وقف شدہ سکول کی جگہ پر مسجد بنانے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃجلد 1

سوال

کیاسکول کے لئے وقف جگہ پر مسجد بنائی جا سکتی ہے؟

الجواب

اوقاف میں اصل حکم یہی ہے کہ اوقاف اور واقف کی شروط میں تبدیلی نہ کی جائے۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود ‘‘
اے ایمان والو تم اپنے معاہدوں کو پورا کرو۔
یہاں معاہدوں کو پورا کرنے کے حکم میں اصل اور شروط سب داخل ہیں۔لیکن اگر تبدیلی کرنے سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہو تو بعض اہل علم اس کے جواز کی گنجائش نکالتے ہیں:
دکتور خالد المشیقح فرماتے ہے:
شروط واقف میں تبدیلی کی تین صورتیں ہیں۔
۱۔تبدیلی من الاعلی الی الادنی:مثلا واقف نے قریبی رشتہ دارفقراء پر وقف کیا ہو،اور اس کو اجنبی فقراء کی طرف پھیر دیا جائے۔ یہ حرام ہے،اور بالاتفاق ناجائزہے۔
۲۔تبدیلی مساوی الی مساوی:مثلا واقف نےاپنے شہر کے فقراء پر وقف کیا ہو،اور اسے کسی دوسرے شہر کی طرف پھیر دیا جائے۔ یہ بھی حرام ،اور بالاتفاق ناجاءزہے۔
۳۔تبدیلی من ادنی الی اعلی:مثلا واقف نے عابدوں پر وقف کیا ہو اور اسے علماء کی طرف پھیر دیا جائے۔کیونکہ علماء عابدوں سے افضل ہیں۔اس کے بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں:
پہلا قول: یہ بھی ناجائز اور حرام صورت ہے۔یہ شوافع اور حنابلہ کا قول ہے۔
دوسرا قول: یہ صورت جائز اور حلال ہے۔یہ مالکیہ اور حنفیہ کا قول ہے۔اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
میرا رجحان بھی اس دوسرےقول کی طرف جاتا ہے، کیونکہ اس میں زیادہ فائدے اور اجر وثواب کی امید ہے ،جو واقف کی اصل غرض تھی۔
مذکورہ کلام کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سکول زیادہ مفید ہے یا مسجد؟ مسجد دنیا کی سب سے پاکیزہ اور اللہ کو محبوب جگہ ہے اور سکول سے ہرحال میں ایک افضل مقام ہے۔لہذا اس جگہ پر مسجد تعمیر کی جاسکتی ہے ۔کیونکہ یہ تبدیلی من الادني الي الاعلي ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!