ضرب الامثال
غیر اللہ کی پرستش کرنے والے ایک عذر یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ’’کام کرنے والا اللہ ہی ہے، یہ بزرگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ یہ شرک کا زبردست چور دروازہ ہے۔
(وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ)
(یونس : ۱۸)
’’اور وہ لوگ اللہ کے بجائے ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ، اور کہتے ہیں کہ اللہ کے حضور یہ ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘
لیکن اس عذر کے باوجود ایسے لوگوں کو مشرک کہا گیا ہے، چنانچہ شاہ عبد القادر اس آیت کے فوائد میں لکھتے ہیں :
’’جو مشرک ہے سو یہی کہتا ہے کہ اللہ مالک ہے اور یہ شریک اس کی طرف سے ہم پر مختار ہیں، سو فرمایا: اگر اس نے مختار کیسے ہوتے تو آپ اُن سے کیوں منع کرتا۔‘‘
شرک کے جواز کے لئے طرح طرح کی مثالیں بھی گھڑی جاتی ہیں، کوئی کہتا ہے جس طرح کسی ملک کا حاکم اعلیٰ ما تحت حکام کے ذریعے سلطنت چلاتا ہے، اسی طرح اللہ عز و جل بھی اپنے نائین کی وساطت سے نظام عالم کو چلا رہا ہے، بعض یوں کہتے ہیں کہ جس طرح مکان کی چھت پر سیڑھیوں کے بغیر چڑھا نہیں جاسکتا، اسی طرح اللہ تعالی تک پہنچنے کے لئے بھی وسائل ضروری ہیں، اس قسم کی مثالیں دینا شرعی طور پر جائز نہیں بلکہ شرک کا چور دروازہ ہے، اس قسم کی مثالوں میں خالق کو مخلوق کے ساتھ ملانا ہے، اللہ تعالی نے ایسی مثالیں پیش کرنے سے بایں الفاظ منع فرمایا:
(فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ)
(النحل : ٧٤)
’’پس تم لوگ اللہ کے لئے مثالیں نہ بیان کرو۔‘‘
بعض جہلا یہ کہہ دیتے ہیں کہ جن بزرگوں کو ہم پوجتے ہیں آخر وہ بھی تو اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، یہ سب بے بنیاد اور لغو باتیں ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ)
(النحل : ٧٣)
’’اور وہ اللہ کے علاوہ ان معبودوں کی پرستش کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ان کی روزی کے کسی بھی حصہ کے مالک نہیں ہیں، اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔“
شاہ عبد القادرؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’مشرک کہتے ہیں: مالک اللہ ہے، یہ لوگ اس کی سرکار میں مختار ہیں اس واسطے ان کو پوجتے ہیں، سو یہ غلط مثال ہے، اللہ ہر چیز آپ کرتا ہے کسی کے سپرد نہیں کر رکھا ۔‘‘
البتہ بعض مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کہ صحیح ہیں، اور وہ حسب ذیل ہیں:
پہلی مثال:
((ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ))
(النحل : ٧٥)
’’اللہ ایک زرخرید غلام کی مثال بیان کرتا ہے جس کے پاس کوئی قدرت نہیں ہوتی ، اور ایک ایسے شخص کی جس کو ہم نے اپنی جانب سے اچھی کشادہ روزی دی ہے، پس وہ اس میں سے پوشید و طور پر اور دکھا کر خرچ کرتا ہے، کیا یہ لوگ برابر ہو سکتے ہیں، بلکہ اُن میں اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔‘‘
’’عوفی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ یہ کافر اور مومن کی مثال ہے، یعنی دونوں کے درمیان موازنہ کر کے مومن کی برتری ظاہر کرنی مقصود ہے، اور مجاہد کی رائے ہے کہ یہ بتوں اور اللہ کی مثال ہے۔ شوکانی، صاحب فتح البیان اور جمال الدین قاسمی و غیر هم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے، امام ابن قیم نے بھی ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اسی کی تائید کی ہے، کہ جس طرح غلام جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور اپنے آقا کے مال میں اس کی بغیر اجازت کے تصرف کرنے سے بالکل عاجز ہوتا ہے، اس آزاد انسان کے برابر نہیں ہوسکتا، جسے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہے، اور پوری آزادی اور فراوانی سے دن اور رات خرچ کرتا ہے، حالانکہ اللہ کی مخلوق اور انسان ہونے میں دونوں برابر ہیں، لیکن دونوں کے حالات برابر نہیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ جو سارے جہان کا پالنہار ہے، اس کے برابر پتھر کے تراشے ہوئے بت کیسے ہو سکتے ہیں؟
در حقیقت ساری تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں اس لئے کہ تمام نعمتیں اس کی دی ہوئی ہیں۔ پتھروں کے بنے ہوئے اصنام کیسے کسی حمد وثنا کے مستحق ہو سکتے ہیں ، لیکن اکثر لوگ (جو شرک کرتے ہیں ) اس بات کو نہیں سمجھتے ۔
تيسير الرحمٰن، ص: ٧٧٧،٧٧٦۔
دوسری مثال:
(وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ)
(النحل : ٧٦)
’’اور اللہ تعالی دو آدمیوں کی مثال بیان کرتا ہے، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا، اور وہ اپنے آقا کے لئے بوجھ ہوتا ہے، جہاں کہیں بھی اُسے بھیجتا ہے کوئی بھلائی لے کر نہیں آتا، کیا وہ اُس آدمی کے برابر ہو سکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے ۔ درآنحالیکہ وہ سیدھی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔‘‘
’’قارئین! اس دوسری مثال کے ذریعہ بھی بتوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، کہ ایک آدمی گونگا اور بہرا ہے، اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی کسی مفید قول عمل کی قدرت رکھتا ہے، اور اپنے رشتہ داروں پر یکسر بوجھ بنا ہوا ہے، کسی بھی حیثیت سے نہ اپنے کام کا ہے اور نہ دوسروں کے کام کا۔ ایسا آدمی اس شخص کے برابر کیسے ہو سکتا ہے جو گفتگو کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، ہوش و خرد کا مالک ہے، لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دے کر انہیں نفع پہنچاتا ہے، اور اچھے اخلاق والا اور صاحب دین ہے، اور اپنا مقصد آسان اور سیدھے راستوں سے حاصل کر لیتا ہے؟ جس طرح یہ دونوں آدمی برابر نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے، اس کے برابر وہ پتھر کے بت کیسے ہو سکتے ہیں جنہیں بت پرست ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھوتا پھرتا ہے۔ اور وہ اس کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں، نہ اسے نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ؟‘‘
تيسير الرحمٰن، ص: ۷۷۷۔
تیسری مثال:
(( مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٤٢﴾))
(العنكبوت : ٤٢٠٤١)
’’جو لوگ دوسروں کو اللہ کے سوا اپنا کارساز بنالیتے ہیں، ان کی مثال مکڑی کی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے، اور سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، کاش کہ وہ اس بات کو سمجھتے ۔ بے شک اللہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جسے وہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، اور وہ بڑا زبر دست، بڑی حکمتوں والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ’’شرک‘‘ کی شناعت و قباحت کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا کہ جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کو اپنا یار و مددگار مانتے ہیں، اور ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں، ان کی مثال مکڑی اور اس کے جالے کی ہے ، مکڑی اپنا جالا اپنے گرد بنا کر سمجھتی ہے کہ اب وہ سردی گرمی اور ہر دشمن سے محفوظ ہے، لیکن وہ جالا کتنا کمزور ہوتا ہے، اس کا علم سب کو ہے، یہی حال مشرکوں اور ان کے اولیاء کا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصنام ان کے کام آئیں گے، حالانکہ ان کی عاجزی و بے بضاعتی کا جو حال ہے، وہ سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک مکھی بھی اُن کے بتوں پر بیٹھ جائے تو اسے بھگانے کی ان کے اندر سکت نہیں ، اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ ادنی عقل کا انسان بھی اسے سمجھتا ہے، لیکن شرک نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے، اس لئے انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔
اسی لئے آیت (۴۲) میں اللہ تعالی نے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مشرکین اس کے سوا جن باطل معبودوں کی پرستش کرتے ہیں، اسے ان (معبودوں) کا خوب علم ہے، اور وہ غالب و حکیم ہے، ان مشرکانہ اعمال کا بدلہ انہیں ضرور چکھائے گا۔
(وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ)
(الحشر: ۲۱)
’’اور ہم یہ مثالیں انسانوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
قارئین ! ان مثالوں کے بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ آپ تو حید و شرک کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیں ، لیکن اس کی توفیق بھی اللہ اس کو دیتا ہے جو اللہ کی ذات وصفات کا راسخ علم رکھتا ہے، اور جو دلائل و براہین اس کی نگاہ سے گزرتے ہیں ان میں غور و فکر کرتا ہے۔