عقیدہ ’وحدة الشہود‘: شرک کا ایک چور دروازہ
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

فلسفہ وحدة الشہود

جو اسباب ہمارے معاشرے میں شرک کی ترویج کا باعث بن رہے ہیں، ان میں سے ’’وحدة الشہود‘‘ کا فلسفہ بھی ہے، اس کی حقیقت سید رشید رضا مصری پاپیلہ نے ’’تفسیر المنار۲۳۹/۱۰‘‘ میں کچھ یوں بیان کی ہے:

(( وَمَا يُسَمُّونَهُ الْفَتَاة في اللهِ وَهُوَ أَن يُعِيبَ الْعَبْدُ عَنْ شُهُودِ نَفْسِهِ وَالشُّعُورِ بَارَاتِهِ وَيَبْقَى لَهُ الشُّعُورُ بِأَنَّهُ مَظْهَرٌ مِنْ مَظَاهِرٍ بَعْضِ صِفَاتِ رَبِّهِ وَمَوْضِعُ تَجَلَّى مَا شَاءَ مِنْ أَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ حَتَّى يَكُونَ عَزَّوَجَلَّ هُوَ الْغَالِبُ عَلَى أَمْرِهِ ….. وَهَذَا الْفَنَاءُ وَالشُّعُورُ لَا يَحْصُل لِمَنْ صَارَ مِنْ أَهْلِهِ إِلَّا بِقَطْعِ الْمَرَاحِلِ وَالتَّنَقُلِ فِي الْمَرَاتِبِ الَّتِي مِنْ قَبْلِهِ إِلَّا اللَّمُحَةَ بَعْدَ المَحَةِ وَالْفَيْنَةَ بَعْدا لَفَيْنَةٍ وَهَذِهِ الْمَرْتَبَةُ هِيَ مَرْتَبَةُ وَحَدَةِ الشُّهُودِ ….. فَهَدِهِ فَلْسَفَةٌ مَادِيَّةٌ بَاطِلَةٌ اِخْتَرَعَهَا مُخيَّلَاتُ صُوفِيَة الْبُوزِيَةِ وَالْبَرَاهِمَةِ وَهِيَ كُفْرٌ بِاللَّهِ وَخُرُوجٌ عَنْ مِلَلٍ جَمِيعِ رُسُلِ اللَّهِ وَقَدْ فُتِنَ بِهَا بَعْضُ صُوفِيَةِ الْمُسْلِمِينَ ))

فلسفہ وحدت الشہود کو عام طور پر لوگ ’’فنافی اللہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ بندہ اپنی ذات کے شہود کو فراموش کر دے اور اپنے عزم و احساس سے غافل ہو جائے ، اور یہ سمجھنے لگ جائے کہ وہ صفات الٰہیہ میں سے کسی ایک صفت کا مظہر ہے، اور اس کے اسماء میں سے کسی اسم کی جلوہ گاہ ہے اور امرالہیٰ کے سامنے بالکل بے بسی کا اظہار کرے۔

اور جب کئی ابتدائی منازل اور مشکل ترین مراحل طے کرنے کے بعد کسی شخص کو یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے تو وہ دائگی اور استقلالی نہیں ہوتا بلکہ یہ سعادت کبھی کبھی اور گاہے گاہے ایک آدھ لمحہ کے لیے حاصل ہوتی ہے، اس مرتبہ کو ”وحدت الشہود‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

جو کہ ایک باطل مادی نظریہ ہے، جسے ہندو برہمنوں اور بدھ مت کے جوگیوں کے تخیلات سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس عقیدہ کو اپنانے اور اختیار کرنے کے بعد انسان کا فر اور جمیع انبیاء ورسل کی ملل و ادیان سے خارج ہو جاتا ہے، اور نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے صوفی منش لوگ بھی اس فتنہ کی زد میں آگئے ۔

آج بھی علی ہجویریؒ کے دربار کے مین گیٹ (Main Gate) پر مرقوم ہے:

گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
مذکورہ بالا شعراسی فلسفہ کے کسی دلدادہ کا کہا ہوا ہے۔

تاریخ فلسفہ وحدة الشہود:

کہا جاتا ہے کہ یہ نظریہ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کے مقابلہ میں شیخ علاء الدولہ سمنانی المتوفی سنہ ۷۳۶ھ نے ایجاد کیا اور برصغیر پاک و ہند میں مجددالف ثانی سرہندی نے اسے اوج کمال تک پہنچایا، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ فلسفہ ابتداء ہی سے تصوف کے ہر سلسلہ میں موجود رہا ہے۔ ابو اسماعیل ہردی (المتوفی سنہ ۲۸۱ ھ ) اس کے مبلغ اعظم ہیں اور علی ہجویری (المتوفی سنہ ۴۶۵ ) بھی اسی عقیدہ کے حامل ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’کشف المحجوب“ میں بایزید بسطامی کا ایک قول نقل کرتے ہیں، جو شطحیات کی قبیل سے ہے۔ بایزید بسطامی کہتے ہیں:

((سُبْحَانِى مَا أَعْظَمُ شَأْنِي.))

’’میں پاک ہوں، میری عظمت کے کیا کہنے ۔“

در حقیقت ان نظریات ثلاثہ ( وحدت الوجود، شہود اور حلول ) کے ایجاد کی غرض صرف یہ تھی کہ خالق و مخلوق، عابد و معبود کا وہ فرق باقی نہ رہے، جو ذوق خدائی کی راہ میں سب سے
بڑی رکاوٹ ہے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ :

وحدت الشہود کے حاملین اپنے شرکیہ عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث قدسی پیش کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

(( وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَى بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبُّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كنتُ سَمُعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدُهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجُلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِن اسْتَعَاذَنِي لَا عِيدَنَّهُ ))
صحیح بخاری، کتاب الرفاق، باب التواضع، رقم: ٦٠٠٢۔

’’اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں، پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کا پاؤں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں۔“

ازالہ:

➊ اس حدیث پاک کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ بندہ عین اللہ ہو جاتا ہے جیسا کہ معاذ اللہ ان لوگوں کا کہنا ، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ میری عبادت میں غرق ہو جاتا ہے اور مرتبہ محبوبیت پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے حواس ظاہری و باطنی سب شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں وہ ہاتھ ، پاؤں، کان اور آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں میری مرضی ہے۔ خلاف شرع اس سے کوئی کام سرزد نہیں ہوتا۔ چنانچہ ابن دقیق العيد ’’شرح اربعین نو وی ، ص : ۴۶‘‘ میں کہتے ہیں:

’’ یہ اس کی ولایت کی علامت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس کو نہیں سنتا، جس کے سننے کی شریعت اسلامیہ اجازت نہیں دیتی ، اور خلاف شرع کسی چیز کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے اور نہ ہی اس کام کی طرف چلتا ہے جس کے کرنے کی شرعی اجازت نہیں دیتی ۔‘‘ انتہی

’’اور یہ عام استعمال ہے کہ فلاں حاکم کی زبان ہے، یعنی حاکم اس کے مشورہ کے بغیر بات نہیں کرتا ہے، وہی کہتا ہے جو فلاں کہتا ہے ۔‘‘
توحید خالص، از بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ص : ۳۵۹۔

➋ ’’یا یہ فرمان علی سبیل التمثیل ہے، یعنی میں اس طرح اس کا سمع و بصر ہوتا ہوں کہ وہ میری اطاعت و خدمت کو ایسا ہی محبوب سمجھتا ہے، جیسا کہ اپنے ان اعضاء کان، آنکھ وغیرہ کو۔ “
حواله أيضاً.

➌ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ میں اس کے ہر مقصد کو اس طرح فوری طور پر پورا کرتا ہوں، جیسا کہ اپنے ان اعضاء سے مقصد لے رہا ہے کیونکہ اس کا ایسا کوئی مقصد نہ ہوگا، جس میں رضاء الہیٰ نہ ہو ۔ یہ تفسیر خود اس حدیث میں ہے کہ؛

((لَئِن سَأَلَنِي لأُعْطِيَنَّهُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَا عِيدَنَّهُ .))

’’اگر اس نے مجھ سے مانگا میں ضرور دوں گا۔ اگر اس نے پناہ طلب کی تو اپنی حفاظت میں لے لوں گا۔‘‘

کیونکہ ویسے بھی تو ہر ایک سائل کو سوال ملتا ہے اور ہر ایک پناہ مانگنے والے کو پناہ ملتی ہے، مگر جو اللہ کے مقرب بندے ہیں، ان کی دعا اور استعاذہ اور مقام رکھتے ہیں، ان تین جوابوں کو امام ابن الجوزی نے بھی ’’دفع شبهة اللتشبيه، ص: ۷۳“ میں ذکر کیا ہے۔

➍ صحابہ کرامؓ، خلفائے راشدینؓ ، اہل بیتؓ اور سوا چودہ سو سال میں شہادت پانے والے لاکھوں سارے کے سارے اولیاء اللہ ہیں اور اگر اولیا ئے کرام کے اجسام اور اعضائے جسمانی اللہ بن جائیں تو اللہ کی ذات کے اتنے حصے اور ٹکڑے ہو جا ئیں کہ ان کا شمار کرنا بھی مشکل ہو جائے ، لہذا یہ نظر یہ باطل و مردود ہے۔

➎ سیدنا موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام جب کوہ طور پر جانے لگے تو اپنا نائب سیدنا ہارونؑ کو مقرر کر دیا، لیکن بنی اسرائیل، سیدنا ہارونؑ کے منع کرنے کے باوجود شرک کرنے لگے، یعنی بچھڑے کے ارد گرد جمع ہو گئے اور اس کی عبادت میں مشغول ہو گئے اور جب موسیٰؑ واپس تشریف لائے تو اپنے بھائی ہارونؑ اور دیگر مومنوں سے کہا کہ تم لوگوں نے میری بڑی بری نیابت کی ہے، چالیس دن تک بھی راہ راست پر قائم نہیں رہ سکے اور بت پرستی شروع کر دی۔ اور اللہ اور اس کے دین کی خاطر فرط غضب میں تختیوں کو زمین پر پٹخ دیا۔ کہتے ہیں کہ وہ تختیاں پتھر کی تھیں ، ٹوٹ گئیں۔ انھوں نے سمجھا کہ ہارونؑ سے تقصیر ہوئی ہے، اسی لیے ان کے سر کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے۔

قارئین کرام! اگر اولیاء کرام کے اعضاء کو الٰہ تسلیم کیا جائے تو اس واقعہ میں الٰہ کا الٰہ پر ناراض ہونا، الہ کا الہ کو پکڑنا اور اللہ کا اللہ کو سزا دینا لازم آئے گا اور یہ استلزام قطعی طور سے مردود اور باطل ہے۔
حوالہ ایضًا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے