کیا میاں بیوی ایک دوسرے کی میت کو غسل دے سکتے ہیں؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا میاں بیوی کسی ایک کی موت پر ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں؟
جواب : میاں بیوی میں سے جو بھی پہلے وفات پا جائے دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من البقيع، فوجدني وانا اجد صداعا فى راسي، وانا اقول وا راساه، فقال:” بل انا يا عائشة وا راساه، ثم قال: ما ضرك لو مت قبلي، فقمت عليك فغسلتك، وكفنتك، وصليت عليك، ودفنتك » [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ما جاء فى غسل الرجل امراته وغسل المراة زوجها 1465، دارقطني 1809، السنن الكبري للبيهقي 396/6، كتاب الجنائز : باب الرجل يغسل امرأته إذا ماتت، دارمي 39/1، مسند أبى يعلي 56/8]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک آدمی کے جنازے سے فارغ ہو کر) بقیع سے واپس لوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حالت میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں ہائے ہائے کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عائشہ ! بلکہ میرے سر میں بھی درد ہو رہا ہے۔“ پھر فرمایا : ”تجھے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا اور تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھے دفن کروں گا۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
«لو كنت استقبلت من امري ما استدبرت ما غسل النبى صلى الله عليه وسلم غير نسائصلى الله عليه وسلم ه » [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ما جآء فى غسل أمرأته وغسل المرأة زوجها 1464، مسند أبى يعل468/7، مسند أحمد 267/6، أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى ستر الميت عند غسله 3141، السنن الكبريٰ للبيهقي 398/3، مستدرك حاكم 50/3، موارد الظمآن 2157، سرح السنة 308/5، مسند شافعي 211/1]
”اگر مجھے پہلے یہ بات یاد آ جاتی جو مجھے بعد میں یاد آئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویوں کے سوا کوئی غسل نہ دیتا۔“
قاضی شوکانی رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں :
«فيه دليل علٰي أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت وهى تغسله قياسا » [نيل الأوطار 31/4]
اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت جب مر جائے تو اسے اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے اور اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بھی خاوند کو غسل دے سکتی ہے۔
کیونکہ شوہر اور بیوی کا ایک پردہ ہے، جس طرح مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے اسی طرح عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔
علامہ محمد بن اسماعیل صاحب سبل السلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«فيه دلالة علٰي أن للرجال ان يغسل زوجته وهو قول الجمهور» [سبل السلام 741/2، 742]
”اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور یہی قول جمہور ائمہ محدثین کا ہے۔“
اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں :
«أن اسماء بنت عميس غسلت ابابكر الصديق حين توفي» [مؤطا للامام مالك، كتاب الجنائز 133، عبدالرزاق 410/3، الأوسط لابن المنذر 335/5، شرح السنة 308/5]
”جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے انہیں غسل دیا۔“
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
« أن فاطمة اوصت أن يغسلها زوجها على واسماء فغسلاها » [دارقطني، كتاب الجنائز : باب : الصلاة على القبر 1833، السنن الكبريٰ للبيهقي 396/3، مصنف عبدالرزاق 410/3، شرح السنة 309/5، مسند شافعي 211/1، حلية الأولياء 43/2]
”بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی کہ انہیں ان کا خاوند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دیں تو ان دونوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔“
علامہ احمد حسن محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«يدل علٰي ان المرأة يغسلها زوجها وهى تغسله باجماع الصحابة لأنه لم ينقل من سائر الصحابة انكار علٰي اسماء وعلي فكان اجماعا» [حاشية بلوغ المرام 105]
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اس کا شوہر غسل دے سکتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے، اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اس لیے کہ اسماء بنت عمیس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما پر کسی بھی صحابی کا انکار منقول نہیں، تو یہ مسئلہ اجماعی ہوا۔“
عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا تو سب اہلِ علم کے ہاں متفق علیہ ہے۔ [الأوسط لابن المنذر 334/5]
البتہ مرد کا اپنی بیوی کو غسل دینا مختلف فیہ ہے۔ جمہور ائمہ ومحدثین کے ہاں یہ جائز و درست ہے اور یہی بات صحیح ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔
امام ابوبکر محمد بن ابراہیم المعروف بابن المنذر رحمہ اللہ نے علقمہ، جابر بن زید، عبدالرحمٰن بن اسود، سلیمان بن یسار، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، قتادہ، حماد بن ابی سلیمان، مالک، اوزاعی، شافعی، احمد ابن حنبل اور اسحاق بن راہویہ جیسے کبار ائمہ ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم سے یہی بات نقل کی ہے۔ [الأوسط 335/5۔ 336]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء