سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے اسلام لانے کا واقعہ
ماخوذ: ماہنامہ نور الحدیث

سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے اسلام لانے کا واقعہ

محمد بن اسحاق نے کہا: مجھے اسلم قبیلے کے ایک آدمی نے بیان کیا۔ جو (واقعات کو) بڑا یاد رکھنے والا تھا۔ بے شک ابو جہل صفا کے پاس رسول اللہ ﷺ کے سامنے آیا۔ اس نے آپ کو تکلیف دی اور گالیاں دیں اور آپ کے دین کی عیب جوئی اور آپ کے معاملے کو کمزور بتانے کا موقع پالیا جس کو آپ ناپسند فرماتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے کوئی بات نہ کی اور عبداللہ بن جدعان التیمی کی لونڈی صفا کے اوپر اپنے گھر میں یہ ساری باتیں سن رہی تھی پھر وہ (ابو جہل) آپ کے پاس سے واپس ہوا۔ اس نے قریش کی ایک مجلس کا قصد کیا جو کعبۃ اللہ کے پاس تھی اور ان کے پاس آبیٹھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حمزہ بن عبدالمطلب اپنی کمان لٹکائے ہوئے آگئے وہ اپنے شکار سے واپس آرہے تھے اور جب بھی وہ شکار سے واپس آتے تو قریش کی جماعت کے پاس ٹھہرتے سلام کرتے اور ان سے باتیں کرتے وہ قریش میں سب سے زیادہ عزت والے تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ غیرت مند تھے اور اس وقت وہ مشرک ہی تھے۔ اپنی قوم کے دین پر تھے۔ تو جب وہ لونڈی کے پاس سے گزرے اس وقت رسول اللہ ﷺ واپس اپنے گھر جاچکے تھے۔ اس (لونڈی) نے ان کو کہا : اے ابو عمارہ! کاش! آپ دیکھتے جو ابھی ابوالحکم نے آپ کے بھتیجے کو کہا۔ اس نے انھیں وہاں پر دیکھا تو اس کو تکلیف دی اور گالیاں دیں اور اس نے ان کو وہ بات کہی جو ان کو ناپسند تھی۔ لیکن محمد ﷺ نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ یہ سن کر حمزہ کو غصہ آیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عزت دینا چاہتا تھا۔ بہر حال وہ جلدی سے نکلے اور ابوجہل کی جلد پٹائی کرنے کی خاطر (راستے میں) کہیں نہ رکے جیسے وہ طواف کعبہ کے وقت کیا کرتے تھے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوجہل کو دیکھا کہ وہ اپنی قوم میں بیٹھا ہوا تھا تو وہ اس کی طرف آئے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس آکھڑے ہو گئے۔ انھوں نے اپنی کمان اٹھائی اور اسے رسید کر دی، اس کا سر شدید زخمی کر دیا۔ یہ دیکھ کر بنی مخزوم میں سے قریش کے کچھ آدمی حمزہ کی طرف اٹھے تا کہ وہ ابو جہل کی مدد کریں۔ وہ کہنے لگے : اے حمزہ! ہمارا خیال ہے تو بے دین ہو گیا ہے۔ حمزہ نے کہا : اور مجھے اس سے کون سی چیز روک سکتی ہے جب کہ میرے لیے اس کی طرف سے یہ سارا معاملہ واضح ہو چکا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ اللہ کے رسول ہیں اور جو وہ کہتے ہیں وہ حق ہے۔ اللہ کی قسم! میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ۔ ابو جہل نے کہا : ابو عمارہ کو چھوڑ دو، بے شک میں نے ہی اس کے بھتیجے کو غلیظ گالیاں دی ہیں۔ حمزہ نے اسلام اختیار کر لیا۔ اور اس بات پر پورے اترے جس پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی۔
یہ واقعہ سیرت ابن اسحاق میں درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے۔

نا أحمد نا يونس عن ابن اسحاق قال فحدثني رجل من أسلم وكان واعية۔ أن أبا جهل۔
(ج 1 ص 211)
اس کے علاوہ یہ واقعہ درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے۔
(المستدرك للحاكم : 213/3- سیرت ابن هشام : -292/1 دلائل النبوة للبيهقي : 213/2- تاريخ طبري : 332/2 – البداية والنهاية لابن كثير : 34/3)

اس واقعہ کی سند ضعیف ہے کیوں کہ اس میں رجل مجہول ہے۔ لہذا یہ واقعہ ثابت نہیں۔

جب یہ ثابت نہیں تو اسے اپنی تقریروں و تحریروں میں بھی (بغیر ضعف بیان کیے) بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے