نمازی کے لیئے لباس کے احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

● لباس کا بیان

اللہ تعالیٰ نے انسان کو لباس عطا فرمایا ہے جس کے ذریعہ وہ ستر پوشی کرتا ہے، اور زیب وزینت اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ-ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ﴾

﴿الاعراف : ٢٦﴾

’’اے آدم کے بیٹو! ہم نے تمہارے لیے لباس اُتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو پردہ کرتا ہے، اور وسیلہ زینت بھی ہے، اور پر ہیز گاری کا لباس ہی بہترین ہے۔ یہ لباس اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘

اسلام عالمگیر مذہب ہے، اس کے ماننے والے مسلمانوں کو ایک مسلم معاشرے اور اسلامی سوسائٹی کو سامنے رکھ کر اپنے لباس اور وضع قطع کو ترتیب دینا ہوگا۔

چنانچہ سید نا عبید بن خالدؓ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

میں ایک دفعه مدینه منورہ میں چلتا جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے یہ آواز سنائی دی کہ اپنا تہبند او پر اٹھا لو کیوں کہ اس سے آدمی ظاہر کی نجاست سے بھی محفوظ رہتا ہے اور باطنی پلیدی سے بھی ، میں نے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ﷺ کی آواز تھی۔ میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! یہ تو ایک معمولی سی چادر ہے اس میں کیا تکبر اور غرور ہو سکتا ہے !

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’کیا تمہارے لیے میری اتباع ضروری نہیں ہے ؟‘‘

میں نے آپ ﷺ کا جواب سن کر فوراً آپ کے تہبند کی طرف نظر ڈالی، کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺ کا تہبند نصف پنڈلی تک اونچا ہے۔

معلوم ہوا کہ اسلام نے لباس پہنا اور اس کے شروط وضوابط بیان کر دیئے ہیں ۔ پس جس لباس میں وہ شروط اور ضوابط پورے ہوں گے وہ اسلامی اور شرعی لباس کہلائے گا، وگرنہ نہیں۔

● نماز میں مرد کا لباس :

➊ نماز میں مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا ستر ڈھانپ کر رکھے ، ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿ما بين السرة والركبة عورة .﴾
مسند احمد : ۱۸۷/۲ – ارواء الغليل، رقم: ۲۷۱۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

➋ اس کے علاوہ مردوں کے لیے نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

﴿لا يصلى أحدكم فى الثوب الواحد ليس على عاتقيه شيء﴾
صحيح بخاري، كتاب الصلاة، رقم: ٣٥٩۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: ٥١٦.
’’کوئی شخص کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کپڑا نہ ہو۔‘‘

➌ مرد حضرات نماز اور غیر نماز میں اپنے ٹخنوں کو ننگا رکھیں گے۔
صحیح بخاری، کتاب اللباس، رقم: ۵۷۸۷۔ صحیح مسلم، رقم: ١٠٦۔

➍ چہرہ ننگا ہو۔ عبداللہ بن عمرؓ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ اس نے نماز میں اپنا منہ ڈھانپ رکھا ہے تو وہ زور سے کپڑا کھینچ کر اس کا منہ ننگا کر دیا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبة ٢٤٢/٢۔

➎ نماز میں سدل جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں منہ ڈھانپنے اور سدل کرنے سے منع فرمایا ۔
سنن ابوداؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٦٤٣ – محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔

● نوٹ:

سدل یہ ہے کہ کوئی کپڑا سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالا جائے کہ اس کے دونوں کنارے چہرے کے سامنے لٹک رہے ہوں۔

● نماز میں عورت کا لباس:

➊ دوبٹے کے بغیر عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی ، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم: ٦٤١ – سنن ترمذی، رقم: ۳۷۷- سنن ابن ماجه رقم : ٦٥٥ – البانیؒ نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

’’اللہ تعالی بالغہ عورت کی نماز بغیر دوبٹے کے قبول نہیں کرتا ۔‘‘

➋ عورت کو نماز میں پورا جسم ڈھانپنا چاہیے، سوائے چہرہ اور ہاتھ کے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عورتیں نماز فجر ادا کرتیں تو وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوا کرتی تھیں۔
صحیح بخاري، كتاب الصلاة، رقم: ۳۷۲ صحیح مسلم، كتاب المساجد، رقم: ٦٤٥.

سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں:

عورت اوڑھنی اور ایسے لمبے کرتے میں نماز پڑھے کہ جس میں اس کے قدم بھی چھپ جائیں ۔
السنن الكبرى للبيهقي : ۲/ ۲۳۲ – بلوغ المرام، رقم: ۲۰۷.

➌ بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم : ٨١٥. صحيح مسلم، کتاب الصلاة، رقم : ٤٩٢٠٤٩٠۔

● اہم مسائل:

➊ لباس سادہ ہو، ایسا نہ ہو کہ نماز میں اسی کی طرف خیال رہے ۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا:

میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور اس کی چادر میرے پاس لے آؤ۔ اس نے تو مجھے نماز سے غافل کر دیا تھا۔
صحيح بخاري، كتاب الصلاة، رقم: ۳۷۳، صحیح مسلم، كتاب المساجد، رقم: ٥٥٦۔

➋ کپڑا سمیٹا ہوا نہ ہو ، یعنی کف او پر کو موڑے ہوئے نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’مجھے سات اعضاء پر اس طرح سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے کہ نہ میں بال باندھوں اور نہ کپڑے سمیٹوں ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الاذان، رقم : ٨١٦ صحیح مسلم، رقم : ٤٩٠ .

➌ کپڑا کم ہو تو صرف تہبند باندھ کر ستر ڈھانک لے۔
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب إذا كان : اضيقاء رقم : ٣٦١.

➍ صرف ایک لمبا قمیص پہنا ہو تو نماز پڑھتے وقت گریبان بند کر لیا جائے ، تاکہ رکوع کرتے ہوئے شرمگاہ پر نظر نہ پڑھے۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ٦٣٢ – رقم : ٧٦٦ – البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔

➎ فقہ حنفی کی معتبر اور مستند کتاب در مختار میں لکھا ہے کہ جو شخص عاجزی کے لیے نگے سر نماز پڑھے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
در مختار مع رد المحتار: ٤٧٤/١۔

احمد رضا خاں بریلوی نے احکام شریعت حصہ اوّل صفحہ ۱۳۰ میں لکھا ہے کہ اگر بنیت عاجزی جنگے سر پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔

➏ ( پینٹ ) پتلون کشادہ ہو ، تنگ نہ ہو تو اس میں نماز درست ہے۔ شیخ ابن بازؒ نے لکھا ہے :

اگر پتلون، مرد کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصہ کو چھپائے ہوئے ہو ، کشادہ ہو اور تنگ نہ ہو تو اس میں نماز صحیح ہو گی ۔ افضل یہ ہے کہ اس کے اوپر ایسی قمیص پہنی ہو جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک کے مقام کو چھپا رکھا ہو اور اگر قمیص نصف پنڈلی یا ٹخنے تک ہو تو اور بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے مکمل ستر پوشی ہوگی۔ پتلون کی نسبت ایسے تہہ بند میں نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے جس نے جسم کو چھپا رکھا ہو کیونکہ اگر پتلون کے اوپر قمیص نہ پہن رکھی ہو تو پھر تہہ بند اس کی نسبت ستر پوشی کے تقاضوں کو زیادہ مکمل طریقے سے پورا کرتا ہے۔
مقالات و فتاویٰ از شیخ ابن باز، ص: ۲۳۶۔

➐ اگر حج کے دوران سر کو نگا رکھنا اور ننگے سر نماز پڑھنا مسنون ہے، تو غیر حج میں ننگے سر نماز پڑھنے کی ممانعت بیان کرنا درست نہیں۔ کیونکہ حج میں سر کو نگا رکھنا خشوع و خضوع کے منافی نہیں بلکہ عاجزی اور خشوع و خضوع کے انتہا کی دلیل ہے۔

➑ جان بوجھ کر سر سے کپڑا اتارنا اور صف میں رکھ کر ننگے سر نماز پڑھنا بھی آداب شریعت کے خلاف ہے۔

➒ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا افضل اور بغیر عمامہ کے نماز پڑھنا تو سنت سے ثابت ہے، لیکن ڈاڑھی مونڈھ کر نماز پڑھنا خلاف سنت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے