ہدی (منیٰ میں قربانی) کےلیے اونٹ کو داہنی جانب جو زخم لگایا جاتا تھا، اسے ‘‘ اشعار’’ کہتے ہیں۔ یہ نبی اکرمﷺ کی سنت مبارکہ ہے، جیسا کہ:
❀ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
صلّی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم بذی الحلیفۃ، ثمّ دعا بناقتہ، فأشعرھا فی صفحۃ سنامھا الأیمن، وسلت الدّم، وقلّدھا نعلین، ثمّ رکب راحتلہ، فلمّا استوت بہ علی البیداء أھلّ بالحجّ۔
‘‘ رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ مقام پر ادا کی، پھر اپنی اونٹنی منگوائی، اس کی کوہان کی دائیں جانب اشعار کیا اور خون کو آس پاس لگا دیا اور اس کے گلے میں دو جوتے لٹکا دئیے، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے۔ جب وہ سواری آپﷺ کو لے کر بیداء پر چڑھ گئی تو آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا۔’’
(صحیح مسلم: ۱۲۴۳)
امام ترمذیؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
والعمل علی ھذا عند أھل العلم من أصحاب النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم و غیرھم، یرون الإشعار، وھو قول الثّوریّ والشّافعیّ و أحمد وإسحاق۔
‘‘ اسی پر نبی اکرمﷺ کے صحابہ اور دوسرے اہل علم کا عمل ہے، وہ اشعار کو جائز سمجھتے ہیں۔ امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶)
❀ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
فتلت قلائد بُدن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم بیدی، ثمّ أشعرھا وقلّدھا۔
‘‘ میں نے رسول اللہﷺ کی قربانی کے اونٹوں کے قلا دے اپنے ہاتھ سے بٹے، پھر آپﷺ نے ان کو اشعار کیا اور قلادے پہنائے۔’’
(صحیح البخاری: ۱۶۹۶، صحیح مسلم: ۳۶۲/۱۳۲۱)
واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ اشعار، جو کہ نبی اکرمﷺ کی سنت ہے، کومثلہ کہتے ہیں، یعنی امام صاحب اسے جائز نہیں سمجھتے۔ بعض الناس نے امام صاحب کے قول کی یہ تاویل کی ہےکہ جب لوگوں نے اشعار میں مبالغہ کیا تو اس وقت امام صاحب نے مثلہ کہا ہے۔
لیکن یہ تاویل سراسر باطل ہے، کیونکہ اس پرکوئی دلیل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اس مسئلہ میں امام صاحب کا خوب ردّ کیا ہے۔ ائمہ دین، محدثین کرام اور علمائے عظامؒ کے اقوال ملاحظہ ہوں:
❀ حافظ نوویؒ (۶۴۱۔۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:
و قال أبو حنیفۃ: الإشعار بدعۃ، لأنّہ یخالف الٔاحادیث الصحیۃ المشھور فی الإشعار، وأمّا قولہ: إنّہ مثلۃ، فلیس کذلک، بل ھذا کالفصد والحجامۃ والکّی والوسم۔
‘‘ امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ اشعار بدعت ہے، کیونکہ یہ مثلہ ہے۔ ان کا یہ قول اشعار کے بارے میں بہت سی صحیح اور مشہور احادیث کے خلاف ہے۔ رہا ان کا اشعار کو مثلہ کہنا تو یہ درست نہیں، کیونکہ اشعار ایسے ہی ہے، جیسے فصد، سنگی، داغ دینا اور نشان لگانا ہوتاہے۔’’
(شرح صحیح مسلم للنووی: ۴۰۷/۱)
❀ امام وکیع بن جراحؒ (م ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:
لا تنظروا إلی قول أھل الرّأی فی ھذا، فإنّ الإشعار سنّۃ، وقولھم بدعۃ۔
‘‘ تم اس بارے میں اہل الرائے (ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب) کے قول کو نہ دیکھو۔ اشعار سنت ہے، جبکہ (اس کو بدعت کہنے پر مبنی) ان کا قول خود بدعت ہے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶،وسندہٗ صحیحٌ)
❀ ابوالسائب بن جنادہ کہتے ہیں:
کنا عند و کیع، فقال لرجل عندہ ممن ینظر فی الرأی: أشعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویقول أبو حنیفۃ: ھو مثلۃ، قال الرجل: فإنہ قد روی عن إبراھیم النخعی أنہ قال الإشعار مثلۃ، قال فرأیت وکیعا غضب غضبا شدیدا، وقال: أقول لک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تقول: قال إبراھیم، ما أحقک بأن تجس ثم لا تخرج حتی تنزع عن قولک ھذا۔
‘‘ ہم امام وکیعؒ کے پاس تھے۔ انہوں نے اپنے پاس بیھٹے ہوئے ایک آدمی، جو کہ رائے میں دلچسپی رکھتا تھا، سے فرمایا، اللہ کے رسولﷺ نے اشعار کیا ہے، امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے! آدمی کہنے لگا، ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے اشعار کو مثلہ کہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام وکیعؒ سخت غصہ میں آ گئے اور فرمانے لگے، میں تجھے رسول اللہﷺ کی حدیث سناتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ابراہیم نخعی اس طرح کہتے ہیں۔ میں تجھے اس قابل سمجھتا ہوں کہ تجھے قید کر لیا جائے اور اس وقت تک نہ چھوڑا جائے، جب تک تو اپنے اس قول سے باز نہ آ جائے۔’’
(سنن الترمذی، تحت حدیث: ۹۰۶، وسندہٗ صحیحٌ)
قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ اہل سنت کے بہت بڑے امام وکیعؒ کس قدر اتباع سنت کے جذبہ سے سرشار ہیں؟ حدیث رسول کے خلاف کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ حدیث کے خلاف رائے پیش کرنے والوں پر شدید غصے کا اظہار فرما رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر مسلمان کو ایسا ہی جذبہ و صادقہ نصیب فرمائے۔ آمین
❀ امام ابن خزیمہؒ (م ۳۱۱ھ) حدیث ابن عباس پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب إشعار البُدن فی شقّ السّنام الأیمن، وسلت الدّم عنھا، ضدّقول من زعم أنّ إشعار البُدن مثلۃ، فسمّی سنّۃ النّبیّ صلّی اللہ علیہ وسلّم مثلۃ بجھلہ۔
‘‘ قربانی کے اونٹوں کی کوہان کی دائیں جانب اشعار کرنے اور خون کو لتھڑنے کا بیان، اس شخص کے ردّ میں جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اونٹوں کو اشعار کرنا مثلہ ہے، اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے نبی اکرمﷺ کی سنت کا نام مثلہ رکھ دیا ہے۔’’
(صحیح ابن خزیمۃ: ۱۵۳/۴، ح: ۲۵۷۵)
❀ امام ابن عبدالبرؒ (م ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
و ھذا الحکم لا دلیل علیہ إلّا التّوھّم والظّنّ، ولا تترک السّنن بالظّنون۔
‘‘ (امام ابو حنیفہ کے) اس فیصلے پر کوئی دلیل نہیں، سوائے توہم پرستی اور ظن وتخمین کے، جبکہ سنتوں کو ظن و تخمین کی وجہ سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔’’
(الاستذکار لابن عبدالبر: ۲۶۴/۴)
❀ علامہ ابن حزمؒ (م ۴۵۶ھ) اس بارے میں لکھتے ہیں:
فقال أبو حنیفۃ: أکرہ الإشعار، وھومثلۃ، قال علیّ: ھذا طامّۃ من طوام العالم أن یکون مثلۃ شیء فعلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، أف لکل عقل یتعقب حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویلزمہ أن تکون الحجامۃ، وفتح العرق مثلہ، فیمنع من ذلک، وأن یکون القصاص من قطع الأنف، و قلع الأسنان، وجدع الاذنین مثلۃ، و أن یکون قطع السارق و المحارب مثلۃ، والرجم للزانی المحصن مثلۃ، والصلب للمحارب مثلۃ، إنما المثلۃ فعل من بلغ نفسہ مبلغ انتقاد فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فھذا ھو الذی مثل بنفسہ، والإشعار کان فی حجۃ الوداع والنھی عن المثلۃ کان قبل قیام ذلک بأعوام، فصح أنہ لیس مثلۃ، وھذہ قولۃ لا یعلم لابی حنیفۃ فیھا متقدم من السلف، ولا موافق من فقھاء أھل عصرہ إلا من ابتلاہ اللہ بتقلیدہ، و نعوذ باللہ من البلاء۔
‘‘ امام ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں اشعار کو مکروہ سمجھتا ہوں، یہ تو مثلہ ہے، لیکن یہ کسی عالم کی ہفوات میں سے ہے کہ جس کام کو رسول اللہﷺ نے کیا ہے، اسے وہ مثلہ قرار دے۔ ہر اس شخص پر افسوس ہے، جو رسول اللہﷺ کے فیصلے پر گرفت کرتا ہے۔ ایسی عقل پر یہ لازم آتا ہے کہ اس کے نزدیک سنگی لگوانا، فصد کھولنا وغیرہ بھی مثلہ ہو اور وہ اس سے بھی رک جائے، نیز اس کے نزدیک ناک کاٹنے، دانت اکھیڑنے، کان کاٹنے وغیرہ کا قصاص لینا بھی مثلہ ہو اور چوری اور فسادی آدمی کا ہاتھ کاٹنا بھی مثلہ ہو، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا بھی مثلہ ہو، زمین میں فساد کرنے والے کو سولی دینا بھی مثلہ ہو۔ دراصل مثلہ تو اس نے کیا ہے، جس نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے فعل مبارک پر تنقید تک پہنچا دیا ہے، یہ وہ شخص ہے، جس نے اپنے نفس کا مثلہ کیا ہے۔ حالانکہ اشعار حجۃ الوداع میں کیا گیا تھا اور مثلہ سے ممانعت اس سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔ ثابت ہو کہ یہ مثلہ نہیں۔
یہ امام ابو حنیفہ کا ایسا قول ہے، جس میں ان کا کوئی سلف نہیں، نہ ہی ان کے ہم زمانہ فقہائے کرام میں سے کسی نے ان کی موافقت کی ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالی نے ان کی تقلید کی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ہم فتنہ (تقلید) سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں۔’’
(المحلی لابن حزم: ۱۱۲-۱۱۱/۷)