع) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ واقعہ حرہ، سعید بن عبد العزیز کی پیدائش سے پہلے 63ھ میں رونما ہوا جبکہ سعید بن عبد العزیز 90ھ میں پیدا ہوئے۔ مزید برآں، ان کی امام سعید بن مسیب سے ملاقات ثابت نہیں، اس لیے یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔

2. امام ابن سعد رحمہ اللہ کی روایت

حدیث: "امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سانحۂ حرہ کے دوران جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی تھی۔”
(الطبقات الکبری: 132/5)

تبصرہ:

یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے، اور دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید "مجہول” ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے بھی طلحہ کو غیر معروف قرار دیا ہے۔ لہٰذا، یہ روایت ناقابل قبول ہے۔

3. امام ابو نعیم الاصبہانی کی روایت

حدیث: "سانحۂ حرہ کے دوران مسجد نبوی میں تین دن تک اذان نہ ہوئی، لیکن امام سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ وہ قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتے تھے۔”
(الدرۃ الثمینۃ في أخبار المدینۃ: 159)

تبصرہ:

یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ اس کے راوی محمد بن حسن بن زبالہ مخزومی کو محدثین نے کذاب (جھوٹا) اور حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے۔ امام یحییٰ بن معین اور امام ابوحاتم نے اسے غیر قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔

4. مشہور فلسفی ظفر احمد عثمانی دیوبندی کی رائے

حدیث: ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔
(فتح الملہم: 419/3)

تبصرہ:

یہ نظریہ کسی صحیح روایت پر مبنی نہیں ہے، اور قبر نبوی سے اذان والی روایات کی حقیقت جھوٹی ثابت ہو چکی ہے۔

5. سنن ترمذی کی روایت

حدیث: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے قبر پر خیمہ لگایا اور قبر میں سورۂ ملک کی تلاوت کی آواز سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سورۂ ملک عذاب سے بچاتی ہے۔”
(سنن الترمذي: 2890)

تبصرہ:

اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔ اس کا راوی یحییٰ بن عمرو بن مالک نکری ضعیف ہے اور اس کی روایت غیر محفوظ ہے۔ امام دارقطنی اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

خلاصہ

سانحۂ حرہ کے دوران قبر نبوی سے اذان کی آواز کا قصہ ثابت نہیں ہے اور تمام پیش کردہ روایات ضعیف یا موضوع (من گھڑت) ہیں۔ دین اسلام میں کسی بھی عقیدے یا واقعے کی بنیاد مضبوط اور صحیح روایات پر ہونی چاہیے، اور جھوٹی یا ضعیف روایات سے عقیدہ بنانا غلط ہے۔

حوالہ جات

مسند الدارمي: 44/1
الطبقات الکبری: 132/5
الدرۃ الثمینۃ في أخبار المدینۃ: 159
فتح الملہم: 419/3
سنن الترمذي: 2890
الجرح والتعدیل: 486/4, 228/7
کتاب الضعفاء والمتروکین: 397, 535
تقریب التہذیب: 5913, 8515
المجروحین: 114/3, 275/2
تاریخ ابن معین: 511/2
الکامل: 319/5
فتح الباری: 298/11

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!