یہ سوچنا بہت ضروری ہے کہ ہم خدا کے سامنے کس حالت میں کھڑے ہیں۔ اکثر ہم خدا کے احکامات سے چڑ کر اس کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں کیونکہ بعض اوقات اس کے کچھ احکام ہماری پسند کے خلاف ہوتے ہیں، یا وہ ہمیں کچھ ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے جسے کرنے میں ہمیں مشکل محسوس ہوتی ہے۔ اسی چڑچڑاہٹ میں ہم ایک نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں، جسے Oppositional Defiant Disorder کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں انسان کو لگتا ہے کہ وہ خدا کی ہر بات کا انکار کرے، اس کی ہدایات کو توڑ مروڑ کر پیش کرے، اور اس کا مذاق اڑائے۔
ہم نے یہ مان لیا ہے کہ دنیا کی ہر ترقی، ہر بھلائی، اور علم و سائنس کے میدان میں کامیابی صرف انسان کی اپنی ذہانت اور محنت کا نتیجہ ہے، اور اس میں خدا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مثلاً، باغات کی سرسبزی، کھیتوں کی پیداوار، انسانی ترقی، اور حسن و خوبصورتی کو ہم نے محض انسانی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا ہے، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب خدا کی تخلیق کا حصہ ہے۔
یہ سوچ خدا سے بیزاری کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی مرعوبیت کا نتیجہ ہے جو خدا کا انکار کرتے ہیں لیکن دنیا میں خوشحال اور ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ آپ جب "میں نہ مانوں” کی کیفیت میں آ جاتے ہیں تو ہر بات کے معنی بدلنے لگتے ہیں۔
اللہ واضح کرتا ہے کہ دنیا کی ہر نعمت، خواہ وہ سبزہ ہو، پانی ہو، ہوائیں ہوں یا پرندے، سب اللہ کی تخلیق ہیں اور ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیں۔ مائیں بچوں کی پرورش کرتی ہیں، باپ محنت کرتا ہے، دوست محبت اور ساتھ دیتے ہیں، یہ سب اللہ کی عطا کردہ مہربانیوں کا حصہ ہیں۔
انسانی ترقی، علم کی جستجو، اور سائنسی ایجادات بھی دراصل خدا کی تخلیق کردہ عقل کا نتیجہ ہیں۔ اللہ نے انسان کو علم کی طلب کے ساتھ پیدا کیا اور زمین و آسمان کو اس کے لیے مسخر کیا۔ جب انسان خدا کی عظیم تخلیقات کو دیکھتا ہے، تو اس کا دل عاجزی اور شکرگزاری سے بھر جاتا ہے۔ آنکھیں جھک جاتی ہیں، اور دل میں محبت اور بندگی کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔
جب آپ اس حقیقت کو سمجھنے لگتے ہیں کہ اللہ نے ہر وہ چیز تخلیق کی جو ہماری ضرورت اور پسند کے مطابق ہو، تو آپ کا رویہ بدل جاتا ہے۔ اللہ وہ ہے جو علم کا سرچشمہ ہے، اور اس کے ماننے والوں نے ہمیشہ علم و دانش کی روشنی کو پھیلایا ہے۔
آپ جنت کا مذاق اس بنا پر اڑاتے ہیں کہ شاید وہاں علم و دانش کی تسکین کا سامان نہیں ہوگا، لیکن یہ سوچنا نادانی ہے۔ جنت میں ہر وہ چیز موجود ہوگی جو انسان کی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرے گی۔ وہاں نہ صرف امن و سکون ہوگا، بلکہ ہر وہ چیز ملے گی جس کی آپ کو طلب ہوگی۔
خلاصہ:
- خدا کے احکامات سے چڑ اور نافرمانی ایک نفسیاتی کیفیت کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
- دنیا کی تمام نعمتیں اور ترقی دراصل خدا کی تخلیق اور عطا کردہ عقل و علم کا نتیجہ ہیں۔
- جنت میں ہر انسان کی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
- جنت میں سکون، امن، اور وہ سب کچھ ملے گا جس کی انسان کو تمنا ہوگی، بشرطیکہ ہم عاجزی اور محبت کے ساتھ خدا کے سامنے جھکیں۔