حديث قسطنطنیہ اور یزید
تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

حديث قسطنطنیہ اور یزید

ہفت روزہ ”الاعتصام‘‘ ج ۴۹ شماره ۳۱،۳۲ (اگست ۱۹۹۷ء) میں محترم پروفیسر محمد شریف شاکر صاحب کا ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا ہے جس میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا یزید بھی شامل تھا۔ ادھر ادھر کے اقوال نقل کرنے کے علاوہ وہ اپنے دعوی پر ایک بھی صحیح یا حسن روایت پیش نہیں کر سکے ہیں، جس میں اول جیش میں یزید کی موجودگی کی صراحت ہو۔
تاریخ حدیث اور جال سے ثابت ہے کہ مدین قصر ، عطیہ پر عہد صحابہؓ میں کئی حملے ہوئے ہیں جبکہ صحیح بخاری کی صحیح حدیث میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ
ا۔ ان تمام حملوں میں یزید بن معاویہ شریک تھا۔
ب۔ ان تمام حملوں میں سے پہلے حملہ میں یزید شریک تھا۔
لہذا ان لوگوں کے لئے صحیح بخاری سے استدلال صحیح نہیں ہے جن کا دعوی یہ ہے کہ : قسطنطنیہ پر جو حملہ ہوا تھا اس میں یزید بن معاویہ شامل تھا۔

سنن ابی داؤد کی ایک حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت (پورے لشکر) کے امیر عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھے۔ چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لئے زبردست رکاوٹ ہے جو ضرور بالضرور یزید کا بخشا ہوا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اس روایت کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
ابوداؤد کے سوا کسی کتاب میں عبدالرحمن کے قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والی فوج کے قائد ہونے کا ذکر نہیں۔
(الاعتصام نمبر ۳۲ ص ۱۳)

حالانکہ درج ذیل کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔

ا۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن المعروف بتفسیر الطبری
(ج ۲ ص ۱۱۹،۱۱۸)

ب۔ تفسیر ابن ابی حاتم الرازی
(ج اص۳۳۰، ۳۳۱)

اس روایت میں ابن وھب نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔

حافظ ابن حجر کی تحقیق یہ ہے کہ ابن وھب مدلس نہیں تھے
دیکھئے النکت علی ابن الصلاح ج ۲ ص ۶۳۷

ابن وھب کی سند کی متابعت بھی موجود ہے۔

حافظ ابن عسا کرنے کہا :
’’أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني بقرأتي عليه قال: ثنا عبدالعزيز بن أحمد : أنبأ أبو محمد بن أبي نصر : أنبأ ابو القاسم بن ابي العقب : أنا أحمد بن إبراهيم القرشي ثنا ابن عائذ : ثنا الوليد : ثنا عبد الله بن لهيعة والليث بن سعد عن يزيد عن أبي عمران التجيبى قال: غزونا القسطنطنية وعلى أهل مصر عقبة بن عامر الجهني وعلى الجماعة عبد الرحمن بن خالد بن الوليد “
(تاریخ دمشق مصور ج ۹ ص ۹۲۹)
اس سند میں لیث بن سعد صحاح ستہ کے مرکزی راوی اور ” ثقة ثبت فقیه امام مشهور “ تھے
(تقریب ص ۸۱۷)

لیث بن سعد نے ابن وھب کے استاد حیوہ بن شریح کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔ والحمد للہ، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داؤد کی اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔ اس وجہ سے امام حاکم اور ذھبی نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ اگر شرط سے مراد یہ لی جائے کہ اس سند کے تمام راوی بخاری و مسلم کے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ بات وہم ہے کیونکہ مسلم صحیح بخاری یا مسلم کا راوی نہیں ہے اور اگر یہ مراد لی جائے کہ اس کے راوی بخاری و مسلم کے راویوں کی طرح ثقہ ہیں، سند متصل ہے اور شاذ یا معلول نہیں تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ مستدرک کے مطالعہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام حاکم صحیح بخاری ومسلم کے راویوں یا ان جیسے ثقہ راویوں کی غیر معلول روایت کو صحیح عـلـى شــرط الشيخين أو على أحدهما کہہ دیتے ہیں اور حافظ ذھبی ان کی موافقت کرتے ہیں امام حاکم فرماتے ہیں : وأنا أستعين الله على اخراج أحاديث رواتها ثقات قد احتج بمثلها الشيخان رضى الله عنهما أو أحدهما (المستدرک ج ۱ص۳)
یعنی: میں اللہ کی مدد مانگتا ہوں ان احادیث کی روایت کے لئے جن کے راوی ثقہ ہیں۔ بخاری و مسلم یا صرف بخاری یا صرف مسلم نے ان راویوں جیسے رایوں سے حجت پکڑی ہے۔ اس عبارت سے بھی دوسری بات کی تائید ہوتی ہے اور یہی راجح ہے۔ لہذا علی شرط الشیخین وغیرہ عبارات سے بعض محققین عصر کا امام حاکم و ذھبی کے بارے میں پروپیگنڈا کرنا صحیح نہیں ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ العزیز ، یادر ہے کہ اوھام اس سے مستثنی ہیں۔

اس عبارت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:
۱۔ ابوداؤد شریف کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں یہ روایت با سند موجود نہیں ہے۔ یہی مطلب واضح ہے۔ مگر پروفیسر صاحب نے اس سے انکار کر دیا ہے۔

۲۔ احکام القرآن للجصاص
(جاص ۳۲۶، ۳۲۷)

۳۔ مستدرک الحاکم
(ج ۲ ص ۸۵،۸۴)
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اس لشکر میں مصریوں کے امیر سیدنا عقبہ بن عامر، شامیوں کے امیر سیدنا افضالہ بن عبید تھے۔ پورے لشکر کے امیر سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھے۔

سنن ابی داؤد کی ایک دوسری روایت ( کتاب الجہاد، باب ۱۲۹ فی قتل الاسیر بالنبل حدیث: ۲۶۸۷) سے بھی عبدالرحمن مذکور اور سیدنا ابو ایوب کامل کر جہاد کرنا ثابت ہوتا ہے۔

سنن ترمذی کی روایت میں وعلى الجماعة فضالة بن عبید کے جو الفاظ آگئے ہیں، ان کا وہم ہونا کئی وجوہ سے ثابت ہے

۴۔ حیوہ بن شریح کے تمام شاگرد میں ” وعلى أهل الشام فضالة بن عبید “ کے الفاظ روایت کر رہے ہیں۔

ب۔ ابو داؤد کی مذکورہ سند کے علاوہ دوسری کسی سند کے ساتھ یہ روایت کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ یہ تاویل انتہائی بعید ہے۔ لیکن تاریخ دمشق کی سند مذکورہ سے اس کا بطلان بھی ظاہر ہے۔ پروفیسر صاحب نے الزامی طور پر راقم الحروف کی ایک عبارت ’’یہ الفاظ سنن ترمذی کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں‘‘ پر اعتراض کیا ہے۔اور تفسیر قرطبی محاسن التاویل تغیر الخازن ، غرائب القرآن اور احکام القرآن کے حوالے پیش کئے ہیں۔ حالانکہ یہ اعتراض کئی لحاظ سے باطل ہے۔

میری عبارت کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت سند کے ساتھ دوسری کسی کتاب میں نہیں محترم پروفیسر صاحب اس دعوی کو توڑ نہیں سکے ہیں۔
(تفسیر قرطبی ج ۲ ص ۳۶۱، تفسیر خازن ج ۱ص ۱۳۲، احکام القرآن ج اص ۱۱۵

میں یہ روایت ترمذی کے حوالہ کے ساتھ موجود ہے۔
غرائب القرآن (ج۱ص۲۳۴)

میں یہی روایت بلا سند مذکور ہے۔ قاسمی کی تفسیر محاسن التاویل فی الحال میرے پاس نہیں ہے (بعد میں یہ تفسیر بھی حاصل ہوگئی ہے والحمد للہ) ان ساری کتابوں میں یہ روایت بلا سند اور بحواله ترمذی یا منقول از ترمذی موجود ہے لہذا یہ سارے حوالے بے کار ہیں، میرا مطلب اور ہے اور پروفیسر صاحب کی تاویل اور ہے۔ والعلم عند اللہ

اگر یہ ہزار کتابوں میں بھی ترمذی کے حوالے یا نقل کے ساتھ موجود ہو تو اعتراض پھر بھی قائم ہے۔ پروفیسر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ ترمذی کے علاوہ کوئی دوسری سند پیش کریں۔

حیوہ بن شریح کے سارے شاگرد اہل مصر کا امیر عقبہ بن عامر کو قرار دیتے ہیں۔ اور یہی بات لیث بن سعد وابن لھیعہ کی روایت عن یزید بن ابی حبیب میں ہے۔ کما نقدم ۔ لہذا یہ بات اجماعی ہے۔

حیوہ کے دونوں شاگرد عبداللہ بن یزید المقرمی اور عبداللہ بن المبارک بالاتفاق یہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام امیر فضالہ بن عبید تھے۔ یہی بات لیث بن سعد وابن لھیعہ کی روایت میں ہے۔ پروفیسر صاحب کا ابوعبدالرحمن المقرئی پر جرح کرنا شعبدہ بازی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

شیخ الاسلام ابن المبارک کی متابعت (السنن الکبری للنسائی ج ۶ ص ۲۹۹ ح ۱۱۰۲۹، تفسیر النسائی ج ۱ص ۲۳۸ ح ۴۹) کی وجہ سے المقری کے دفاع کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں ہے۔

یہ الفاظ سنن ترمذی کے علاوہ دوسری کسی کتاب میں نہیں ہیں۔

محققین نے ترمذی کی روایت کے وہم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلا
تفسیر نسائی (ج ۱ص۲۳۹)

وعلى الجماعة فضالة بن عبيد والصواب أنه على أهل الشام كما في باقي الروايات ، أما على الجماعة فكان عبد الرحمن بن خالد بن الوليد

جناب خلیل احمد سہارنپوری انبیٹھوی دیوبندی لکھتے ہیں:
فظهر بهذه الروايات أن عبد الرحمن بن خالد كان أمير أعلى الجميع
یعنی ان روایات سے ظاہر ہوا کہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد تمام لشکر پر امیر تھے۔
(بذل المجهودج ۱ص ۴۳۵)

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔

حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :
سیدنا معاویہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی
(البدایہ والنہایہ، ج ۸ ص ۱۳۳)

ایک لشکر سردیوں میں(شواتی) اور دوسرا گرمیوں میں (صوائف) حملہ آور ہوتا
(ایضا ص ۱۲۷)

ان لشکروں میں الصائفہ (اپریل ۱۲۷ء تا نمبر ۶۷۲) کا سالار یزید تھا۔
دیکھئے خلافت معاویہ و یزید ص ۴۳۵ و عام کتب تاریخ۔

لیث بن سعد اور ابن لھیعہ کی روایت میں بھی اہل شام کا امیر فضالہ بن عبید کو قرار دیا گیا ہے۔ الضحاک بن مخلد کے شاگردوں میں اختلاف ہے۔ عبد بن حمید کی روایت میں ” وعلی الجماعة فضالة بن عبید “ کے الفاظ ہیں (ترمذی) عمرو بن الضحاک اور عبیداللہ بن سعید کی روایتوں میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ الضحاک بن مخلد کی روایت ابن المبارک وغیرہ کی مخالفت اور اپنے شاگردوں کے اختلاف کی وجہ سے شاذ ومردود ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتی تو اس کا مطلب یہ تھا کہ قسطنطنیہ پر بہت سے حملے ہوئے ہیں۔ بعض میں امیر لشکر عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھے بعض میں فضالہ بن عبید اور بعض میں یزید بن معاویہ اور کوئی اور وغیرہ ، لہذا ترمذی کی روایت سے بھی پروفیسر صاحب کا یہ دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قسطنطنیہ پر صرف اور صرف ایک ہی حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں یزید بھی موجود تھا۔

محققین سے مراد سید الحلیمی اور صبری الشافعی ہیں۔ یہ وہی محققین ہیں جن کا حوالہ پروفیسر محمد شریف صاحب نے دیا ہے ہفت روزہ اھلحدیث لا ہورج ۲۹،شمارہ نمبر ۹اص، کالم نمبر اور آگے جا کر اس صفحہ پر کالم نمبر پر لکھتے ہیں حافظ زبیر صاحب نے جو تفسیر نسائی کے حاشیہ کا حوالہ دیا، یہ ایک مبہم حوالہ ہے محشی کون ہے؟ اس نے یہ الفاظ کہاں سے لئے ؟ سبحان اللہ

بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔ یہ حملہ ۳۲ھ مطابق ۶۵۳-۶۵۲ء میں ہوا تھا۔
دیکھئے تاریخ طبری (ج۴ ص ۳۰۴) العبر للذہبی ( ج اص المنتظم لابن الجوزی ( ج ۵ ص ۱۹ ۱۹۹۲ء) البدایہ والنہایہ (ج 2 ص ۱۵۹، ج ۸ ص ۱۲۶) تاریخ الاسلام للذہبی، وغیرہ۔

اس وقت یزید کی عمر تقریبا چھ سال تھی۔
دیکھئے تقریب التہذیب وغیرہ۔

صرف اس ایک دلیل سے ہی روز روشن کی طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’ اول جیش “ والی روایت یزید پر فٹ کرنا صیح نہیں ہے۔

تنبیہ :

یزید بن معاویہ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
واسـتـعـمـل معاوية سفيان بن عوف على الصوائف وكان يعظمه
(الاصابة ج۲ص۵۶)
اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ محمد الحفیری کی ’’محاضرات الامم الاسلامیہ‘‘ میں ہے کہ :
’’وفی ۵۴۸ جهز معاوية جيشاً عظيما لفتح قسطنطنية وكان على الجيش سفیان بن عوف “
میں معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔

تنبیہ :

محاضرات کا حوالہ، ایک دوسری کتاب سے لیا گیا ہے۔

خلاصة التحقيق:

يزيد بن معاویہ کے بارے میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں۔
➊ قسطنطنیہ پر پہلے حملہ آور لشکر میں اس کا موجود ہونا ثابت نہیں۔
➋ یزید کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے ، حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے۔

یہ حمله قسطنطنیہ پر مضیق القسطنطنیہ کی طرف سے ہوا تھا، یہ مقام اس شہر کے قریب ہے حافظ ذھبی لکھتے ہیں:
فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطنية و أمير ها معاوية

اس سند میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہ تھے لہذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔
(تاريخ الاسلام للذھمی، عبد الخلفاء الراشدین ص ۳۷۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!