اسلامی علمی ورثہ اور مغربی سرقہ
تحریر : محمد محمود مصطفی

خلاصہ

  • مسلمانوں کے تعلیمی نظام میں مغربی علوم کو غیر ضروری اہمیت دی جا رہی ہے جبکہ اسلامی ورثے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
  • امام ابن تیمیہ نے زمین کی کروی شکل اور قانون جاذبیت جیسے سائنسی اصول صدیوں پہلے بیان کیے۔
  • مغربی مورخین مسلمانوں کی علمی خدمات کو چھپا کر مغربی سائنسدانوں کو ان کا موجد قرار دیتے ہیں۔
  • مسلمانوں کو اپنے علمی ورثے کو پہچاننے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مغربی علمی تسلط سے آزاد ہو سکیں۔

مغربی افکار کی اندھی تقلید

آج مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ذہنی غلامی میں اس حد تک ڈوب چکے ہیں کہ مغربی افکار اور نظریات کو بلاچوں چراں تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو درسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، ان میں یورپ کو تمام علوم کا سرچشمہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہر شعبہ، خواہ وہ تعلیم ہو یا ثقافت، مغربی اثرات سے مغلوب ہے۔ مغربی ترقی کی اندھی تقلید میں ہم نے ان کے مفید اور تعمیری پہلوؤں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہر قسم کے غیر ضروری اور نقصان دہ عناصر کو اپنا لیا ہے۔

سائنسی اصول اور مسلمانوں کا علمی ورثہ

درسی کتابوں میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ زمین کے بیضوی ہونے کا انکشاف پرتگالی بحری مہم جو، فرڈی نینڈ میگلون نے کیا تھا اور خطوطِ عرض بلد و طول بلد کا موجد مرکٹور گوھارڈوی تھا۔ اسی طرح قانون جاذبیت کو نیوٹن کی ایجاد سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سائنسی اصول صدیوں پہلے مسلم علما کے ذریعے معلوم ہو چکے تھے۔

امام ابن تیمیہ اور اسلامی سائنسی ورثہ

مثال کے طور پر، امام ابن تیمیہ نے زمین کی کروی شکل اور اس کے گرد سمندر کے پھیلاؤ کا ذکر اپنی تصانیف میں کیا ہے۔ انہوں نے زمین کے نیچے اور مرکز ثقل کے تصورات کو سادہ اور قابل فہم انداز میں بیان کیا۔ ان کی یہ تحقیقات مغربی سائنس سے صدیوں قبل کی ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج ان اہم اسلامی علمی حقائق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

ابن تیمیہ کے مطابق، زمین کے بیشتر حصے پر سمندر محیط ہے اور خشکی زمین کا صرف ایک چھٹا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ زمین کا مرکز ثقل ہی زمین کی کشش ثقل کا باعث ہے، اور یہی اصول قانون جاذبیت کی بنیاد ہے، جسے نیوٹن نے بعد میں مغربی دنیا میں متعارف کرایا۔

مغربی تاریخ اور مسلم علمی خدمات

اسی طرح، خطوط عرض بلد اور طول بلد کا اصول، جسے مغرب میں نئی ایجاد کہا جاتا ہے، دراصل امام ابن تیمیہ نے صدیوں پہلے بیان کیا تھا۔ ان کی تحقیق میں سورج کے طلوع و غروب کے اوقات اور زمین کے نصف کرہ جات کی تفصیل بھی شامل ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے فلکیات اور ارضیات کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔

مغربی مورخین مسلمانوں کی ان علمی خدمات کو نظرانداز کر کے ہر سائنسی کلیے اور ایجاد کو اپنے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ ایک منظم سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے علمی اور تہذیبی ورثے کو فراموش کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم علما نے نہ صرف ان علوم کو دریافت کیا بلکہ ان کی تفصیل سے وضاحت بھی کی۔

مسلمانوں کی ذمہ داری

یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علمی ورثے کو پہچانیں اور اسے دوبارہ زندہ کریں۔ مغربی تاریخ دانوں اور نصابی ماہرین کی جانب سے جان بوجھ کر کی جانے والی علمی خیانت کو بے نقاب کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو اس بات کا شعور دیں کہ ہمارا علمی ورثہ کسی سے کم نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے