شرک کے چور دروازے: غیر اللہ کی نذر و نیاز دینا
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

غیر اللہ کی نذر و نیاز دینا

’’نذر‘‘ کا لفظی معنی واجب کرنا ہے ، اور اصطلاح شرع میں یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر کسی چیز کو واجب کر دے جو کہ شرعی طور پر اس پر واجب نہیں ہے۔

اور اگر کوئی شخص کہے:

اللہ کے لیے مجھ پر واجب ہے کہ میں عشاء کی نماز پڑھوں گا تو یہ نذر نہ ہوگی ، کیونکہ نماز مسلمان پر فرض ہے، جبکہ نذر اس کام میں واقع ہوتی ہے جو کہ فرض نہیں، اور نذر فرائض سے ہٹ کر ایک زائد عمل ہے۔
فتح الباری: ٥٢٥/١١- تفسیر الطبری : ۱۲۹/۱۲ – لسان العرب مادة ” نذر فتح القدير: ٣٢٤/٥ زاد الميسر : ٢٦٧/١.

نذرو نیاز صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جو لوگ انفاق مال اور نذر میں حکم الہی کی مخالفت کرتے ہیں، وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں، ان مشرکوں کا کوئی مددگار نہیں، اللہ جو چاہے ان پر عذاب کرے۔

((وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗؕ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ))

(البقرة : ۲۷۰)

’’اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا کوئی منت مانتے ہو، تو اللہ بے شک اُسے جانتا ہے، اور ظالموں (مشرکوں) کا کوئی مددگار نہ ہوگا ۔“

یعنی مشرکین غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور غیر اللہ کے تقرب کے لئے نذرونیاز کے طور پر ذبح کرتے تھے ۔ اس لئے نبی ﷺ کو حکم ہوا کہ آپ ان (مشرکین) کی مخالفت میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ میری ہر قسم کی عبادت نماز اور ذبح وغیرہ اللہ کے تقرب اور خوشنودی کے لئے ہے۔

((قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ))

(الأنعام: ١٦٢)

’’آپ کہیے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔“

زائرین بیت اللہ شریف کو حکم ہوتا ہے:

(وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ)

(الحج : ٢٩)

’’اور (وہ حج کرنے والے ) اپنی نذر پوری کریں۔“

شاہ صاحب لکھتے ہیں:

”اور منتیں اپنی مرادوں کے واسطے جو مانا ہو وہ ادا کریں ، اصل منت اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں ۔‘‘
موضح القرآن.

سورة دھر ( الآیة : ۷) میں ’’عباد اللہ‘‘ کی تعریف میں اس وصف کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ کی نذر و نیاز مانتے ہیں اس کو پورا کرتے ہیں:

(یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ)

(الدهر : ٧)

’’وہ (مومنین ) نذر پوری کرتے ہیں۔“

نذرلغیر اللہ کی ممانعت:

مشرکین مکہ کے عقائد و اعمال شرکیہ میں بیان ہو چکا ہے کہ وہ اپنے مویشی اور کھیتی باڑی میں غیر اللہ کی نیاز اور حصہ مقرر کرتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

(وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْؕ-تَاللّٰهِ لَتُسْــٴَـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ)

(النحل : ٥٦)

’’اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے ان معبودوں کے لئے حصہ نکالتے ہیں جن کے معبود ہونے کی انہیں کوئی خبر نہیں، اللہ کی قسم ! تم جو افترا پردازی کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔‘‘

مشرکین مکہ کا ایک شرک اور ان کی باطل پرستی یہ تھی کہ جن جمادات و شیاطین کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، انہی کو اپنا معبود بناتے ، اور ان کے تقرب کے لئے اللہ کی دی ہوئی روزی کا ایک حصہ خرچ کرتے ، ان پر چڑھاوے چڑھاتے ، ان کی نذریں مانتے ، اور جانوروں کو ان کے نام سے ذبح کرتے تھے۔

بلکہ مشرکین اپنی زرعی پیداواروں اور جانوروں کا ایک حصہ اللہ کے لئے اور دوسرا حصہ اپنے بتوں اور معبودوں کے لئے قرار دیتے تھے ، بتوں کا حصہ پروہتوں اور سادھوؤں پر خرچ کرتے ، اور جب وہ پورا خرچ ہو جاتا تو اللہ کا حصہ بھی بتوں ہی کے لئے خاص کر دیتے، اور کہتے کہ اللہ تو مالدار ہے، تو جو حصہ بتوں کا ہوتا وہ تو اللہ کو بہر حال پہنچتا ہی نہیں تھا (یعنی صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ پر خرچ نہیں ہوتا تھا) اور جو حصہ اللہ کا ہوتا اسے بھی بتوں پر خرچ کر دیتے تھے۔

(وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ-فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىٕهِمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ)

(الانعام : ١٣٦)

’’اور اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کئے ہیں ان کا ایک حصہ مشرکوں نے اللہ کے لئے مقرر کر دیا، اور اپنے زعم باطل کے مطابق کہا کہ یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے معبودوں کے لئے تو جو حصہ ان کے معبودوں کا ہوتا ہے وہ اللہ کو نہیں پہنچتا ہے اور جو اللہ کا حصہ ہوتا ہے وہ ان کے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے، ان کا فیصلہ بڑا برا ہے۔‘‘

اسی طرح فرمایا کہ زمین کی کل پیداوار، باغات اور مزروعات اور اثمار مختلفہ سب اللہ تعالی کی پیدا کردہ نعمتیں ہیں، ان کے کھانے پینے اور استعمال سے بدون سند کے مت روکو۔ ہاں دو باتوں کا خیال رکھو ۔ ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا حق لازم ادا کرو ۔ دوسرے فضول اور بے موقعہ خرچ مت کرو۔

(وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ)

(انعام: ١٤١)

’’وہی ہے جس نے چھپروں پر چڑھائے اور بے چڑھائے ہوئے باغات پیدا کئے ہیں، اور کھجوروں کے درخت اور کھیتیاں پیدا کی ہیں جن کے دانے اور پھل مختلف قسم کے ہوتے ہیں، اور زیتون اور انار پیدا کئے ہیں جن میں سے بعض ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں اور بعض مشابہ نہیں ہوتے ، جب ان کے پھل تیار ہو جائیں تو کھاؤ، اور اسے کاٹنے کے دن اس کی زکاۃ دو، اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔“

مذکورہ آیت کریمہ میں وارد لفظ ((اتُو حَقَّهُ)) میں اللہ تعالیٰ کے حق لازم زکوۃ ، عشر وغیرہ کی ادائیگی کا حکم ہے، اور (لَا تُسْرِفُوا) میں کسی غیر کا حق لازم سمجھ کر ادا کرنے کی نفی بھی موجود ہے، تفسیر الخازن (۱۶۳/۲) میں ہے:

(( قَال مقاتل: لَا تُشْرِكُوا الْأَصْنَامَ فِي الْحَرْبِ وَالْأَنْعَامِ .))

’’یعنی مقاتل فرماتے ہیں، کھیتی اور جانوروں میں اپنے معبودوں کو ان کی نیاز ٹھہرا کر (شریک نہ کرو)۔

اسی طرح احادیث نبویہ سے کیا تم میں غیر اللہ کے لئے نذر ماننے سے منع کیا گیا ہے،

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ . ))
سنن أبي داؤد، كتاب الأيمان والنذور، رقم: ۳۳۱۳، طبراني كبير ٧٥١٢، رقم: ١٣٤١، متن الكبرى للبيهقي ۸۳/۱۰، حافظ ابن حجر نے ’’ التلخيص الحبير ‘‘ ١٤ ١٥٥١، ج : ٢٠٧٠ میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

’’جس نذر میں اللہ کی نافرمانی ہو اس کو پورا نہ کرنا۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

(( مَنْ نَذَرَ أَن يَعْصِيَ الله فَلَا يَعْصِهِ. ))
صحیح بخارى، كتاب الأيمان والنذور، رقم: ٦٦٩٦، سنن ترمذی، كتاب النذور والأيمان، رقم:١٥٢٦.

’’جو شخص ایسی نذر مانے جو اللہ کی نافرمانی پر مبنی ہو تو اسے پورا کر کے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے ۔“

منع پر اجماع امت:

علامہ حصفکی ’’الدر المختار‘‘ (۱۵۵/۱) میں رقم طراز ہیں:

(( وَاعْلَمُ أَنَّ النَّذَرَ الَّذِى يَقَعُ لِلْأَمْوَاتِ مِنْ أَكْثَرِ الْعَوَامِ وَمَا يُؤْخَدُ مِنَ الدَّرَاهِم وَالشَّمْعِ وَالزَّيْتِ وَنَحُوهَا إِلَى ضَرَائِحِ الْأَوْلِيَاءِ الْكِرَامِ تَقَرُّبَا إِلَيْهِمْ فَهُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَحَرَامٌ.))

’’جان لو کہ اکثر لوگ مردہ بزرگوں کے نام پر جو نذریں، نیازیں دیتے ہیں، اور جو روپے پیسے، تیل اور چراغ وغیرہ بطور نذر کے مزارات اولیاء پر تقرب کی غرض سے لائے جاتے ہیں، یہ سب کچھ بالاجماع باطل اور حرام ہے ۔“ اور ’’در مختار‘‘ ہی کی شرح ’’ردالمختار‘‘ (المعروف فتاویٰ شامی) میں اس کی شرح بائیں الفاظ کی گئی ہے۔

((بَاطِلٌ وحَرَامٌ لِوُجُوهِ مِنْهَا: إِنَّهُ نَدْرٌ لِمَخْلُوقِ وَالنَّذَرُ لِلْمَخْلُوقِ لَا يَجُوزُ لِأَنَّهُ عِبَادَةٌ ، وَالْعِبَادَةُ لَا تَكُونُ لِمَخْلُوقِ وَمِنْهَا: أَنَّ الْمَندُورَ لَهُ مَيْتٌ ،وَالْمَيْتُ لَا يَمْلِكُ ، وَمِنْهَا : أَنَّهُ ظَنَّ أَنَّ الْمَيِّتَ يَنصِرف فِي الأمورِ دُونَ اللَّهِ ، وَإِعْتِقَادُهُ ذَلِكَ كُفْرٌ ))
رة المحتار ۱۲۸/٢، طبع بيروت.

’’یعنی غیر اللہ کی نذرو نیاز دینا کئی وجوہات سے باطل اور حرام ہے، جن میں سے (ایک) یہ ہے کہ نذر عبادت ہے، اور عبادت غیر اللہ کی جائز نہیں ہے، (دوسرا) جس کی نذر دی جاتی ہے وہ مر چکا ہے اور مردہ کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا ، (تیسرا) اگر ناذر ( نذر ادا کرنے والا) کا یہ خیال ہو کہ منذورلہ (جس کے لیے نذر مانی گئی) اللہ کے سوا متصرف فی الامور ہے تو اس کا یہ اعتقاد صریح کفر ہے۔‘‘

علامہ احمد الرومی الحنفیؒ فرماتے ہیں:

((لَا يَجُوزُ أَن يُنذَرَ لِلْقُبُورِ الشَّمَعَ وَلَا الزَّيْتَ وَلَا غَيْرَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ نَذَرُ مَعْصِيَةٍ لَا يَجُورُ الْوَفَاهُ بِهِ بَلْ يَلْزَمُ الْكُفَّارَةُ مِثْلَ كَفَّارَةِ الْيَمِينِ))
مجالس الأبرار، ص: ۲۰، مطبوعه الرياض.

’’قبروں کے لئے شمع ، تیل وغیرہ نذر ماننا جائز نہیں۔ اس لئے کہ یہ معصیت و نافرمانی کی نذر ہے جو پوری کرنا جائز نہیں بلکہ اس پر قسم کے کفارے جیسا کفارہ لازم آئے گا۔“

علامہ صنع اللہ الحنفی فرماتے ہیں:

’’ذبح اور نذر لغیر اللہ باطل ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے:

(قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ)

(الأنعام: ١٦٢)

’’آپ کہہ دیجئے یقیناً میری نماز ، میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا (اس) اللہ رب العالمین کے لئے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ۔“

لہٰذا نذر لغیر اللہ اسی طرح شرک ہے جیسا کہ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا شرک ہے۔
معنى المريد ٣/ ١١٣٧.

جو چیز غیر اللہ کی نذر کی جائے حرام ہے:

مولا نا عبدالحی لکھنوی اپنی یہ لکھتے ہیں:

’’غیر اللہ کی نذر ومنت حرام ہے اور منذور وغیرہ خواہ شیرینی ہو یارخونی، ہر امیر و فقیر پر اس کا کھانا حرام ہے۔“
فتاویٰ عبدالحی لکهنوی۔

شاہ عبدالعزیز دہلویؒ فرماتے ہیں:

’’اور اگر منذور غیر خدا جانور ہو تو عند الذبح اس پر خدا کا نام لینا کچھ مفید نہیں پڑتا۔ اور وہ مردار اور خنزیر کی طرح حرام ہی رہتا ہے ۔‘‘
تفسیر عزیزی ۶۹۱/۱۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے