سوال: میرے علم کے مطابق ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ ایک مجلس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حبّب إليّ من دنيا كم ثلاث: الطيب و النساء و جعلت قرة عيني فى الصلوٰة مجھے تمہار ی دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) خوشبو (۲) بیویاں (۳) اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ آ پ کے ساتھ صحابۂ کرام بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) رسو ل اللہ (ﷺ) کے چہرے کو دیکھنا (۲) رسول اللہ کے لئے اپنا مال خرچ کرنا (۳) اور یہ چاہنا کہ میری بیٹی، رسول اللہ (ﷺ) کی بیوی بنے۔
پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) نیکی کا حکم دینا (۲) برائی سے منع کرنا (۳) اور پرانا (استعمال شدہ پوسیدہ ) کپڑا۔ پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عمر ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: (۱) بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلانا (۲) ننگوں کو کپڑے پہنانا (۳)ا ور تلاوتِ قرآن۔ پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عثمان ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱) مہمان کی خدمت کرنا ۔ (۲) گرمی روزے رکھنا (۳) اور (میدانِ جہاد میں) تلوار چلانا ۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ اسی حال میں تھے کہ جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہار ی گفتگو سنی تو مجھے بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ مجھ سے پوچھیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو میں کیا پسند کرتا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: تم دنیا میں سے کیا پسند کرتے؟ جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا: (۱) راستہ بھولے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھانا (۲) غریب عبادت گزاروں کی دل جوئی (۳) اور مفلس عیال داروں کی مدد ۔ جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا: رب العزت اللہ جلّ جلالہ اپنے بندوں سے تین خصلتیں پسند کرتا ہے: (۱) حسبِ استطاعت (اللہ کے راستے میں مال و جان) خرچ کرنا (۲) ندامت کے وقت رونا (۳) اور فاقے کے وقت صبر کرنا۔ (بحوالہ منبہات لابن حجر)گزارش ہے کہ اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں، نیز رسالہ (الحدیث) میں بھی شائع فرما دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ (قاری عظیم حاصلپوری ، گوجرانوالہ)
الجواب: میرے علم کے مطابق یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں باسند و باحوالہ موجود نہیں ہے ۔ حافظ ابن حجر (العسقلانی؟ ) کی طرف منسوب کتاب ”المنبہات“ میں یہ روایت بے حوالہ اور بے سند مذکور ہے ۔ [ص ۲۱، ۲۲ طبع ۱۲۸۲ه]
➊ ”المنبہات“ کا حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتاب ہوا ثابت نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے حافظ ابن حجر کے حالات لکھے ہیں اور ان کی کتابوں کے نام لکھے ہیں مثلاً سخاوی ( الضوء اللامع ) شوکانی ( البدر الطالع ) اسماعیل پاشا بغدادی ( هدية العارفين ) اور زرکلی ( الاعلام ) وغیرہ، ان میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو حافظ ابن حجر کی طرف منسوب نہیں کیا۔
➋ مشہور عربی محقق شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اسے حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف ظلم ، جھوٹ اور بہتان کے ساتھ منسوب کتاب قرار دیا ہے ۔
دیکھئے: [كتب حذّر منها العلماء ج۲ ص ۳۲۶]
➌ شیخ جاسم الدوسری اور شیخ عبدالرحمٰن فاخوری نے بھی حافظ ابن حجر کی طرف اس کتاب کے انتساب کو باطل قرار دیا ہے ۔
[ايضاً ص ۳۲۷]
➍ المنبہات کے شروع میں اس کا نام منبهات…علي الإستعداد ليوم المعاد لکھا ہوا ہے ۔ [ص۴]
اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس میں دو دو اور تین تین سے لے کر دس دس تک کا بیان لکھا ہوا ہے ۔ [ايضاً ص ۴]
حاجی خلیفہ کاتب چلپی حنفی نے اپنی مشہور کتاب ”کشف الظنون“ میں لکھا ہے کہ:
المنبهات على الإستعداد ليوم الميعاد للنصح والوداد، مختصر لزين القضاة أحمد بن محمد الحجي الحجري المتوفي سنة…. جمع فيه أحاديث و نصائح من الواحد إلى العشرة مثنٰي و ثلاث ورباع، أوله الحمد لله رب العالمين إلخ قال: هٰذه منبهات على الإستعداد ليوم الميعاد
[كشف الظنون عن اسامي الكتب و الفنون ج ۲ ص ۱۸۴۸]
اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب احمد بن محمد الحجی یا الحجری کی لکھی ہوئی ہے ، یہ حجی یا حجری مجہول ہے ، اس کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔
➎ حافظ ابن حجر العسقلانی نے ایک صوفی ابراہیم بن محمد بن المؤید بن حمویہ الجوینی (متوفی ۷۲۲ھ) کے حالات میں لکھا ہے کہ حافظ ذہبی نے فرمایا:
كان حاطب ليل، جمع أحاديث ثنائيات و ثلاثيات و رباعيات من الأباطيل المكذوبة ”وہ حاطب لیل (رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والا) تھا۔ اس نے دو دو ، تین تین اور چار چار والی حدیثیں جمع کی ہیں جو باطل اور جھوٹی ہیں۔“
[الدررالكامنه فى اعيان المائة الثامنه ۶۸/۱ ت ۱۸۱]
معلوم یہی ہوتا ہے کہ ابن حمویہ الجوینی الصوفی (متوفی ۷۲۲ھ) کی کتاب سے اختصار کرکے ابن حجی یا ابن حجری نامی کسی مجہول شخص نے منبہات نامی کتاب لکھ دی ہے جو ناشرین یا ناسخین کی غلطیوں کی وجہ سے حافظ ابن حجر کی طرف منسوب ہوگئی ہے ۔
حافظ ابن حجر کی ”ثلاث“ کی زیادت والی روایت کے بے سند ہونے کی صراحت کی ہے ۔
دیکھئے: [التلخيص الحبير ۱۱۶/۳ ح ۱۴۳۵]
لہٰذا وہ اس روایت اور مذکور ہ کتاب سے بری ہیں۔
اگر کوئی شخص دلائل سے یہ ثابت کردے کہ یہ کتاب ضرور حافظ ابن حجر العسقلانی ہی کی لکھی ہوئی ہے تو بھی یہ روایت باطل اور موضوع ہے کیونکہ اس کی کوئی سند یا حوالہ معلوم نہیں ہے ۔ ہر وہ روایت جو بےسند و بے حوالہ ہو تو وہ موضوع، باطل اور مردود ہی رہتی ہے اِلا یہ کہ صحیح سند یا صحیح حوالہ پیش کر دیا جائے۔
اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (متوفی ۱۱۶۲ھ) نے اسے کتاب ”المواھب“ سے نقل کرکے لکھا ہے: “ قال الطبري: خرجه الجندي و العهدة عليه
طبری نے کہا: اسے الجندی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کی ذمہ داری اسی پر ہے ۔
[كشف الخفاء و مزيل الالباس عما اشتهرمن الاحاديث عليٰ اَلسنة الناس ج ۱ ص ۳۴۰ ح ۱۰۸۹]
عجلونی کی بیان کردہ یہ روایت احمد بن محمد القسطلانی (متوفی ۹۲۳ھ) کی کتاب المواهب اللدنيه بالمنح المحمديه میں اسی طرح بے سند و بے حوالہ ”الجندی“ سے بطورِ لطیفہ مذکور ہے۔ [ج ۲ص ۱۸۰، ۱۸۱]
الجندی نام کے کئی آدمی تھے مثلاً مفضل بن محمد بن ابراہیم الجندی (متوفی ۳۱۰ھ)
اللہ ہی جانتا ہے کہ اس الجندی سے مراد کون ہے؟ اور اگر کوئی الجندی متعین بھی ہوجائے تو اس سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سند معلوم نہیں ہے ۔
شبر املسی (متوفی ۱۰۸۷ھ) اور خفاجی وغیرہما مولویوں نے اس روایت میں مزید بے سند اور بے حوالہ اضافہ بھی ذکر کر رکھا ہے جو کہ سرے سے موضوع اور باطل ہے ۔
تنبیہ بلیغ:
حاجی خلیفہ حنفی نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے جلال الدین سیوطی سے نقل کر رکھا ہے کہ قسطلانی میری کتابوں سے چوری کرتا ہے۔
[الخ كشف الظنون ۱۸۹۷/۲]
ظاہر ہے کہ یہ بے سند و بے حوالہ بات مردود و باطل ہے لیکن بے سند و بے حوالہ روایتیں پھیلانے والے اس حکایت کی وجہ سے المواہب کے مصنف قسطلانی کو چور نہیں سمجھتے !
خلاصۃ التحقیق:
یہ روایت بے اصل، جھوٹی اور من گھڑت ہے جسے منظم یا غیر منظم منصوبے سے جاہل اور عام مسلمانوں میں پھیلا دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بالکل حرام ہے ۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
مِنْ يَّقُلْ عَلَيَّ مَالَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه٘ مِنَ النَّارِ.
جس شخص نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ (جہنم کی ) آگ میں بنالے۔ [صحيح بخاري: ۱۰۹]
اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جھوٹی روایات بنائیں یا پہلے سے موجود جھوٹی اور ضعیف روایات مسلمانوں میں پھیلا دیں۔ کیا ہمارے لئے صحیح احادیث و روایات کافی نہیں؟
تنبیہ:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حبّب إليّ من الدنيا: النساء و الطيب و جعل قرة عيني فى الصلوٰة. مجھے دنیا میں سے عورتیں (بیویاں)اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔
[سنن النسائي ۶۱/۷ ح ۳۳۹۱ و سنده حسن، مسند احمد ۲۸۵/۳ و سنده حسن و حسنه الحافظ ابن حجر فى التلخيص الحبير ۱۱۶/۳ ح ۱۴۳۵ واورده الضياء فى المختارة ۱۱۶/۵ ح ۱۷۳۶]
دوسری روایت میں ہے:
حبب إلى النساء و الطيب و جعلت قرة عيني فى الصلوٰة.
مجھے عورتیں (بیویاں) اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ [سنن النسائي ۶۲/۷ ح ۳۳۹۲ و سنده حسن و صححه الحاكم عليٰ شرط مسلم ۱۶۰/۲ ، ووافقه الذهبي]
اس صحیح حدیث کا منبہات والی موضوع روایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ نماز دنیا کی کوئی چیز ہے ۔
(۱۱ جنوری ۲۰۰۷ء)