اکابر پرستی: شرک کا ایک چور دروازہ
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

اکابر پرستی

’’غلو‘‘ اور ’’تجاوز فی التعظیم‘‘ کا لازمی نتیجہ ’’اکابر پرستی‘‘ ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے شرک اسی ذریعہ سے آیا۔ سیدنا عیسیؑ اور سیدنا عزیرؑ اور دوسرے ود، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر کو الہ بنا ڈالا گیا، ارشاد باری تعالی ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ
اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ، اور نصاری نے کہا کہ عیسیؑ اللہ کے بیٹے ہیں۔
(التوبة : ٣٠)

اور قوم نوحؑ نے کہا:
وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ‎﴿٢٣﴾
’’کہ تم لوگ اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑو، اور تم ”ود‘‘ کو نہ چھوڑو، اور نہ ’’سواع‘‘ کو اور نہ ’’یغوث‘‘ اور ’’یعوق‘‘ اور ’’نسر‘‘ کو۔‘‘
(نوح : ٢٣)

قوم کے سرغنوں نے عوام الناس کو اکابر پرستی پر ابھارتے ہوئے کہا کہ جن معبودوں کی ہمارے اور تمہارے آباء پرستش کرتے آئے ہیں، انہیں ہرگز نہیں چھوڑو، اور اُن کی عبادت پر سختی کے ساتھ جمے رہو، تم لوگ اپنے معبودوں ود، سواع، یغوث،یعوق اور نسر کو کسی حال میں فراموش نہ کرو۔

امام بخاریؒ نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قوم نوح جن معبودوں کی پرستش کرتی تھی:
أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِيْنَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ فَلَمَّا هَلَكُوا أَوحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمُ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمُ ، فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَد حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولئِكَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ.
’’ود، سواع، یغوث ، یعوق اور نسر قوم نوح میں نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ لوگ وفات پاگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہوں پر ان کے ناموں کے مجمعے بنا کر گاڑ دو، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ لوگ مر گئے ، اور ان کے درمیان سے علم اُٹھ گیا تو ان مجسموں کی عبادت کی جانے لگی ۔“
صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم الحديث : ٤٩٢.

حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں:
قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِّنَ السَّلَفِ : فَلَمَّا مَا تُوْا عَكَفُوا عَلَى قُبُورِهِمْ ثُمَّ صَوَّرُ وَاتَمَائِيْلَهُمْ ثُمَّ طَالَ عَلَيْهِمُ الْآمَدُ فَعَبَدُوهُمْ.
’’اکثر سلف کا یہ کہنا ہے کہ جب یہ لوگ فوت ہوگئے تو لوگ ان کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے، اور پھر جب کچھ عرصہ گزر گیا تو انہوں نے ان کی تصویریں بنالیں، اور پھر ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔
إغاثة اللهفات : ۲۸۷/۱

ابن جریرؒ نے محمد بن قیس کا قول نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں:
كَانُوا قَوْمًا صَالِحِيْنَ مِنْ بَنِي آدَمَ ، وَكَانَ هُمْ أَتَبَاعٌ يَقْتَدُونَ بِهِم فَلَمَّا مَاتُوا قَالَ أَصْحَابُهُمُ الَّذِينَ كَانُوا يَقْتَدُونَ بِهِمْ: لَوْ صَوَّرُنَا هُمْ كَانَ اَشْوَقُ لَنَا إِلَى الْعِبَادَةِ إِذَا ذَكَرُنَا هُم ، فَصَوَّرُوهُمْ ، فَلَمَّا مَاتُوا وَجَاءَ آخَرُونَ رَبَّ إِلَيْهِمُ إِبْلِيسُ ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانُوا يَعْبُدُونَهُم وبِهِمْ يُسْقَوْنَ الْمَطَرَ ، فَعَبَدُوهُمْ.
’’یہ اولاد آدم کے صالح لوگ تھے، جن کے کچھ متبعین ان سے عقیدت رکھتے تھے۔ جب یہ لوگ وفات پاگئے، تو ان کے معتقدین نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں، تو عبادت میں ہمارا شوق و ذوق زیادہ ہو جائے گا۔ ہم نے یہ مجسمے بنا لیے۔ جب یہ لوگ (مجھے بنانے والے) وفات پا گئے اور دوسری نسل کے لوگ آئے ، تو شیطان اُن کے پاس آیا اور کہا ، کہ تمہارے باپ دادا تو ان تصویروں اور مجسموں کی پرستش کرتے تھے اور انہی بتوں کی وجہ سے اُن پر بارش ہوا کرتی تھی ، یہ باور کر یا تو نئی نسل والوں نے ان بتوں کی پرستش شروع کر دی۔‘‘
تفسیر ابن جرير : ٢٥٤/١٢، سورة نوح

معلوم ہوا کہ بت پرستی کا آغاز بزرگوں، اولیاء اور اصحاب القبور کی اندھی عقیدت سے ہوا تھا، اور بُت پرستی در حقیقت اکابر پرستی ہے ۔ بت تو صرف یادگار کے طور پر پوجے جاتے تھے۔ اصل مقصد ان اولیاء اور اکابر کی پرستش تھا جن کے نام پر یہ بت اور مجسمے بنائے گئے تھے۔ جس طرح کہ آج کے قبر پرستوں کی نیت اصحاب القبور کی پرستش کرنا ہوتی ہے اور قبور صرف یادگار کی حیثیت رکھتی ہیں۔

سیدنا نوحؑ اسی بت پرستی اور اکابر پرستی کی تردید کے لیے مبعوث ہوئے تھے، دجلہ اور فرات کے درمیان سرزمین عراق میں انہوں نے توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا اور (۹۵۰) سال تک یہ کام جاری رہا۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں ’’شاہ پرستی‘‘ کا شرک موجود رہا ہے۔ بادشاہوں کو دیوتا سمجھ کر انہیں سجدے بھی کیے گئے ہیں اور عوام کو بادشاہوں کے غلاموں کی حیثیت بھی دی گئی ہے ۔ اسی غلامانہ اور مشرکانہ ذہنیت کی بیخ کنی کی خاطر مسلمانوں کے لیے ”شہنشاہ“ نام رکھنا ممنوع قرار دیا گیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أختى الأسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ اللهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الأملاك.
’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہوگا جو اپنا نام ملک الاملاک رکھے۔“
صحیح بخاری، کتاب الأدب، رقم : ٦٢٠٥

مولانا داؤد راز دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’لفظ أخنی کے معنی بہت ہی بدترین، بہت ہی گندہ کے ہیں کہ لوگ کسی کا نام بادشاہوں کا بادشاہ رکھیں۔ ایسے نام والے قیامت کے دن بدترین لوگ ہوں گے۔
شرح بخاری از مولانا داؤد راز : ٥٤٦/٧

ایک اور روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں :
أَخْنَعُ الْأَسْمَاءِ عِندَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى بِمَلِكِ الْأَمْلاكِ قَالَ سُفْيَانُ يَقُولُ غَيْرُهُ تَفْسِيرُهُ شَاهَانَ شَاهُ.
’’اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں میں سے اس کا نام ہوگا جو ملک الاملاک اپنا نام رکھے گا۔ سفیان بیان کرتے ہیں کہ (ابوالزناد) وغیر نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے ’’شاہان شاہ‘‘ یعنی شہنشاہ۔“
صحیح بخارى، كتاب الأدب، رقم : ٦٢٠٦

شاہ پرستی کی اس موذی بیماری کے خاتمے کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے آقا اور ’’سردار‘‘ کو ’’رب‘‘ کہنے سے منع فرما دیا ہے، اور خادم کو ’’میرا بندہ “ اور ”میری لونڈی‘‘ کہنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ أَطْعِمُ رَبَّكَ وَضَى رَبَّكَ ، اسْقِ رَبَّكَ ، وَلَيَقُلْ سَيْدِى مَوْلاىَ، وَلَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ عَبْدِى أَمَتِي ، وَلْيَقُلْ فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلَامِي.

تم میں سے کوئی بھی یوں نہ کہے کہ اپنے ’’رب‘‘ کو کھانا کھلاؤ، یا اپنے ’’رب‘‘ کو وضو کرواؤ، بلکہ میرا ’’سردار‘‘ اور میرا ’’آقا‘‘ کہا کرے۔ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے خادم اور غلام کو ” میرا بندہ‘‘ اور ’’لونڈی‘‘ نہ کہے، بلکہ یوں کہے میرا ’’خادم‘‘ میری ’’خادمہ‘‘ میرا ’’غلام‘‘۔
صحیح مسلم، كتاب الأدب، رقم : ٥٨٧٧

لغوی معنوں کے اعتبار سے ”رب‘‘ مالک اور بادشاہ کو بھی کہا جاتا ہے اور ”عہد“ اور ’’امتہ‘‘ غلام اور خادمہ کے معنوں میں بھی آتا ہے جو شرک نہیں ہے، لیکن یہ الفاظ چونکہ موھم شرک ہیں یعنی ان میں اسمی مشارکت اور مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے معمولی مشابہت کو بھی ختم کرنے کے لیے ان الفاظ کو استعمال کرنے سے روک دیا گیا، تا کہ شرک ’’اکابر پرستی‘‘ کا راستہ بالکل ہی مسدود ہو جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے