غیر اللہ سے فریاد رسی اور دعا کرنا – کھلم کھلا شرک
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

غیر اللہ سے فریاد رسی اور دعا کرنا

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

’’استغاثہ‘‘ کا معنی ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے، جو در حقیقت مشکلات کے حل کے لئے فریاد کناں ہونے کا نام ہے، جیسے ’’استنصار‘‘ کا معنی طلب نصرت اور ’’استغاثہ‘‘ کا معنی ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے۔
الفتاوى ١٠٣/١.

علامہ ابن قیم الجوزیہؒ رقم طراز ہیں:

((وَمِنْ أَنْوَاعِهِ أَى الشَّرُكِ ، طَلَبُ الْحَوَائِجِ مِنَ الْمَوْتَى ، وَالْإِسْتِغَاثَةِ بِهِمُ ، وَالتَّوَجُهُ إِلَيْهِمْ وَهَذَا أَصلُ شِرْكِ الْعَالِمِ ، فَإِنَّ الْمَيْتَ قَدْ انْقَطَعَ عَمَلُهُ وَهُوَ لَا يَمْلِكُ لِنَفْسِهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا فَضْلاً لمن اسْتَغَاتَ بِهِ))
مدارج السالكين ١/ ٣٤٦، مغنى المريد ١/ ١١٩٤، تيسير العزيز الحميد، ص: ٢٣٠.

’’مردوں سے مدد طلب کرنا اور حاجات طلب کرنا شرک کی ایک قسم (یعنی چور دروازہ) بلکہ اصل شرک ہے ، در حقیقت مرنے کے بعد آدمی کا سلسلہ عمل منقطع ہو جاتا ہے، وہ پکارنے والے کے لئے تو کیا ؟ خود اپنی ذات کے لئے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوتا۔“

اور شیخ صنع اللہ الحنفیؒ لکھتے ہیں :

((هَذَا وَإِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ فِيْمَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ جَمَاعَاتُ يَدَّعُونَ أَنَّ لِلْأَوْلِيَاءِ تَصَرُّفَاتٌ فِي حَيَاتِهِمْ وَبَعْدَ الْمَمَاتِ ، وَيُسْتَغَاتُ بِهِمْ فِي الشَّدَائِدِ وَالْبَلِيَّاتِ وَبِهِمُ تَكْشِفُ الْمُهِمَّاتُ ، فَيَأْتُونَ قُبُورَهُمُ وَيُنَادُونَهُمْ فِي قَضَاءِ الْحَاجَاتِ ، مُسْتَدِلَّينَ عَلَى أَنَّ ذَالِكَ مِنْهُمُ كَرَامَاتٌ وَقَالُوا : مِنْهُمْ أَبْدَالُ وَ نُقَبَاهُ ، وَأَوْتَادُ وَنُجَبَاهُ ، وَسَبْعُونَ وَسَبْعَةٌ ، وَأَرْبَعُونَ وَأَرْبَعَةُ ، وَالْقُطْبُ هُوَ الْغَوْتُ لِلنَّاسِ ، وَعَلَيْهِ الْمَدَارُ بِلَا الْتَبَاسِ ، وَجَوَّرُوا لَهُمُ الذَّبَائِحَ وَالتَّدُورَ ، وَأَبْتُوا لَهُم فِيهَا الأجور.))
معنى المزيد ١/ ١١٩٥، تيسير العزيز الحميد، ص: ٢٣٢۔

’’آج کل مسلمانوں میں کئی ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہیں، جن کا یہ عقیدہ ہے کہ اولیاء کرام اپنی زندگیوں میں اور مرنے کے بعد بھی مختلف امور میں تصرف کی طاقت رکھتے ہیں، مشکلات و شدائد میں ان سے مدد مانگی جاسکتی ہے۔ لہذا اس عقیدے کے تحت وہ ان کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور قضائے حاجات کے لئے ان کو پکارتے ہیں، اور دلیل یہ پکڑتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کی کرامات ہیں، اور کہتے ہیں کہ اولیاء کرام میں سے بعض ابدال اور بعض اوتاد اور بعض نقباء اور بعض نجباء ہیں، ستر (۷۰) اور چوالیس (۴۴) کی تعداد ذکر کرتے ہیں، اور قطب اسے قرار دیتے ہیں جو لوگوں کی ہر طرح کی مدد کر سکے، اور اسے عالم کا مدار تصور کرتے ہیں، ان اولیاء کے لئے جانور ذبح کرنا اور نذریں ماننا جائز سمجھتے ہیں ، اور اس کا بہت زیادہ اجر و ثواب ذکر کرتے ہیں۔“

مزید لکھتے ہیں:

’’اس کلام میں افراط و تفریط ، بلکہ ابدی ہلاکت ہے، اور ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب ہے، کیونکہ ان معتقدات میں شرک کی بو پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ کتاب اللہ سے تصادم اور ائمہ کرام کے عقائد کی مخالفت اور اجماع امت کا انکار بھی ۔“
حوالہ ایضاً۔

مزید فرماتے ہیں:

’’لوگوں کا یہ کہنا کہ اولیاء کرام کو ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی حق تصرف ہے، اللہ تعالیٰ کے فرامین کی روشنی میں مردود ہے؟

(ءَ إِلَهُ مَّعَ اللهِ)

(النمل: ٦٠)

’’کیا ہے کوئی معبود اللہ کے ساتھ ؟‘‘

(اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ )

(الأعراف : ٥٤)

’’خبردار! اسی کے لئے پیدا کرنا اور حکم ہے۔‘‘

(لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ)

(المائده : ۱۲۰)

’’اللہ کے لئے ہی آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔‘‘

یہ تمام آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف اللہ تعالی ہی کو خلق ، تدبر، تصرف اور تقدیر کا حق حاصل ہے، ان امور میں کسی صورت کسی غیر اللہ کا کوئی حصہ نہیں، پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے ملک، قبر اور تصرف کے تحت ہے۔
حواله أيضًا.

مزید رقم کرتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی (( مِنْ دُونِهِ )) فرمایا ہے، اس سے مراد ’’ مِنْ غَيْرِهِ ‘‘ہے، یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی چیز (خواہ وہ ولی ہو، جسے آپ مدد کے لئے پکاریں یا شیطان) جو اپنے نفس کی مدد پر قدرت نہیں رکھتا وہ دوسروں کی کیا مدد کر سکتا ہے؟‘‘

مزید فرماتے ہیں:

’’غیر اللہ کے لئے یہ تصور کیونکر ہو سکتا ہے، کہ وہ تصرف کر سکتا ہے، یہ بڑا گھٹیا قول اور عظیم شرک ہے۔ اور مرنے کے بعد تصرف پر قادر ہونے کا عقیدہ تو اور زیادہ بدترین اور برے درجے کی بدعت ہے ۔ کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

( اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ )

(الزمر: ٣٠)

’’یقیناً خود آپ ﷺ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘

نیز فرمایا:

((اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَاۚ-فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ))

(الزمر : ٤٢)

’’اللہ تعالیٰ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے، انہیں تو روک لیتا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:

(كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ)

(ال عمران : ١٨٥)

’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

(كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌ)

(المدثر: ۳۸)

’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:

((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ.))
صحيح مسلم، كتاب الوصية:۱۶۳۱.

’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہ تمام نصوص اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی تمام حس و حرکت ختم ہو جاتی ہے، اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں اور روح روک لی جاتی ہے، اور وہ اس کے اچھے یا برے اعمال کی مرہون ہوتی ہے، تو جو اپنے نفس کی حرکت سے عاجز ہیں، وہ دوسروں کے لئے کیا تصرف کر سکتے ہیں؟ اللہ تعالی تو فرما رہا ہے کہ روحیں میرے پاس ہیں، اور یہ ملحد کہتے ہیں کہ روحیں آزاد ہیں، اور تصرف کرتی ہیں۔

(قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُؕ)

’’کیا تمہیں زیادہ علم ہے یا اللہ کو.‘‘
حواله أيضًا.

مزید فرماتے ہیں:

’’ان کا یہ عقیدہ کہ مشکلات و شدائد میں ان سے پناہ مانگی جاسکتی ہے، ان کے سابقہ بیان شدہ نظریہ سے بھی زیادہ قبیح اور شنیع ہے، کیونکہ یہ عقیدہ ظاہراً قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ کے ساتھ متصادم و متعارض ہے ۔“

(اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ)

(النمل: ٦٢)

’’بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے، کون قبول کر کے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(( قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ))

(الأنعام : ٦٣)

’’آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

” اللہ تعالی نے ان آیات میں یہ بات ثابت اور طے فرمادی ہے کہ مصائب کو ٹالنے والا صرف اللہ ہے ۔ اور کوئی نہیں، اور بے کس اور لاچار انسانوں کی دعا وہی قبول کر سکتا ہے۔‘‘
تيسير العزيز الحميد، ص: ٢٣٤٠٢٣٣.

کچھ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:

’’جو شخص کسی غیر اللہ میں خواہ وہ نبی ہو، یا ولی ہو، یا روح یہ عقیدہ رکھے کہ انہیں ازالہ مشکلات یا قضاء حاجات میں کس حد تک قدرت یا تائید حاصل ہے تو وہ بڑی خطرناک وادی جہالت میں گر چکا ہے، بلکہ جہنم کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہے۔‘‘
ایضًا.

مزید فرماتے ہیں:

’’ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اولیاء میں ابدال، نقباء ، اوتاد اور نجباء ہوتے ہیں . یہ سب ان کے گھڑے ہوئے جھوٹ اور بہتان ہیں۔ جیسا کہ قاضی ابن العربی ، ابن الجوزی اور ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ نے بڑی وضاحت سے ذکر کیا ہے۔‘‘ انتہیٰ
تيسير العزيز الحميد، ج : ٢٣٤، ٢٣٥، توحيد إله العالمين، ص: ٢٦٦٠٢٦٣.

یاد رہے کہ عالم اسباب کے تحت ظاہری امور میں ایک دوسرے کی مدد کرنا، اور ایک دوسرے سے مدد چاہنا نہ شرک ہے نہ حرام، بلکہ امور خیر میں لازم ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کی جائے ، جیسا کہ مسیحؑ نے کہا :

(مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ)

(الصف: ١٤)

’’دعوت الی اللہ کی راہ میں میری کون مدد کرے گا ، حواریوں نے کہا، ہم اللہ کے دین کی مدد کرنے والے ہیں۔“

اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ اگر تمہارے بھائی دین کی خاطر تم سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد تم پر لازم ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:

((وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ))

(الأنفال : ٧٢)

’’اور اگر وہ تم سے دین کے کام میں مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنی واجب ہے۔“

پھر اس کا عام قاعدہ اور اصول بتلایا:

((وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪))

(المائده : ۲)

’’اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو۔‘‘

جو لوگ ایسی آیات پڑھ کر مافوق الاسباب امور میں استغاثہ و استمداد کو جائز کرتے ہیں وہ سراسر دھوکا دیتے ہیں، کیونکہ یہ سب امور ظاہر یہ ہیں ۔ اسباب و مسببات کے ماتحت ہیں اور انسان کے اختیار کی چیزیں ہیں، استمداد وہ حرام ہے جو مافوق الاسباب امور میں ہو جو اللہ عز و جل نے صرف اپنے اختیار میں رکھے ہوئے ہیں، مثلاً اولاد دینا، رزق عطا کرنا، فقر و غناء، نفع و ضرر اور عزت وذلت ۔ ان امور میں غیر سے مدد طلب کرنا خواہ وہ نبی ہو یا دلی، امام ہو یا شہید، زندہ ہو یا مردہ ، حاضر ہو یا غائب شرک ہے۔ ایسے تصرفات کی تو جناب سید الانبیاء والرسل محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارک سے بھی نفی کر دی گئی ہے۔

((لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ))

(ال عمران : ۱۲۸)

’’(اے پیغمبر ﷺ) آپ کے اختیار میں کچھ نہیں۔‘‘

((اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ))

(القصص : ٥٦)

’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ہیں۔‘‘

حافظ محمد بن عبدالھادیؒ لکھتے ہیں:

(( أَنَّهُ يُعْطِي وَيَمْنَعُ ، وَيَمْلِكُ لِمَنْ اسْتَغَاكَ بِهِ مِنْ دُونِ اللَّهِ لِضَرَ وَ النَّفْعِ ، وَأَنَّهُ يَقْضِي حَوَائِجَ السَّائِلِينَ وَيَفْرُجُ كُرُبَاتِ الْمَكْرُوبِينَ ، وَأَنَّهُ يَشْفَعُ فِيْمَنُ يَشَاءُ ، وَيُدْخِلُ الْجَنَّةَ مَنْ يَشَاءُ ، فَدَعُونَ الْمُبَالَغَةِ في هَذَا التَّعْظِيمِ مُبَالَغَةٌ فِي الشِّرْكِ وَانْسَلَاحٌ مِنْ جُمْلَةِ الدِّينِ . ))
فتح المجيد، ص : ١٤٦.

