شرک کا ایک چور دروازہ مادہ پرستی بھی ہے
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

مادہ پرستی

شرک کا ایک چور دروازہ مادہ پرستی بھی ہے، جیسا کہ اللہ عز وجل سورۃ الکہف میں دو باغ والے کے شرک اور اس کی مادہ پرستی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ اس مشرک کے پاس انگوروں کے دو باغ تھے، جنہیں کھجور کے درختوں نے ہر جانب سے گھیر رکھا تھا، اور دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی ، گویا اللہ نے اسے انواع و اقسام کے پھل اور کھانے کی چیزیں دے رکھی تھیں، دونوں باغات میں ہر سال خوب پھل آتا تھا، کبھی کمی نہیں ہوتی تھی، اور دونوں کے درمیان اللہ نے نہر بھی جاری کر دی تھی۔

(كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِم مِّنْهُ شَيْئًا ۚ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا)

(الكهف : ٣٣)

’’دونوں باغ پھلوں سے لد گئے ، اور کسی باغ نے پھل دینے میں کمی نہیں کی ، اور دونوں باغوں کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔

لیکن اس دولت مند اور خوشحال شخص کی سعادت کا سارا انحصار محض ان باغات کے وجود تک محدود نہ تھا، بلکہ سارے اسباب و وسائل اس کے لئے مسخر تھے، اس نے ایک مسلمان اسرائیلی سے دورانِ گفتگو کہا کہ؛

(أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا)

(الكهف : ٣٤)

’’میں تم سے مال میں زیادہ ہوں، اور جاہ و حشم کے اعتبار سے بھی تم سے زیادہ عزت والا ہوں ۔‘‘

غرض اس طرح سعادت و کامیابی کی پوری تکمیل ہو چکی تھی اور آرام و راحت کے سارے اسباب ارزاں تھے۔ اس موقع پر اس کے اندر مادی مزاج اپنا رنگ دکھاتا ہے۔

چنانچہ اس نے مسلمان کا ہاتھ پکڑا اور باغ میں داخل ہو کر اپنے کفر و استکبار کا اظہار کرتے ہوئے گھومنے لگا اور اس کی خوبیاں بیان کرنے لگا، اور چونکہ وہ زمانے کی ابدیت کا قائل تھا اس لیے کہنے لگا:

(مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَٰذِهِ أَبَدًا)

(الكهف : ٣٥)

’’میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو جائے گا۔“

اور چونکہ وہ آخرت اور وہاں کے حساب و کتاب کا قائل نہیں تھا، اس لیے اس نے کہا کہ؛

(وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَىٰ رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا)

(الكهف : ٣٦)

میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جسے لوگ قیامت کہتے ہیں وہ کبھی آئے گی ، اور اگر بالفرض اپنے رب کے پاس لوٹ کر گیا بھی تو میں اس باغ سے زیادہ اچھا بدلہ پاؤں گا۔“

یہی وجہ ہے کہ اللہ کی نگاہ میں میرا مقام اعلیٰ ہونے کی وجہ سے مجھے یہاں یہ سب کچھ ملا ہے، اس لئے اُس زندگی میں بدرجہ اولی اس سے اچھی نعمتیں ملیں گی۔

ایمانی طرز فکر :

اس کے دوست کو معرفت الہی اور اس کے صفات و افعال کے علم کی لازوال دولت ملی ہوئی تھی ، اسے معلوم تھا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی اس کا ئنات میں تصرف کرنے والا ، اسباب کا خالق اور جب چاہے حالات کو پلٹنے والا ہے ، اس نے اس کے مادہ پرستانہ اور مشرکانہ طرز فکر کی کھل کر مخالفت کی اور اس کو حقیقت اور ابتدائے تخلیق سے آگاہ کیا:

( أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا)

(الكهف : ۳۷)

’’کیا تم نے اس ذاتِ باری تعالیٰ کا انکار کر دیا جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے ، پھر تمہیں اچھا بھلا ایک مرد بنا دیا۔‘‘

اس نے مزید کہا کہ میں تمہاری جیسی بات نہیں کہتا ، میں تو اعتراف کرتا ہوں کہ اللہ ایک ہے ، وہی سب کا رب ہے ، اور میں اس کی مخلوقات میں سے کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں بناتا ہوں:

(لَّٰكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا)

(الكهف : ۳۸)

’’لیکن میرا عقیدہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب ہے ، اور میں اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں بناتا ہوں۔‘‘

کفر و شرک پر اس کی توبیح و زجر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ جب تم باغ میں داخل ہوئے اور اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوش ہوئے ، تو اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کیوں نہیں کہا کہ یہ باغ اللہ کی مشیت اور اس کے فضل وکرم سے حاصل ہوا ہے ، اگر وہ چاہے گا تو اسے آبا د ر کھے گا ، اور چاہے گا تو خرابات میں بدل دے گا ، اللہ کے بغیر کسی کو کوئی قوت حاصل نہیں ہے۔ ہر قوت کا سر چشمہ صرف اللہ کی ذات ہے، نہ کہ ظاہری اسباب و مادیت:

(وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ)

(الكهف : ۳۹)

’’اور جب تم باغ میں داخل ہوئے تھے تو کیوں نہیں کہا تھا کہ اللہ نے جو چاہا ہے وہ ہوا ہے، اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کو کوئی قوت حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘

ارادہ الہیٰ پر ایمان :

یہ صاحب ایمان ساتھی اس کو متنبہ کرتا ہے کہ تم جو مجھے غربت اور فقیری کا طعنہ دے رہے ہو، تو کوئی بعید بات نہیں کہ اللہ تعالی حالات کو برعکس کر دے اور مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے ، اور تمہارے باغ پر کوئی آسمانی آفت نازل کر دے جو اسے یکسر ختم کر دے اور ایسا چٹیل میدان بنا دے جس پر قدم نہ جے، اس کا پانی زمین کی تہوں میں چلا جائے اور کسی بھی طرح اسے دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہو جائے۔

( إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا ‎﴿٣٩﴾‏ فَعَسَىٰ رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّن جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيدًا زَلَقًا ‎﴿٤٠﴾‏ أَوْ يُصْبِحَ مَاؤُهَا غَوْرًا فَلَن تَسْتَطِيعَ لَهُ طَلَبًا ‎﴿٤١﴾)

(الكهف : ٣٩، ٤١،٤٠)

’’اگر تم مجھے اپنے آپ سے مال اور اولاد میں کم تر پاتے ہو تو امید ہے کہ میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر باغ دے گا ، اور تمہارے باغ پر کوئی آسمانی عذاب بھیج دے گا ، پس وہ بے پودے والا چکنا میدان ہو جائے گا، یا اس کا پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے ، پھر تم اسے حاصل نہیں کر سکو گے۔“

دو باغ والے کا شرک :

چنانچہ یہی ہوا، اللہ کی بھیجی ہوئی آندھی آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لہلہاتا ہوا ، گلزار چٹیل میدان بن گیا ، تو شدت حسرت و یاس سے کف افسوس ملنے لگا کہ ہائے ، جو کچھ خرچ کیا تھا سب ختم ہو گیا اور انگور کا باغ زمین پر ڈھیر ہو گیا ، اور پھر دوسرے مسلمان اسرائیلی کی بات یاد کر کے کہنے لگا کہ:

( يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا)

(الكهف : ٤٢)

’’کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا (تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا)‘‘

