قربانی کے بڑے جانور میں عقیقے کا حصہ
تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال

کوئی شخص اپنے بیٹے کے عقیقہ کے لیے دو بکرے یا بھیڑ ذبح کرنے کے بجائے عیدالاضحی کے موقع پر گائے میں سات قربانیوں کے حصوں میں دو حصے عقیقہ کے شامل کر سکتا ہے؟

الجواب

مسنون یہی ہے کہ عقیقہ میں بکری (بکرا) اور بھیڑ (نر یا مادہ) ذبح کئے جائیں۔ گائے یا اونٹ وغیرہ کا عقیقہ میں ذبح کرنا ثابت نہیں ہے، چہ جائیکہ اُن کے اندر حصے کئے جائیں جس روایت میں فلیعق عنه من الابل والبقر والغنم یعنی :اس کی طرف سے اونٹ، گائے اور بکریاں ، عقیقہ میں ذبح کی جاسکتی ہیں۔
(المعجم الصغير للطبراني ج ١ ص ٨٤)

اس کی سند مسعدہ بن السبیع وغیرہ کی وجہ سے موضوع و باطل ہے۔

ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر کے بچے کی طرف سے ایک اونٹ بطور عقیقہ ذبح کریں تو انھوں نے فرمایا :
معاذ الله ! ولكن ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم شاتان مكافأتان.
یعنی میں (اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں لیکن (میں وہ کروں گی) جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دو بکریاں۔
(السنن الكبرى للبيهقي ج ٩ ص ۳۰۱ شرح مشكل الآثار للطحاوي: ١٠٤٢ وسنده حسن)

اس حسن روایت سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں، مثلاً
➊عقیقے میں گائے یا اونٹ وغیرہ ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔
➋قرآن و حدیث کو تمام آراء وفتاوی پر ہمیشہ ترجیح حاصل ہے، بلکہ ہر رائے اور ہر فتویٰ جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے مردود ہے۔
➌سیدہ عائشہؓ کی زبردست فضیلت ہے کہ آپ اتباع سنت میں بہت سختی کرنے والی تھیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے