خلاصہ
- ایمان اللہ کی عظیم ترین نعمت ہے، اور اس کے ساتھ پیدا ہونا اللہ کی خاص عنایت ہے۔
- جو لوگ "مورثی ایمان” کو کم تر سمجھتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی اس نعمت کی عظمت کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔
- ایمان پر فخر کرنا اور شکر گزار ہونا اللہ کے فضل کی قدر کرنے کے مترادف ہے، اور اس کا ہلکا لینا ایمان کی بے قدری ہے۔
- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا فخر کی بات ہے اور اس نعمت پر شکر ادا کرنا ضروری ہے۔
مورثی ایمان کی حقیقت اور اس کی قدر
ایمان کی بے قدری کے اس دور میں یہ کہنا کہ "مورثی ایمان کی کوئی اہمیت نہیں” دراصل ایک بہت ہی سطحی اور غیر معقول دلیل ہے۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر آپ مسلمان کے گھر پیدا ہو گئے تو اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں، اور اس پر فخر کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن اس طرح کی دلیل ایمان کی حقیقی قدر و قیمت اور اللہ کی نعمتوں کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔
اللہ کی عنایات اور نعمتوں پر شکر گزاری
اگر ہم اس دلیل کو منطقی طور پر دیکھیں، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر خدا نے ہمیں اپنی عنایات اور نعمتوں سے نوازا ہے، تو اس میں شکر و سپاس کا کوئی مقام نہیں؟ بالکل نہیں! اگر اللہ نے کسی کو بینائی، سماعت، اور دیگر جسمانی صلاحیتیں عطا کی ہیں، تو یہ اس کی رحمت اور کرم کا حصہ ہے، اور اس پر شکر ادا کرنا فرض ہے۔ یہی اصول ایمان کی عظیم نعمت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
ایمان کی عظمت اور فخر کا مقام
اگر اللہ نے کسی کو اہل ایمان کے گھر پیدا کیا اور اس کے لیے ایمان قبول کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا راستہ آسان کیا، تو یہ معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ایمان کی دولت اس کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا یقینی طور پر فخر کا مقام ہے۔ اس نعمت کا سہل طریقے سے مل جانا تو اور زیادہ شکر و سپاس کا مستحق ہے، نہ کہ اسے معمولی یا غیر اہم سمجھا جائے۔
ایمان کی ناقدری اور اس کے نتائج
یہ کہنا کہ "مورثی ایمان” کی کوئی اہمیت نہیں، دراصل اللہ کی عطا کردہ عظیم نعمت کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ ایمان کے ساتھ پیدا ہونا خود اللہ کی طرف سے ایک عظیم فضل ہے، اور اس پر فخر کرنے اور شکر ادا کرنے کی بجائے اسے ہلکا سمجھنا ایک غلط رویہ ہے۔