اسے یقین ہو گیا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے ، اس کے کفر و شرک ، مادہ پرستی اور کبر و سرکشی کی وجہ سے ہوا ہے ، اور اس کا شرک یہی تھا کہ اس نے اسباب میں شرک اختیار کیا تھا ، اور یہ سمجھتا تھا کہ اسکی ساری خوش حالی و دولت کا سر چشمہ یہی اسباب ظاہری ہیں ، اور یہ انہیں کا ثمرہ اور احسان ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو فراموش کر دیا اور اس کے تصرف کا منکر ہو گیا۔ اور اس نے فخر و مباہات کے طور پر جو کہا تھا کہ اس کے پاس جاہ وحشم اور اولاد و خدام بھی مسلمان سے زیادہ ہیں ، تو اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

( وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِئَةٌ يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا ‎﴿٤٣﴾‏ هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ‎﴿٤٤﴾)

(الكهف : ٤٣ – ٤٤)

’’اور اللہ کے سوا اس کا کوئی ایسا گروہ نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا ، اور نہ اس میں انتقام لینے کی قدرت تھی ، یہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ مدد کرنا اللہ برحق کا کام ہے ، وہ بدلہ اور انجام کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے۔‘‘

عصر حاضر کا شرک :

یہی وہ شرک ہے جس میں آج کی مادی تہذیب جکڑی ہوئی ہے ، اس نے طبعی ، مادی اور فنی اسباب اور اس کے علاوہ ماہرین فن کو ذات باری تعالیٰ کے برابر درجہ دے رکھا ہے۔ عصر حاضر کے حضرت انسان نے اپنی حیات مستعار کو انہی کے رحم و کرم پر منحصر کر رکھا ہے ، اس کے گمان میں ہے کہ موت وحیات ، کامرانی و نا کامی ، اقبال واد بار اور خوش قسمتی و بد قسمتی سب کچھ ان کے قبضہ میں ہے۔

مادی اسباب کا ئناتی قوتوں اور فطرت و عادت کی یہ پوجا اور پرستش اور ماہرین پر کلی اعتماد ، اس کے علاوہ ان کو ذاتِ باری تعالیٰ کے برابر درجے پر فائز رکھنا ایک شرک کا چور دروازہ، ہے۔ اس نے قدیم بت پرستی کے جتنے میں، جس کا ترکہ اس کے یہاں ابھی تک محفوظ ہے ، اور اس کے شیدائی ابھی تک کثیر تعداد میں موجود ہیں، ایک جدید قسم کی بت پرستی کا اضافہ کیا ہے جو ایمان اور عبدیت دونوں کی حریف ہے، اور یہ وہی بت پرستی ہے ، جس کو سورۃ الکھف نے میدانِ عمل میں للکارا ہے ، اور جس سے وہ پوری طرح برسر پیکار ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس دنیا کی زندگی کو اس کھیتی سے تعبیر کیا ہے جو جلد ہی مٹنے والی اور خاک میں مل جانے والی ہے:

(وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا)

(الكهف : ٤٥)

’’اور (اے پیغمبر!) آپ ان کے لیے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کر دیجیے کہ وہ اس پانی کی مانند ہے جسے ہم آسمان سے نازل کرتے ہیں، پس اس کی وجہ سے زمین کا پودا گھنا ہو جاتا ہے ، پھر وہ خشک ہو کر بھس بن جاتا ہے جسے ہوا اُڑا کر لے جاتی ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

چونکہ دنیا کی بے ثباتی اس مثال سے بہت زیادہ واضح ہو جاتی ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسے کئی مقامات پر بیان کیا ہے ، سورۃ یونس میں ہے:

((إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ))

(يونس : ٢٤)

’’بے شک دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی ہے جسے ہم آسمان سے بھیجتے ہیں، جو زمین کے ان پودوں کے ساتھ مل جاتا ہے جنہیں لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین خوب با رونق اور خوبصورت بن جاتی ہے، اور اس کے مالکان یقین کر لیتے ہیں کہ وہ اس سے مستفید ہونے پر پوری طرح قدرت رکھتے ہیں ، تو یک لخت ہمارا فیصلہ (بصورت عذاب) رات یا دن میں صادر ہو جاتا ہے ، اور ہم اُن پودوں کی طرف کاٹ کر رکھ دیتے ہیں کہ جیسے وہ کل تھے ہی نہیں، ہم غور و فکر کرنے والوں کے لیے اپنی آیتیں اسی طرح تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔‘‘