’’(یعنی نبی ﷺ کی شان میں مبالغہ کر کے یہ کہنا کہ ) آپ کو عطا اور منع کی طاقت حاصل ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر جو شخص آپ ﷺ سے مدد طلب کرے آپ اس کے لئے نفع نقصان کے مالک ہیں، اور سائلین کی حاجات کو پورا کر سکتے ہیں اور مصیبت زدوں کی مصیبتوں کو رفع کر سکتے ہیں، اور جس کی چاہیں شفاعت کریں، جسے چاہیں جنت میں لے جائیں۔ پس آپ ﷺ کی تعظیم میں ایسا مبالغہ کرنا شرک میں مبالغہ کرنا اور دین اسلام کی قید سے بالکل آزاد ہو جانے کے مترادف ہے۔‘‘

غیر اللہ کو متصرف فی الامور ماننے میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر کی شرکت لازم آتی ہے، یا پھر اس کا بریکار اور بے فعل ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

(( یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ))

(إبراهيم : ۲۷)

’’اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، کرتا ہے ۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

(قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ٘-وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-بِیَدِكَ الْخَیْرُؕ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(26) تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ٘-وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ٘-وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(27))

(ال عمران : ٢٧٠٢٦)

’’آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے اللہ حقیقی بادشاہی کے مالک ! تو جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا کرتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے بادشاہی چھین لیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ذلیل بنا دیتا ہے، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے، تو رات کو دن میں، اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور زندہ کو مردہ سے، اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔“ یہ آیات قرآنیہ اللہ تعالی کے افعال وصفات کی خبر دے رہی ہیں ، پس اگر یہی تصرفات کسی غیر میں مانے جائیں ، تو اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا خود ذات باری تعالیٰ بھی یہ کام کرتا ہے یا نہیں؟ اگر کرتا ہے تو ’’تحصیل حاصل‘‘ اور اللہ کا فعل عبث اور بے کار ٹھہرتا ہے یا ’’شرک في التصرف‘‘ لازم آتا ہے، اور اگر نہیں آتا تو ان نصوص کے بر عکس ذات باری تعالیٰ کا ’’تعطل‘‘ ماننا پڑے گا، حالانکہ اس کی یہ شان ہے:

(كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ)

(الرحمن : ٢٩)

’’ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔‘‘

یعنی وہی گناہ بخشتا ہے، مصائب دور کرتا ہے، اولا د دیتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے اور کسی کو ذلیل کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے بندوں کو مختار اور متصرف فی الامور سمجھ رکھا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں:

((وَالَّذِينَ يَزَوَرُونَ قُبُورَ الأَنْبِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَيَحُجُّونَ إِلَيْهِمُ ليَدَعُوهُمْ وَيَسْأَلُوهُمْ أَوْلِيَعْبُدُوهُمْ وَيَدْعُوهُم مِن دُونِ اللَّهِ هُمُ مُشْرِكُونَ))
الرد على الأحمالي، ص: ٥٢.

’’اور جو لوگ انبیاءؑ اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اور انہیں پکارتے اور ان سے سوال کرنے کی غرض سے آتے ہیں یا اس لئے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں، اور انہیں اللہ کے علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں۔“

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

((وَالدُّعَاهُ مِنْ جُمْلَةِ الْعِبَادَاتِ فَمَنْ دَعَا الْمَخْلُوقِينَ مِنَ الْمَوْتَى وَالْغَالِينَ وَاسْتَغَاتَ بِهِمْ وَلَا اسْتِحْبَابِ كَانَ مُبْتَدِعًا فِي الدِّينِ مُشْرِكًا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ مُبْتَدِعَ بِدْعَةٍ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ .))
كتاب الوسيلة بحواله تو خالص، ص: ۵۰۷ از شیخ بدیع الدین شاه راشدیؒ.

’’دعا بھی عبادات میں سے عبادت ہے، جو شخص مردہ یا غائبین مخلوقات کو پکارتا ہے اور ان سے مدد طلب کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالی نے اور اس کے رسول ﷺ نے اس کا حکم نہ تو وجوباً دیا ہے اور نہ ہی استحباباً، ایسا شخص دین میں مبتدع، ربّ العالمین کے ساتھ مشرک ہے اور ایسی بدعت کا مرتکب ہو رہا ہے، جس پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔‘‘

’’یعنی زندہ اور مردہ اولیاء و انبیاء کو پکارنا اس لئے جائز نہیں کہ ’’پکار‘‘ عبادت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

(( الدُّعَاهُ هُوَ الْعِبَادَةُ ))

’’کہ دعا ہی عبادت ہے۔‘‘

اور پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

(وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ)

(المؤمن : ٦٠)

’’اور تمہارے رب نے کہ دیا ہے، تم سب مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ قبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے ، وہ عنقریب ذلت ورسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔‘‘
سنن ترمذی، کتاب التفسیر، رقم: ۲۹۶۹، اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث ’’حسن صحیح‘‘ ہے مزید دیکھیں صحیح الترمذي للالبانی رحمہ اللہ تعالی ، رقم: ۲۳۷۰.

مذکور حدیث سے صراحت سے معلوم ہوا کہ ’’پکار‘‘ عبادت ہے، لہٰذا جاہل لوگوں کا دور سے ہی کہہ دینا کہ ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شيئاً لله‘‘ شرک ہے۔ جناب قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتیؒ فرماتے ہیں:

اولیاء قادر نیستند بر ایجاد معدوم یا اعدام موجود پس نسبت کردن اعدام و ایجاد و اعطاء رزق یا اولاد یا دفع مرض وغیره آن بسوئے شاہ کفر است.(قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ الله)

(الاعراف: ۱۸۸)
إرشاد الطالبين فارسي، ص: ۱۸، طبع لاهور، بحواله مشاهد التوحيد، ص: ۳۳۱، ۳۳۲، طبع الحمن إشاعة التوحيد والسنة، شرقيور.

’’اولیاء کرام معدوم کو پیدا کرنے ، اور موجود کو نابود کرنے پر قادر نہیں ہیں ۔ پیدا کرنے ، معدوم کرنے ، رزق پہنچانے اور اولاد دینے ، بلا دور کرنے ، مرض سے شفا بخشنے وغیرہ کی ان سے اُمید کر کے مدد طلب کرنا کفر ہے، کیونکہ آپ ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ کہہ دیجئے ! میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی جتنا اللہ نے چاہا ہو۔“

قرآن مجید میں اس مسئلہ کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے، ایک طرف تو اثبات ہے یعنی یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ” پکارا جانا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس کو پکارو اور اسی سے استغاثہ کرو، اور دوسری طرف نفی کا انداز اختیار کیا ہے کہ اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ غیر اللہ کو پکارنا شرک ہے، بغاوت اور سرکشی ہے، بلکہ غیر کو پکارنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اسے الٰہ سمجھنا،
صرف آیات کریمہ ملاحظہ ہوں ۔

آیات اثبات:

(اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ)

(الأعراف : ٥٥)

’’تم لوگ اپنے رب کو نہایت عجز و انکساری اور خاموشی کے ساتھ پکارو، بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“

دوسرے مقام پر فرمایا:

(وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ)

(الأعراف : ٥٦)

’’اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارا کرو، بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔“

تیسرے مقام پر فرمایا:

((ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ))

(المؤمن : ٦٠)

’’تم سب مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘

دوسرا انداز ( یعنی انداز نفی):

فرمان باری تعالیٰ ہے۔

(وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَۚ-فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ(106) وَ اِنْ یَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَۚ-وَ اِنْ یُّرِدْكَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖؕ-یُصِیْبُ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(107))

(يونس : ١٠٧٠١٠٦)

’’اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے ، اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ اور اگر تم کو اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ آپ کے لئے کوئی بھلائی چاہے تو اس کے فضل و کرم کو کوئی روک نہیں سکتا ہے۔“

فائدہ:

ابن عطیہؒ فرماتے ہیں؛ اس آیت کریمہ میں نبی ﷺ اللہ تعالی کے مخاطب ہیں، جب معاملہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کو غیر اللہ کو پکارنے سے منع کر دیا گیا اور بفرض محال اگر انہوں نے پکار لیا تو وہ ظالموں سے ہو جائیں گے ، تو پھر دوسروں کو تو اور زیادہ ڈرنا اور بچنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ شرک کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے:

(اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ)

(لقمان : ١٣)

’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔‘‘
تیسیر العزیز الحمید، ص:۲۳۶۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

(فَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ)

(الشعراء: ۲۱۳)

’’پس تم اللہ کے علاوہ کسی اور معبود کو نہ پکارو کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے ۔‘‘

تیسرے مقام پر فرمایا:

((وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ))

(القصص: ۸۸)

’’اور اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکارنا، اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ‘‘ کے آخر میں آنے کا مطلب صاف ظاہر ہے، جس کو پکارا جائے وہی ’’ إِله ‘‘ ہوتا ہے، پس جو شخص ’’لا إله ‘‘ کا اقرار کر لینے کے بعد بھی کسی اور کو پکارے تو اس کے شرک میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

((وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ-لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖۙ-فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ))

(المؤمنون : ۱۱۷)

’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے، بے شک کا فرلوگ نجات سے محروم ہیں ۔

اللہ کی پکار اور انبیاء علیہم السلام :

یہ بات واضح ہے کہ عام انسانوں کی طرح انبیاءؑ پر بھی مصائب آئے ہیں۔ حصول نفع اور دفع مضرت کی خواہشات ان میں موجود تھیں، مگر کسی پیغمبر نے کسی حالت میں ماسوائے اللہ کے کسی کو نہیں پکارا، نہ رغبت میں نہ رہبت میں ، نہ طمع میں اور نہ خوف میں، بلکہ ہر حال میں اپنے رب ہی کو پکارتے تھے۔ اسی کی طرف جھکتے اور اسی پر بھروسہ کرتے تھے۔

((اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ)

(الأنبياء : ٩٠)

’’بے شک وہ لوگ یعنی انبیاء خیر کے کاموں کی طرف سبقت کرتے تھے اور ہمیں امید وبیم کی حالت میں پکارتے تھے اور ہمارے لئے خشوع و خضوع اختیار کرتے تھے۔‘‘

سیدنا آدم علیہ السلام:

جب آپ سے خطا سرزد ہوئی تو آپ نے اپنے رب کو اس طرح پکارا :

((رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ))

(الأعراف: ۲۳)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہیں کیا اور ہم پر رحم نہیں کیا ، تو ہم یقیناً خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

سیدنا نوح علیہ السلام :

سیدنا نوحؑ کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے دعا فرمائی:

((رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا))

(نوح: ۲۸)

’’اے میرے رب! تو مجھے معاف کر دے اور میرے ماں باپ کو بھی اور ان مومن مردوں اور عورتوں کو بھی جو میرے گھر میں داخل ہوں اور ظالموں کے لئے صرف تباہی و بربادی میں اضافہ کر۔ ‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام:

((رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ))

(ابراهيم: ٤١)

’’اے ہمارے رب! تو مجھے اور میرے والدین کو اور مومنوں کو اس دن معاف کر دے، جب حساب ہو گا ۔“

فائدہ:

ڈاکٹر لقمان سلفیؒ اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں:

’’مفسرین لکھتے ہیں کہ والدین کے لئے انہوں نے یہ دُعا اُس وقت کی تھی جب نہیں جانتے تھے کہ وہ دونوں اللہ کے دشمن ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کی ماں مسلمان ہوگئی تھیں۔ ایک قرآت میں ’’وَالِدِي ‘‘ آیا ہے، یعنی دعا میں صرف اپنے والد کو مراد لیا تھا۔ ایک دوسری قرات میں ’’وَلَدَي ‘‘ آیا ہے، یعنی میرے دونوں بیٹوں، اسماعیل اور اسحاق کو بھی معاف کر دے ۔‘‘
تيسير الرحمن، ص: ٧٣٥.

سیدنا ایوب علیہ السلام :

قرآن مجید میں ہے، اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا:

((اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ))

(الأنبياء: ۸۳)

’’یقینا مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔‘‘

سیدنا یونس علیہ السلام :

یونسؑ کو مچھلی نے جب لقمہ بنالیا تو انہوں نے دعا کی:

((لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ))

(الأنبياء: ۸۷)

’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے، میں بے شک قصور وار تھا۔“

فائدہ:

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” یونس کی دعا جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے (لَا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ) تھی، جب بھی کوئی مسلمان اپنے رب سے کسی حاجت کے لئے یہ دعا کرے گا، قبول کی جائے ۔“
سنن ترمذی، کتاب الدعوات، رقم: ۳۵۰۵، مسند أحمد ۱۷۰/۱، مسند البزار (كشف الأستار) رقم: ۳۱۵، مستدرك حاكم ۵۰۵/۱ و ۲/ ۳۸۲، ۳۸۳، صحیح الترمذي للألباني، رقم: ٢٧٨٥.

سیدنا زکریا علیہ السلام :

ذکریاؑ کو اولاد کی ضرورت تھی ، انہوں نے بھی رب کو پکارا۔

( وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ )
(الأنبياء : ٨٩)

’’اے میرے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑنا ، اور تو ہی بہترین وارث ہے۔‘‘

سیدنا یعقوب علیہ السلام :

یعقوبؑ کے بیٹوں نے کہا کہ یوسف ؑ کو بھیڑیا کھا گیا ہے، تو آپ نے کہا:

((وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ))

(يوسف: ۱۸)

’’(میں) اللہ سے ہی مدد مانگتا ہوں۔‘‘

اور دوسری جگہ کہا:

( اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ)

(يوسف : ٨٦)

’’میں اپنا درد و غم اور حزن والم اللہ سے کہتا ہوں۔“

سیدنا یوسف علیہ السلام :

اللہ تعالیٰ نے جب اپنی نعمت یوسفؑ پر تمام کردی، والدین اور بھائیوں کو ان کے پاس پہنچادیا، اور انہیں علم نبوت، علم تعبیر الرؤیا، اور مصر کی عظیم بادشاہت سے نوازا تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ؛

((رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَـوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ))

(يوسف : ١٠١)

’’اے میرے رب ! تو نے مجھے بادشاہت عطا کی اور خوابوں کی تعبیر کا علم دیا، اور اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! دنیا و آخرت میں تو ہی میرا یار و مددگار ہے، تو مجھے بحیثیت مسلمان دنیا سے اٹھا، اور نیک لوگوں سے ملا دے۔“

آنحضرت ﷺ :

رسول اللہ ﷺ کی دعائیں بہت کثرت سے ہیں جو حدیث اور وظائف کی کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں، ان کے مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ جب بھی آپ ﷺ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ سے کی، آپ اپنے رب سے زیادتی علم کی دعا کرتے۔

(رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا)

(طه: ١١٤)

”اے میرے رب ! مجھے اور زیادہ علم دے۔“

فائدہ:

نواب صدیق حسن لکھتے ہیں:

(( وَمَا أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَلَبِ الزَّيَادَةِ فِي شَيءٍ إِلَّا فِي العِلمِ ))
فتح البياك ٣٧٥/٤.

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو علم کے سوا کسی چیز میں زیادتی طلب کرنے کی نصیحت نہیں کی ۔“

پس غیر اللہ میں سے کسی کو دعاء کے قابل سمجھنا، اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برابر کرنے کے مترادف ہے اور یہی شرک ہے۔ قیامت کے دن مشرکین جہنم کے اندر اس حقیقت کا اعتراف کر لیں گے کہ؛

(تَاللَّهِ إِن كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (97) إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ (98))

(الشعراء: ۹۸۰۹۷)

’’اللہ کی قسم ! یقیناً ہم تو کھلی غلطی میں واقع تھے، جب کہ تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے۔“

عباد قبور اپنے شرکیہ امور کے اثبات کے لئے بعض احادیث کا سہارا لیتے ہیں، لیکن وہ استدلال یا تو غلط فہم کی اساس پر ہے یا وہ احادیث باعتبار سند ضعیف ، منکر، بلکہ بعض موضوع تک ہیں ۔

وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ .
توحيد إله العالمين ١/ ٢٧٤، از شیخ عبدالله ناصر رحمانی حفظه الله.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے