دنیاوی معاملات میں چونکہ اصل اباحت ہے اور حرمت کا ثبوت کسی صحیح و صریح دلیل کا محتاج ہوتا ہے، لہٰذا اس اصول کے تحت زمین کو کرایہ، یعنی ٹھیکہ پر دینا بالکل جائز و درست ہے۔ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں۔
رہا سیدنا رافع بن خدیج اور دوسرے کئی صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زمین کو ٹھیکے پر دینے کی ممانعت کرنا تو اس سے مراد حرمت نہیں، بلکہ محض نرمی کی ہدایت ہے۔ اگر کوئی خود زمین کاشت نہیں کرتا تو کسی دوسرے مسلمان کو بغیر عوض کے زمین دے دینا اس کے لیے بہتر اور کار ثواب ہے۔ رہا ٹھیکے پر دینے کا عمل تو اس میں سے صرف ظلم و زیادتی والی صورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دیا ہے، ہرطرح کے ٹھیکے کو نہیں، کیونکہ :
① اس ممانعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنے والے صحابی رسول سیدنا رافع بن خدیج خود خالی زمین کو کرائے پر دینے کے قائل تھے۔ چنانچہ :
❀ حنظلہ بن قیس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سألت رافع بن خديج عن كراء الأرض بالذهب والورق، فقال : لا بأس به، إنما كان الناس يؤاجرون على عهد جرون على عهد النبى صلى الله عليه وسلم على الماذيانات، و أقبال الجداول، وأشياء من الزرع، فيهلك هذا ويسلم هذا، ويسلم هذا و يهلك هذا، فلم يكن للناس كراء إلا هذا، فلذلك زجر عنه، فأماشيء معلوم مضمون، فلا بأس به۔
”میں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع فرمانے کی تو اصل بات یہ ہے کہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ ٹھیکے پر زمین اس شرط پر دیتے تھے کہ پانی کے قریب والی زمین، نالوں کے کناروں پر واقع زمین اور کئی طرح کا (متعین) غلہ ان کا ہو گا۔ اس صورت میں کبھی یہ ہلاک ہو جاتا (نقصان اٹھاتا) اور وہ سلامت رہ جاتا (نفع مند رہتا) اور کبھی یہ سلامت رہ جاتا اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ ان دنوں میں لوگوں کے پاس زمین کو ٹھیکے پر دینے کی صرف یہی صورت تھی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔ رہا ٹھیکے کا وہ معاملہ جو معلوم و متعین ہو (نقدی کی صورت میں ہو) تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح البخاري : 2346، صحيح مسلم : 166/1547، واللفظ له]
❀ صحیح مسلم [ 117/1547] کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
كنا أكثر الأرنصار حقلا، قال : كنا نكري الأرض على أن لنا هذه، ولهم هذه، فربما أخرجت هذه، ولم تخرج هذه، فنهانا عن ذلك، و أما الورق فلم ينهنا
”ہم سب انصار سے بڑھ کر کاشتکاری کرنے والے تھے۔ ہم زمین کو اس شرط پر ٹھیکے پر حاصل کرتے تھے کہ زمین کا یہ حصہ ہمارے لیے اور یہ حصہ، ان (ملکوں) کے لیے ہے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا کہ زمین کا ایک خطہ اچھا غلہ اگاتا اور دوسرا خطہ نہ اگاتا۔ اس طریقے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ رہی چاندی (نقدی کے عوص ٹھیکے کا معاملہ کرنا) تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔“
❀ صحیح بخاری کی ایک روایت میں سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں :
و أما الذهب والورق، فلم يكن يومئذ
رہا سونے اور چاندی کے عوض ٹھیکے کا معاملہ تو یہ ان دنوں میں تھا ہی نہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ [صحيح البخاري : 2327]
◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔
”اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔“ [شرح السنة للبغوي : 263/8]
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين : كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين
”سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔“ [مجموع الفتاوي لابن تيمية : 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية : 163]
◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
و قال ابن المنذر : قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل
”سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا]۔“ [ حاشية ابن القيم على سنن ابي داود : 186/9]
◈ نیز لکھتے ہیں :
المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم ۔
”زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔“ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد : 193/9]
◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق
”اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔“ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد : ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے ؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
اس بارے میں حدیث رسول بھی ملاحظہ فرمائیں :
② سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما يزرع ثلاثة : رجل منح أرضا فهو يزرع ما منح، و رجل له أرض فهو يزرعها، و رجل استكرٰي أرضا بذهب أو فضة۔
”تین آدمی ہی زمین کاشت کرنے کے اہل ہیں، ایک وہ جس کو کوئی زمین تخفۃ دے دی گئی ہو اور وہ اس میں کاشت کرے اور دوسرا وہ شخص، جس کے پاس اپنی زمین ہو اور وہ اس میں کاشت کرے اور تیسرا وہ شخص، جو زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر حاصل کرتا ہے اور اس میں کاشت کرتا ہے۔“ [سنن النسائي : 3890، مصنف ابن ابي شيبة : 85/7، ح : 22872، السنن الكبرٰي للنسائي : 4617، سنن الدارقطني : 96/3، ح : 145، وسندهٗ حسن]
↰ یہ حدیث ممانعت والی احادیث کے مطلق نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور صراحت سے بتاتی ہے کہ نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل جائز و درست ہے۔
③ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
يغفر الله لرافع بن خديج ! أنا والله أعلم بالحديث منه، إنما أتي رجلان قد اقتتلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع، قال فسمع رافع قوله : لا تكروا المزارع
”اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے۔ میں اس (زمین کے ٹھیکے کی ممانعت والی) حدیث کو ان سے بہتر جانتا ہوں۔ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے، جو (ٹھیکے والے معاملے میں) لڑ پڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تمہاری یہی صورت حال ہے تو پھر زمینوں میں ٹھیکے کا معاملہ نہ کیا کرو۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا فرمان ہی سنا تھا کہ زمینوں میں ٹھیکے کا معاملہ نہ کیا کرو (ممانعت کی وجہ نہیں سن سکے)۔“ [مسند الامام احمد : 187/5، سنن ابي داوٗد : 3390، سنن ابن ماجه : 2461، سنن النسائي : 3927، السنن الكبرٰي : 106/3، وسندهٗ حسن]
↰ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے تھے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کے کرائے والی حدیث میں ممانعت کو مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز ہے، اسی لیے ان سے حدیث سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ٹھیکے کو ترک کر دیا تھا، لیکن ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی ممانعت کو ظلم و زیادتی والی صورتوں کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مطلق نہیں اور ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز نہیں۔
④ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
كنت أعلم فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم أن الأرض تكري، ثم خشي عبدالله أن يكون النبى صلى الله عليه وسلم قد أحدث فى ذلك شيئا لم يكن يعلمه، فترك كراء الأرض
”میں جانتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زمین ٹھیکے پر لی دی جاتی تھی۔ (سالم بن عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ) پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (سیدنا رافع بن خدیج کی حدیث سن کر) اس بات سے ڈر گئے کہ شاید اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نیا حکم کردیا ہو، لہٰذا انہوں نے زمین کے ٹھیکے کا معاملہ چھوڑ دیا۔“ [صحيح البخاري : 2345، صحيح مسلم : 122/1547]
↰ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زمین کے ٹھیکے کا معاملہ ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عہد تک ہوتا رہا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد بھی یہ معاملہ کرتے رہے، لیکن جب سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث ان تک پہنچی تو انہوں نے اسے مطلق سمجھ کر ٹھیکہ چھوڑ دیا، حالانکہ یہ بات بالصراحت گزر چکی ہے کہ اس سے مطلق ممانعت مراد نہیں تھی، بلکہ صرف کچھ خرابی والی صورتوں سے منع کیا گیا تھا۔
⑤ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
إن أمثل ما أنتم صانعون تستأجروالأرض البيصاء بالذهب والورق
”سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ تم خالی زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے (ٹھیکے) پر حاصل کرو۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 87/7، مصنف عبدالرزاق : 492/4، السنن الكبيٰري للبيهقي : 133/6، صحيح البخاري : قبل 2346، تعليقا، وسنده صحيح]
⑥ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام سالم رحمہ اللہ سے زمین کو نقدی کے عوض ٹھیکے پر لینے دینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : لا بأس بها بالذهب والورق ”سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ [الموطا للامام مالك : 1392، وسندہ صحيح]
⑦ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”میں نے امام سعید بن مسیب تابعی سے زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض کرائے پر دینے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [الموطا للامام مالك : 1391، وسندہ صحيح]
⑧ امام عبیداللہ بن العمری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”امام سالم بن عبداللہ بن عمر، امام سعید بن مسیب، امام عروہ زبیر اور امام زہری رحمہ اللہ سب زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے دینے کو کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 22877، وسنده صحيح]
⑨ حجاج بن دینار، امام محمد بن علی بن حسین بن علی ابی طالب، المعروف ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
”میں نے امام ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ سے ایسی خالی زمین کے بارے میں پوچھا :، جس میں کوئی درخت نہ ہو، کیا ہم اسے درہم و دینار کے عوض کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں ؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ بہت اچھا کام ہے، ہم مدینہ میں اس طرح کرتے ہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 22881، وسنده حسن]
⑩ معاویہ بن ابی اسحاق بیان کرتے ہیں :
سألت سعيد بن جبير عن إجارة الأرض، فقال : لا بأس بها
”میں نے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے زمین کو ٹھیکے پر لینے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 22883، وسندہ حسن]
الحاصل :
نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل درست ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ حدیث رسول، فہم صحابہ، عمل تابعین اور جمہورامت کے تعامل سے یہی ثابت ہوتا ہے۔