مزید برآں فرمایا:

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ)

(الزمر : ۲۱)

’’کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمانوں سے بارش نازل کرتا ہے ، پھر اُسے چشموں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے ، پھر اس کے ذریعہ مختلف رنگ کی کاشت نکالتا ہے، پھر وہ پک جاتی ہے ، تو آپ اُسے زرد دیکھتے ہیں، پھر اللہ اُسے ریزہ ریزہ بنا دیتا ہے ، بے شک اس میں عقل وخرد والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘

مذاہب آسمانیہ اور فلسفہ مادیت کے مابین فرق:

آسمانی مذاہب کی تعلیمات اس مادہ پرستانہ طرز فکر سے بالکل مختلف ہیں ، وہ نقطہ نظر جو قرآن حکیم دنیا کی زندگی کے متعلق پیدا کرنا چاہتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے اقوال میں پوری طرح نہاں ہے ۔ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :

((اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَة.))
صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير، رقم: ٢٩٦١۔

’’اے اللہ ! زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے :

((اللّهُمَّ اجْعَلُ رِزْقَ آل مُحَمَّدِ قُوتاً.))
صحيح مسلم، کتاب الزهد، رقم: ٧٤٤٠، ٧٤٤١۔

”اے اللہ ! آل محمد ﷺ کا رزق قوت ( لا یموت ) کر دے۔“

اور ایک روایت کے الفاظ ہیں :

(( كَفَافًا))

’’بس اتنا کہ کفایت کر جائے ۔‘‘
صحیح مسلم ، کتاب الزهد، رقم : ٧٤٤٢۔

مستورد بن شدا د فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَالله مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ وَأَشَارَ يَحُى بِالسَّبَّابَةِ …. فِي الْيَمِّ فَلْيَنظُرُ أَحَدُكُم بِمَ ترجع))
صحيح مسلم ، كتاب الجنة و نعيمها، رقم: ۷۱۹۷۔

’’اللہ کی قسم! دنیا آخرت کے مقابلہ میں اتنی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈالے۔ یحییٰ نے اپنی سبابہ (شہادت کی انگلی ) کی طرف اشارہ کیا۔ پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس میں آتا ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی زندگی اسی عقیدہ کا شفاف آئینہ تھی ۔ سیدنا عمر بن خطابؓ ’’حدیث ایلاء‘‘ میں بیان کرتے ہیں:

میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، (دیکھا کہ) آپ ایک بٹی ہوئی چٹائی پر آرام فرما تھے، آپ کے اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا نہ تھا ، چٹائی کے نشیب و فراز اور چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو میں نمایاں تھے ، آپ چمڑے کے ایک تکیہ پر جس میں بھس بھرا ہوا تھا ، ٹھیک لگائے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام ( عرض ) کیا ( کچھ تفصیل کے بعد آگے کہتے ہیں ) میں نے گھر پر ایک نظر ڈالی۔ اللہ کی قسم ! اس میں کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ نگاہ کو متوجہ کرتی ہو ، سوائے چمڑے کے تین ٹکڑوں کے۔ میں نے عرض کیا:

یا رسول اللہ ﷺ ! دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اُمت کو فراخی عطا فرمائے ۔ ایرانیوں اور رومیوں کو تو خوب دنیا وی نعمتیں حاصل ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے ۔ رسول اللہ ﷺ یہ سنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا:

ابن خطاب ! تم بھی ایسا سوچتے ہو؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی نعمتوں کا سارا حساب اسی دنیا میں چکا لیا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب التفسير ، رقم : ٤٩١٣ ـ صحيح مسلم، کتاب الطلاق، رقم : ٣٦٩١ – تفصیل ملاحظہ فرمائیں : معرکه ایمان و مادیت از ابوالحسن ندوی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے