اخلاص کی فضیلت اور ریاکاری کی مذمت پر چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

إن الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده الله فلا مضل له : ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد

● بَابٌ فَضْلِ الْاِخْلَاصِ وَإِصْلَاحِ السَّرِيرَةِ

◈ اخلاص اور اصلاح نیت کی فضیلت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾

﴿البينة : 5﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا﴾

﴿الكهف : 110﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’کہہ دے میں تو تم جیسا ایک بشر ہی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘

◈ حدیث 1:

﴿عن عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله ﷺ: إنما الأعمال بالنية ، وإنما لامريء ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله ، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها ، أو امرأة يتزوجها ، فهجرته إلى ما هاجر اليه﴾
صحيح البخارى، كتاب الإيمان، رقم : 1، صحيح مسلم، کتاب الامارة، رقم :4927.

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی ۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے۔ اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔

◈ حدیث 2:

﴿وعن نافع بن جبير بن مطعم قال: حدثتني عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله ﷺ: يغرو جيش الكعبة فإذا كانوا ببيداء من الأرض يخسف بأولهم وآخرهم ، قالت: قلت: يا رسول الله كيف يخسف بأولهم وآخرهم ، وفيهم أسواقهم ومن ليس منهم؟ قال: يخسف بأولهم وآخرهم ثم يبعثون على نياتهم.﴾
صحیح بخاری، کتاب البیوع ، رقم : 2118 ، صحيح مسلم، رقم : 7244.

اور نافع بن جبیر بن مطعم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سیدہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قیامت کے قریب ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا۔ جب وہ مقام بیداء میں پہنچے گا تو انہیں اول سے آخر تک سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ ! اسے شروع سے آخر تک کیونکر دھنسایا جائے گا جبکہ وہیں ان کے بازار بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان لشکریوں میں سے نہیں ہو گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! شروع سے آخر تک ان سب کو دھنسا دیا جائے گا، پھر ان کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے۔

◈ حدیث 3:

﴿وعن عبيد الله ابن القبطية قال: دخل الحارث بن أبى ربيعةوعبد الله بن صفوان وأنا معهما على أم سلمة أم المؤمنين فسألاها عن الجيش الذى يخسف به ، وكان ذلك فى أيام ابن الزبير، فقالت: قال رسول الله ﷺ: يعوذ عائد بالبيت فيبعث إليه بعث ، فإذا كانوا ببيداء من الأرض خسف بهم. فقلت يا رسول الله فكيف بمن كان كارها؟ قال: يخسف معهم ولكنه يبعث يوم القيامة على نيته .﴾
صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب الخسف بالجيش الذي يؤم البيت، رقم : 7712 .

اور عبید اللہ بن قبطیہ بیان کرتے ہیں کہ حارث بن ابی ربیعہ اور عبد اللہ بن صفوان اور میں ام المومنین ام سلمہؓ کے پاس آئے۔ پس ان دونوں نے ام المومنین سے اس لشکر کی بابت دریافت کیا جو دھنسا دیا جائے گا، اور یہ عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت کے زمانہ کی بات ہے، تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ایک پناہ پکڑنے والا بیت اللہ شریف میں پناہ پکڑلے گا۔ پس اس سے لڑنے کے لیے ایک لشکر بھیجا جائے گا اچانک وہ مدینہ منورہ کے قریب بیداء نامی جگہ پر دھنسا دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لشکر میں زبر دستی داخل کیے جانے والے کا کیا بنے گا ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وہ بھی انہی کے ساتھ دھنسا دیا جائے گا لیکن قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

◈ حدیث 4:

﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: إن الله لا ينظر إلى صوركم ، واموالكم ، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم .﴾
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والادب، رقم : 6543.

اور حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

◈ حدیث 5:

﴿وعن أبى أمامة الباهلي قال: جاء رجل إلى النبى ﷺ فقال: أرأيت رجلا غزا يلتمس الأجر والذكر ماله؟ فقال رسول الله ﷺ شيء له ، فأعادها ثلاث مرات ، يقول له رسول الله ﷺ: لا شيء له ثم قال: إن الله لا يقبل من العمل إلا ما كان له خالصا وابتغي به وجهه﴾
سنن النسائي، كتاب الجهاد، باب من غزا يلتمس الأجر والذكر، رقم : 3140، ،سلسلة الصحيحة، رقم : 52.

اور حضرت ابوامامہ باہلیؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا، آپ ہمیں اجر و شہرت کے لیے لڑنے والے کے متعلق بتائیں کہ اسے کیا ملے گا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اسے کچھ نہیں ملے گا۔ اس آدمی نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی، آپ ﷺ نے تینوں مرتبہ یہی ارشاد فرمایا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا:

اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو خالص ہو اور اسی کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔

◈ حدیث 6:

﴿وعن ابن عمر رضى الله عنهما أن رسول الله ﷺ قال: بينما ثلاثة نفر ممن كان قبلكم يمشون إذ أصابهم مطر ، فأووا إلى غار فانطبق عليهم ، فقال بعضهم لبعض إنه والله يا هؤلاء لا ينجيكم إلا الصدق ، فليدع كل رجل منكم بما يعلم أنه قد صدق فيه . فقال واحد منهم اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي أجير عمل لى على فرق من أرة ، فذهب وتركه وأنى عمدت إلى ذلك الفرق فزرعته، فصار من أمره أني اشتريت منه بقرا ، وأنه أتاني يطلب أجره، فقلت له: اعمد إلى تلك البقر فسقها ، فقال لي: إنما لي عندك فرق من أرة فقلت له: اعمد إلى تلك البقر ، فإنها من ذلك الفرق . فساقها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا فانساحت عنهم الصخرة. فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي أبوان شيخان كبيران ، فكنت آتيهما كل ليلة بلبن غنم لي ، فأبطأت عليهما ليلة، فجئت وقد رقدا وأهلي وعيالى يتضاغون من الجوع، فكنت لا أسقيهم حتى يشرب أبواى، فكرهت أن أوقظهما ، وكرهت أن أدعهما فيستكنا لشربتهما ، فلم أزل أنتظر حتى طلع الفجر . فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا . فانساحت عنهم الصخرة حتى نظروا إلى السماء فقال الآخر: اللهم إن كنت تعلم أنه كان لي ابنة عم من أحب الناس ، إلى وأنى راودتها عن نفسها فأبت إلا أن آتيها بمائة دينار ، فطلبتها حتى قدرت ، فأتيتها بها فدفعتها إليها فأمكنتني من نفسها ، فلما فعدت بين رجليها فقالت اتق الله ولا تفض الخاتم إلا بحقه، فقمت وتركت المائة الدينار . فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك من خشيتك ففرج عنا ، ففرج الله عنهم فخرجوا .﴾
صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب إذا اشترى شيئاً لغيره بغیر اذنه فرضی، رقم : 3465، صحيح مسلم، کتاب الذكر والدعاء، باب قصة اصحاب الغار الثلاثة، رقم :6949۔

اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

پچھلے زمانے میں (بنی اسرائیل میں سے) تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے انہیں آ لیا۔ وہ تینوں پہاڑ کے ایک کھوہ (غار) میں گھس گئے (جب وہ اندر چلے گئے) تو غار کا منہ بند ہو گیا۔ اب تینوں آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی اے اللہ! تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا جس نے ایک فرق (تین صاع) چاول کی مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص (غصہ میں آ کر) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اس ایک فرق چاول کو لیا اور اس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خرید لیے۔ اس کے بہت عرصہ بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہا کہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں، ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرا تو صرف ایک فرق چاول تم پر ہونا چاہیے تھا۔ میں نے اس سے کہا، یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ اسی ایک فرق کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو تو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھر دوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ ! تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں روزانہ رات میں اپنی بکریوں کا دودھ لا کر پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا (کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور اس کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتے) پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل دور کر دے۔ اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سواشر فی لاکر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی ۔ آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ ۔ میں (یہ سنتے ہی) کھڑا ہو گیا اور سواشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔

◈ حدیث 7:

﴿وعن أبى بن كعب قال: قال رسول الله ﷺ: بشر هذه الأمة بالسناء والرفعة والدين والنصر والتمكين فى الأرض. وهو يشك فى السادسة. قال فمن عمل منهم عمل الآخرة للدنيا لم يكن له فى الآخرة من نصيب .﴾
مسند امام أحمد : 134/5 – شیخ حمزه زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ۔

اور حضرت ابی بن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اس امت کو چمک (بلندی)، رفعت، دین، نصرت اور زمین میں اقتدار کی خوشخبری دے دو اور انہیں چھٹے کے بارے میں شک ہے، فرمایا جس نے ان میں سے آخرت کا عمل دنیا کے لیے کیا اس کو آخرت میں ثواب ملے گا۔

◈ حدیث 8:

﴿وعن أبى هريرة أن رسول الله ﷺ قال: يقول الله: إذا أراد عبدى أن يعمل سيئة فلا تكتبوها عليه حتى يعملها، فإن عملها فاكتبوها بمثلها ، وإن تركها من أجلى فاكتبوها له حسنة ، وإذا أراد أن يعمل حسنة فلم يعملها فاكتبوها له حسنة ، فإن عملها فاكتبوها له بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف.﴾
صحيح البخارى، كتاب الرقاق، رقم : 7501 ، صحیح مسلم، كتاب الإيمان، رقم: 204.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو یہاں تک کہ اسے کر نہ لے۔ جب اس کو کر لے پھر اسے اس کے برابر لکھو اور اگر اس برائی کو وہ میرے خوف سے چھوڑ دے تو اس کے حق میں ایک نیکی لکھو اور اگر بندہ کوئی نیکی کرنی چاہیے تو اس کے لیے ارادہ ہی پر ایک نیکی لکھ لو اور اگر وہ اس نیکی کو کر بھی لے تو اس جیسی دس نیکیاں اس کے لیے لکھو۔

◈ حدیث 9:

﴿وحدثنا أبو هريرة عن محمد رسول الله ﷺ فذكر أحاديث منها قال: قال رسول الله ﷺ: قال الله عز وجل: إذا تحدث : عبدى بأن يعمل حسنة فأنا أكتبها له حسنة ما لم يعمل . فإذا عملها فأنا أكتبها بعشر أمثالها . وإذا تحدث بأن يعمل سيئة فأنا أغفرها له ما لم يعملها فإذا عملها فأنا أكتبها له بمثلها . وقال رسول الله ﷺ: قالت الملائكة: رب ذاك عبدك يريد أن يعمل سيئة وهو أبصر به فقال: ارقبوه فإن عملها فاكتبوها له بمثلها ، وإن تركها فاكتبوها له حسنة ، إنما تركها من جرائي﴾
صحیح مسلم، کتاب الإيمان، رقم : 244.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ کسی نیکی کے کرنے کا ارادہ و نیت کرتا ہے تو میں اس کے عمل کرنے سے پہلے ہی اس کی ایک نیکی لکھ لیتا ہوں اگر عمل کر لے تو میں دس گنا لکھ لیتا ہوں اور جب کسی برائی کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو جب تک وہ برائی اس سے سرزد نہ ہو تو میں اس کو معاف کرتا ہوں اگر وہ برائی کر لے تو میں اس کے بدلے ایک گناہ ہی لکھتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فرشتے کہتے ہیں اے رب! یہ بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے، (حالانکہ وہ اس کے معاملہ کو زیادہ جانتا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اس کا انتظار کرو اور اس کو مہلت دو اگر یہ برائی کر لے تو ایک لکھنا اور اگر اس برائی کو ترک کر دے اور اس سے باز آ جائے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ اس نے یہ گناہ میری وجہ سے ترک کیا۔

◈ حدیث 10:

﴿وعن زيد بن ثابت قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه ، ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم أبدا ، إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الأمر ، ولزوم الجماعة فإن دعوتهم تحيط من ورائهم . وقال: من كان همه الآخرة جمع الله شمله .﴾
مسند أحمد : 183/5۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

اللہ اس بندے (کے چہرے) کو تروتازہ رکھے جو ہماری حدیث سن کر اچھی طرح یاد کرے حتی کہ آگے دوسرے کو پہنچا دے۔ کیونکہ بعض دین کی بات کے حامل پوری طرح سمجھ نہیں سکتے اور بعض سمجھنے والوں سے بھی دوسرے زیادہ سمجھ دار موجود ہوتے ہیں تین خصلتیں ایسی ہیں کہ کسی بھی مسلمان کا دل ان پر بخیل نہیں ہوتا یعنی وہ خوشی و رضا سے ان کو ادا کرتا ہے۔

➊ اللہ تعالیٰ کے لیے عمل میں اخلاص۔

➋ حکام و ولاة الامور کی خیر خواہی ۔

➌ مسلمانوں کی جماعت کا لزوم ۔ (اس طرح ان کی دعاؤں کا مستحق ہو سکے گا) کیونکہ ان کی دعائیں جماعت کے تمام افراد کو شامل ہیں۔ اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس کی نیت و ارادہ صرف آخرت کا ہوگا اللہ اس کے تمام افکار و پریشانیاں ختم کر کے حالات درست و سازگار بنادے گا۔

◈ حدیث 11:

﴿وعن زيد بن ثابت قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: نضر الله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه ، ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم أبدا ، إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الأمر ، ولزوم الجماعة فإن دعوتهم تحيط من ورائهم . وقال: من كان همه الآخرة جمع الله شمله .﴾
صحیح مسلم، کتاب الأقضية، رقم : 4481.

اور حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بلاشبہ اللہ تمہارے لیے تین چیزیں پسند کرتا ہے اور تین نا پسند کرتا ہے، وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو اور وہ تمہارے لیے قیل و قال (فضول باتوں) کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو نا پسند کرتا ہے۔

● باب : الْإِخْلَاصُ يَمْنَعُ مِنْ دُخُولِ النَّارِ

◈ بیان کہ اخلاص جہنم کی آگ سے محفوظ رکھتا ہے

◈ حدیث 12:

﴿وعن عمرو يعني ابن دينار قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: أنا من شهد معاذا حين حضرته الوفاة يقول: اكشفوا عنى سجف القبة أحدثكم حديثا سمعته من رسول الله ﷺ، وقال مرة: أخبركم بشيء سمعته من رسول الله ﷺ لم يمنعني أن أحدثكم إلا أن تتكلوا سمعته يقول: من شهد لا إله إلا الله مخلصا من قلبه أو يقينا من قلبه لم يدخل النار ، أو دخل الجنة ، وقال مرة: دخل الجنة ولم تمسسه النار .﴾
مسند امام احمد : 236/5۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے جابر بن عبد اللہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو معاذؓ کی وفات کے وقت ان کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے خیمہ کا پردہ دور کر دو کیونکہ میں تمہیں ایسی حدیث بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے مجھے صرف اس بات نے روکے رکھا کہ کہیں تم اس پر بھروسہ نہ کرلو۔ میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے بھی صدق دل اور یقین قلب کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی مستحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جہنم کی آگ اسے تو نہیں چھوئے گی۔

● ریاکاری کے درجات

◈ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے دکھلاوا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾

﴿النساء : 142﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک یہ منافق لوگ اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دھو کہ کو انہی پر ڈال دیتا ہے۔ اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو ڈھیلے ڈھالے کھڑے ہوتے ہیں ، یہ لوگ دوسروں کو دکھلانے کے لیے نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو برائے نام یاد کرتے ہیں۔‘‘

◈ حدیث 13:

﴿وعن أنس بن مالك ، قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول : تلك صلوة المنافق ، يجلس يرقب الشمس ، حتى إذا كانت بين قرنى الشيطان قام فنقرها أربعا ، لا يذكر الله فيها إلا قليلا .﴾
صحیح مسلم مع نووی : 123/5، رقم : 1412.

اور حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یہ منافق کی نماز ہے جو بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے، تو اُٹھ کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت تھوڑا کرتا ہے۔

عبادت میں تصنع اور نمود ونمائش

◈ حدیث 14:

﴿وعن محمود ابن لبيد، قال: خرج النبى ﷺ فقال: يأيها الناس إياكم وشرك السرائر . قالوا: يا رسول الله وما شرك السرائر؟ قال: يقوم الرجل فيصلي ، فيزين صلاته جاهدا لما يرىٰ من نظر الناس إليه فذلك شرك السرائر .﴾
صحيح الترغيب والترهيب : 119/1 ، رقم : 38.

اور سید نا محمود بن لبیدؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

اے لوگو! پوشیدہ شرک سے بچ جاؤ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا :

اے اللہ کے رسول ! پوشیدہ شرک کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص کھڑا نماز پڑھنی شروع کر دے، اور لوگوں کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے محسوس کر کے اپنی نماز کو مزید اچھے طریقے سے پڑھنے لگے ، پس یہی پوشیدہ شرک ہے۔

● ریا کاری کے اسباب

◈ جاہ و حشمت کی حرص کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾

﴿القصص : 83﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’آخرت کا یہ گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں، جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے ، نہ فساد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پر ہیز گاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔‘‘

◈ حدیث 15:

﴿وعن أبى موسى قال: جاء رجل إلى النبى ﷺ فقال: الرجل يقاتل حمية ، ويقاتل شجاعة ، ويقاتل رياء ، ف أى ذالك فى سبيل الله؟ قال: من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو فى سبيل الله .﴾
صحيح بخاري كتاب التوحيد رقم 7458 ، صحیح مسلم کتاب الإمارة، رقم 1904 سنن أبو داؤد، كتاب الجهاد، رقم: 2517 ، سنن ترمذي ، کتاب فضائل الجهاد، رقم: 1646-سنن نسائی، رقم: 3136، سنن ابن ماجه رقم 2783 مسند احمد: 397/4، 405.

اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں، ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:

کوئی شخص حمیت و غیرت کی وجہ سے لڑتا ہے، کوئی بہادری کی وجہ سے لڑتا ہے اور کوئی دکھلاوا کرنے کے لیے لڑتا ہے، تو ان میں سے کون اللہ کے راستے میں ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے لڑتا ہے ، پس وہی اللہ کے راستے میں ہے۔

◈ حدیث 16:

﴿وعن عبد الرحمن بن سمرة قال قال النبى : يا عبد الرحمن لا تسأل الإمارة ، فإنك إن أوتيتها عن مستلة وكلت إليها ، وإن أوتيتها عن غير مستلة أعنت عليها .﴾
صحیح بخارى مع الفتح: 516/11 ، 517 ، کتاب الايمان والنذور، رقم: 6622 صحیح مسلم مع نووی: 206/12 ، سنن ابو داؤد، رقم: 2929 ، سنن ترمذی، رقم: 1528، سنن نسائی: 225/8 ، مسند احمد: 62/5، 63.

اور حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اے عبدالرحمٰن ! امارت (عہدے) کی کبھی درخواست نہ کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر ملے گی تو پھر تجھے اسی کے سپرد کر دیا جائے گا، اور اگر وہ تجھے بغیر مانگے دی گئی تو اس پر (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) تیری مدد کی جائے گی ۔

◈ حدیث 17:

﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: يقول الله سبحانه: الكبرياء ردائي، والعظمة إزاري ، فمن نازعني واحدا منهما ألقيته فى جهنم﴾
مسند احمد : 427414/2 ، 442 ، سنن ابی داؤد، رقم: 4090 ، سنن ابن ماجه كتاب الزهد، رقم: 4174 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 541۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ کبریائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا ازار ہے، پس جس شخص نے ان دونوں صفات میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ شریک ہونا چاہا، تو میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا۔

◈ حدیث 18:

﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: أخنى الأسماء يوم القيامة عند الله رجل تسمى: بملك الأملاك ولا مالك إلا الله .﴾
صحيح بخاری مع الفتح: 588/10 كتاب الأدب، رقم: 6205، مسند احمد: 244/2، سنن ابی داؤد، کتاب الادب، رقم: 4961، سنن ترمذی: 2837 ، مسلم مع نووي: 121/14، مشكل الآثار للطحاوي: 2/.16 ، (قوسين والے الفاظ لَا مَالِكَ إِلَّا الله صحیح مسلم کے ہیں۔)

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ و بدترین نام اس کا ہوگا، جو اپنا نام ’’مَلِكُ الاملاك‘‘ (شہنشاہ) رکھے۔ کیونکہ لا مَالِكَ إِلَّا الله اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔

◈ علم میں ریا کاری

◈ حدیث 19:

﴿وعن أبى هريرةؓ قال: قال رسول الله ﷺ: من تعلم علما مما يبتغى به وجه الله ، لا يتعلمه إلا ليصيب به عرضا فى الدنيا، لم يجد عرف الجنة يوم القيامة .﴾
سنن أبوداؤد، كتاب العلم ، رقم : 3664 – محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے اس علم کو جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، صرف اس غرض سے حاصل کیا کہ وہ اس کے ذریعے دنیاوی مال و متاع حاصل کرے، تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔

◈ حدیث 20:

﴿وعن جابر بن عبد اللهؓ أن النبى ﷺ قال : لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء ، ولا لتماروا به السفهاء ، ولا لتخيروا به المجالس ، فمن فعل ذلك فالنار النار .﴾
سنن ابن ماجه رقم: 254 ، صحیح ابن حبان، رقم: 77 ، مستدرك حاكم: 85/1- ابن حبان اور حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تم علم کو اس لیے نہ سیکھو کہ اس کے ساتھ علماء پر فخر کرو، اور نہ اسے اس لیے سیکھو کہ اس کے ذریعہ کم عقل، بے وقوف لوگوں سے جھگڑتے پھرو، اور نہ ہی اس علم کے ذریعہ عزت کی مجالس کو تلاش کرو، کیونکہ جس شخص نے ایسا کیا، اس کے لیے آگ ہی آگ ہے۔

◈ حدیث 21:

﴿وعن أبى هريرةؓ فقال له ناتل أهل الشام: أيها الشيخ حدتنا حديثا سمعته من رسول الله ﷺ، قال: نعم سمعت رسول الله ﷺ يقول: إن اول الناس يقضى يوم القيامة عليه رجل استشهد ، فأتي به فعرفه نعمه ، فعرفها قال فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت . قال : كذبت ، ولكنك قاتلت لان يقال: جريء ، فقد قيل . ثم أمر به ، فسحب على وجهه ، حتى ألقي فى النار، ورجل تعلم العلم ، وعلمه ، وقرا القرآن، فأتي به ، فعرفه نعمه ، فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم، وعلمته ، وقرأت فيك القرآن قال: كذبت ، ولكثك تعلمت العلم ليقال: عالم، وقرأت القرآن ليقال: هو قاري، فقد قيل . ثم أمر به ، فسحب على وجهه ، حتى ألقي فى النار ، ورجل وسع الله عليه، واعطاه من أصناف المال كله ، فأتي به ، فعرفه نعمه ، فعرفها ، قال فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب أن ينفق فيها إلا أنفقت فيها لك قال: كذبت ، ولكثك فعلت ليقال: هو جواد ، فقد قيل . ثم أمر به ، فسحب على وجهه ، ثم ألقي فى النار .﴾
صحیح مسلم، کتاب الامارة، رقم : 4923.

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ اہل شام میں سے ناتل (بن قیس جزامی رئیس اہل شام) نے ان سے کہا:

شیخ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، کہا:

میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہوگا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا:

میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالی) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے:

یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے پانی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا، وہ فرمائے گا:

تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا:

میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا:

تو نے جھوٹ بولا ، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے :

یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا:

تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا:

میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا:

تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تا کہ کہا جائے:

وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا۔ تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔

حدیث 22:

﴿وعن ابن عباس عن النبى ﷺ قال : من أتى السلطان افتتن﴾
سنن ابوداؤد، کتاب الصيد رقم : 2859 ، سنن ترمذی، کتاب الفتن، رقم: 2256 ، مسند أحمد : 357/1 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1253۔

اور حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے بادشاہ کے پاس حاضری دی وہ آزمائشوں میں مبتلا ہو گیا۔

ریا کاری کی علامات

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(4)الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ(5)الَّذِیْنَ هُمْ یُرَآءُوْنَ﴾

﴿الماعون : 4 تا 7﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’پس اُن نمازیوں کے لیے بڑی بربادی ہے، جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں، جو ریا کاری کرتے ہیں، اور عام برتنے کی چیزیں روک لیتے ہیں۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا﴾

﴿النساء : 142﴾

❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک یہ منافق لوگ اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دھو کہ کو انہی پر ڈال دیتا ہے۔ اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو ڈھیلے ڈھالے کھڑے ہوتے ہیں ، یہ لوگ دوسروں کو دکھلانے کے لیے نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو برائے نام یاد کرتے ہیں۔‘‘

◈ حدیث 23:

﴿عن أبى هريرة قال قال النبى ﷺ : ليس صلاة اثقل على المنافقين من صلاة الفجر والعشاء، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا.﴾
صحيح بخارى مع الفتح: 141/2 ، كتاب الأذان ، رقم: 657، صحیح مسلم: 154/5 ، كتاب المساجد، رقم: 1482.

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ کوئی اور نماز بھاری نہیں ، اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے تو (چل نہ سکنے کی صورت) گھٹنوں کے بل گھسٹ کر چلے آتے۔

● ریا کاری کی ہلا کتیں

ریا کاری کے خطرات

حدیث 24:

﴿وعن أبى سعيد قال: خرج عليه رسول الله ﷺ ونحن نتذاكر المسيح الدجال فقال: ألا أخبركم بما هو اخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟ قال: قلنا: بلى ، فقال: الشرك الخفي ، أن يقوم الرجل يصلي فيزين صلاتة، لما يرى من نظر رجل .﴾
سنن ابن ماجه ، کتاب الزهد، رقم: 4204- امام ابو بوصیری، اور علامہ البانیؒ نے اس کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

اور حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے تو ہم مسیح دجال کے بارے میں بحث کر رہے تھے ، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتلاؤں جو میرے نزدیک تمہارے اوپر مسیح دجال (کے فتنے) سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟ ہم نے کہا:

کیوں نہیں، آپ ہمیں بتلائیں، تو آپ نے ارشاد فرمایا:

وہ شرک خفی ہے یعنی جب نمازی کسی شخص کو اپنی طرف نظر کرتا دیکھے تو اپنی نماز کو مزین کر کے اچھی طرح پڑھنے لگتا ہے۔

◈ حدیث 25:

﴿وعن ابن كعب بن مالك الأنصاري عن أبيه قال: قال رسول الله ﷺ : ما ذنبان جائعان أرسلا فى غنم بأفسد لها من حرص المرء على المال والشرف لدينه .﴾
سنن ترمذی، رقم : 2376 ، مسند احمد 4563-460 ، مسند ابی داؤد طیالسی مع منحة المعبود، رقم: 2201 ، مسند دارمی: 340/2، رقم : 2772 ، شرح السنة للبغوى 258/14، التاريخ الكبير للبخاري :150/1- امام ترمذیؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔

اور حضرت ابو کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں میں کھلے چھوڑ دیے جائیں تو اتنا فساد اور تباہی نہیں کرتے جتنی مال و جاہ کی حرص آدمی کے دین کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

◈ انسان کے اعمال پر ریا کاری کے اثرات

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ‎﴿٨﴾‏ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ‎﴿٩﴾﴾

﴿الدهر : 8 ، 9﴾

❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور اللہ کی محبت میں یا (اپنی ضرورت کے باوجود) مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم جو تمہیں کھلاتے ہیں تو محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، نہ ہم تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری۔‘‘

وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾

﴿البقرة : 264﴾

❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو، جو شخص اپنا مال لوگوں کو دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، اللہ پر ایمان نہیں رکھتا ہے اور نہ قیامت کے دن پر۔ پس اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے، جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زور دار بارش برسے، اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔ ان ریا کاروں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں سے انھیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘

◈ حدیث 26:

﴿وعن محمود بن لبيد ، أن رسول الله قال: إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الاصغر . قالوا: وما الشرك الاصغر يارسول الله ؟ قال الرياء ، يقول الله عز وجل لهم يوم القيامة إذا جزي الناس بأعمالهم ، إذهبوا إلى الذين كنتم تراؤون فى الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء .﴾
مسند أحمد: 428/5-429 ، شرح السنة للبغوى 324/14، رقم : 4135، صحیح الترغيب والترهيب، رقم الحديث: 29 .

اور حضرت محمود بن لبیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سب سے زیادہ خوفناک چیز جس کا میں تم پر خوف کھاتا ہوں ، وہ شرک اصغر ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟ فرمایا، ریا کاری کیا ہے، جب قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ریا کار لوگوں سے فرمائے گا۔ چلے جاؤ ان لوگوں کی طرف جن کو تم دنیا میں دکھلاتے تھے۔ اور دیکھو کہ ان سے کیا بدلہ پاتے ہو ۔ (یعنی جن کو دکھانے کی خاطر عمل کرتے تھے، آج انہی کی طرف جاؤ۔ کیا وہ تمھیں کچھ بدلہ دیتے ہیں؟)

انفرادی اور اجتماعی طور پر ریا کاری کے خطرات

◈ حدیث 27:

﴿وعن عبد الله بن عمرو قال: قال عبد الله بن عمرو: يا رسول الله أخبرنى عن الجهاد والغزو، فقال: يا عبد الله بن عمرو! إن قاتلت صابرا محتسبا بعثك الله صابرا محتسبا ،وإن قاتلت مرائيا مكاثرا بعثك الله مرائيا مكاثرا .﴾
سنن ابوداؤد، كتاب الجهاد، رقم : 2519.

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے جہاد کی بابت دریافت فرمایا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اگر تم نے صبر کے ساتھ اور صرف اللہ تعالیٰ کے اجر لینے کی نیت سے جہاد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تو اللہ تمہیں اسی طرح (یعنی صابر ومحتسب) اٹھائے گا۔ اور اگر تم نے طلب مال اور ریاء کاری کی بنیاد پر جنگ و قتال کیا تو اللہ تمہیں روز قیامت حریص مال اور ریاء کار کے طور پر اُٹھائے گا۔

◈ حديث 28:

﴿وعن عبد الله ابن عمرو قال سمعت رسول الله ﷺ يقول: من سمع الناس بعمله ، سمع الله به مسامع خلقه، وصغره وحقره .﴾
صحيح الترغيب والترهيب: 16/1.

اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے سنا، رسول اللہ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے :

جس شخص نے اپنا عمل لوگوں کو سنانے کے لیے کیا تو اللہ تعالی بھی مخلوق کے کانوں میں یہ بات پہنچادے گا کہ یہ آدمی ریا کار ہے، اور اسے ذلیل و رسوا اور حقیر کر دیتا ہے۔

◈ حديث 29:

﴿وعن أبى ابن كعب ، قال: قال: رسول الله : بشر هذه الأمة بالسناء، والدين ، والرفعة، والتمكين فى الأرض، فمن عمل منهم بعمل الآخرة للدنيا، لم يكن له فى الآخرة نصيب .﴾
مسند احمد : 134/5 ، رقم الحديث: 21224، مستدرك حاكم 318/4 ، رقم الحديث:7965۔ حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(اے نبی ﷺ) اس امت کو بلندی شان اور زمین میں غلبے، اور اللہ کی مدد، اور دین اور رفعت کی بشارت سنادو، اور اُن میں سے جو شخص آخرت کے عمل کو دنیا کی خاطر کرے گا، تو آخرت میں اس کے لیے کچھ حصہ نہ ہوگا۔

◈ حدیث 30:

﴿وعن مصعب ابن سعد عن أبيهؓ ، أنه ظن أن له فضلا على من دونه من أصحاب رسول الله ﷺ فقال النبى : إنما ينصر الله هذه الأمة بضعيفها، بدعوتهم ، وصلاتهم ، وإخلاصهم﴾
سنن النسائى كتاب الجهاد، رقم: 3178 ، صحيح الترغيب والترهيب: 6/1 ، رقم: 5 .

اور حضرت مصعب بن سعد اپنے باپ سعدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں گمان ہوا کہ شاید ان کی دوسرے اصحاب رسول ﷺ پر فضیلت ہے تو نبی رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ اس اُمت کی مدد اس کے ضعیف لوگوں کی دُعا، اور ان کی نماز ، اور ان کے اخلاص کے ساتھ کرتا ہے۔

● وہ امور جو ریا کاری میں شمار نہیں ہوتے

◈ کسی کی تعریف آپس کے نہ چاہتے ہوئے

◈ حدیث 31:

﴿وعن أبى ذرؓ قال: قيل لرسول الله : أرأيت الرجل يعمل العمل من الخير ويحمده الناس عليه؟ قال: تلك عاجل بشرى المؤمن﴾
صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، رقم : 2642 ، سنن ابن ماجة، كتاب الذهد رقم : 4225.

اور حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں، جو اچھے اعمال کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔

❀ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یہ مومن کی جلدی بشارت ہے۔

◈ گناہوں کو چھپانا

◈ حدیث 32:

﴿وعن أبى هريرة قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: كل أمتي معافى إلا المجاهرين ، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ، ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا ، وقد بات يستره ربه ، ويصبح يكشف ستر الله عنه .﴾
صحيح بخاري مع الفتح: 486/10 ، كتاب الادب، رقم: 6069 ، صحیح مسلم: 119/18 مع النووى ، باب النهي عن هتك الانسان ستر نفسه، رقم : 7485 .

اور حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

میری ساری اُمت کو معاف کر دیا جائے گا، گناہ کھلم کھلا اور اعلانیہ گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا اور یہ بے حیائی کی بات ہے کہ آدمی رات کے وقت کوئی گناہ کا کام کرے پھر باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی ہو، اور صبح ہوتے ہی ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے آج رات فلاں فلاں بُرا کام کیا ہے۔ حالانکہ رات بھر اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی، تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنا شروع ہو گیا۔

◈ کپڑوں اور جوتوں وغیرہ کو خوبصورت رکھنا

◈ حدیث 33:

﴿وعن عبد الله بن مسعود عن النبى ﷺ قال: لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال ذرة من كبر ، قال رجل: إن الرجل يحب أن يكون ثوبه حسنا ، ونعله حسنة، قال: إن الله جميل يحب الجمال . الكبر بطر الحق وغمط الناس .﴾
صحیح مسلم 89/2 مع نووی، كتاب الإيمان، باب تحريم الكبر وبيانه ، رقم :265.

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اور اس کا جوتا عمدہ ہو، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر اپنی انانیت کی وجہ سے حق بات کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔

● ریا کاری کی مذمت میں چند دیگر احادیث

◈ حدیث 34:

﴿وعن يعلى بن شداد بن أوس عن أبيه الله قال: كنا نعد على عهد رسول الله ﷺ أن الرياء الشرك الأصغر .﴾
مستدرك حاكم 428/4، رقم : 8007 ، صحيح الترغيب والترهيب، رقم: 32۔ امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، اور امام ذہبیؒ نے اس کی موافقت کی ہے۔

’’اور حضرت شداد بن اوسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں علم ہم ریا کاری کو شرک اصغر شمار کرتے تھے۔‘‘

◈ حدیث 35:

﴿وعن جندب يقول ، قال النبى ﷺ: من سمع سمع الله به، ومن يرائي يرائي الله به .﴾
صحيح بخاري، كتاب الرقاق، رقم : 6499.

اور حضرت جندب بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص نے لوگوں کو سنانے کے لیے عمل کیا اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کی بدنیتی سب کو سنادے گا۔ اور جس نے دکھلاوے کے لیے عمل کیا، اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا دکھلاوا، ظاہر کر دے گا۔

◈ حدیث 36:

﴿وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: قال الله تبارك وتعالى: أنا أغنى الشركاء عن الشرك، من أشرك فيه معي غيري تركته وشركه .﴾
صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقاق، باب تحريم الرياء ، رقم : 7343.

اور حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (یعنی حدیث قدسی ہے):

میں تمام شریکوں کی بہ نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے پروا ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی شریک کیا، تو میں اسے اور اس کے شریک دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں۔“

◈ حدیث 37:

﴿وعن ابن عباسؓ قال: من رأى بشيء فى الدنيا من عمله وكله الله إليه يوم القيامة وقال: أنظر هل يغني عنك شيئا؟﴾
صحيح الترغيب والترهيب للألباني رقم : 29.

اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

جس شخص نے اپنے عمل میں دکھلاوا کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اسی کے سپرد کر دے گا اور اسے فرمائے گا:

دیکھ! کیا یہ تجھے کچھ فائدہ دے سکتا ہے؟

◈ حدیث 38:

﴿وعن أبى سعيد الخدريؓ قال: قال رسول الله ﷺ (في حديث طويل) فيسجد له كل مؤمن ، ويبقى من كان يسجد لله رياء وسمعة، فيذهب كيما يسجد فيعود ظهره طبقا واحدا .﴾
صحيح بخارى كتاب التوحيد رقم : 7439.

اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے پردہ اُٹھائے گا:

ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا، اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو شہرت اور دکھلاوے کے لیے اسے سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے، لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔ یعنی وہ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔

◈ حديث 39:

﴿وعن عبد الله بن مسعودؓ قال: قال رسول الله ﷺ: إن أكثر شهداء أمتي أصحاب الفرش ، ورب قتيل بين صفين الله أعلم بنيته﴾
مسند أحمد : 397/1۔ احمد شاکر نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

میری اُمت کے شہداء کی زیادہ تر تعداد بستر پر فوت ہونے والوں کی ہے، جب کہ صف معرکہ کے زیادہ تر مقتولین کی نیت اللہ خوب جانتا ہے۔

◈ حدیث 40:

﴿وعن أم معبد ، قالت: سمعت رسول الله ﷺ يقول: اللهم طهر قلبي من النفاق، وعملي من الرياء، ولساني من الكذب ، وعيني من الخيانة ، فإنك تعلم خائنة الأعين و ما تخفي الصدور .﴾
مشكاة ، رقم : 2501 – كنز العمال: 184/2 ، رقم: 3660.

اور حضرت ام معبدؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریاء سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک فرما۔ بلاشبہ تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید کو جانتا ہے۔

وصلى الله تعالىٰ على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے