عاشوراء کے احکام ومسائل: عاشوراء کے روزے کی فضلیت
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ.
ترجمہ
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاشوراء کا روزہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا ۔
سنن ابن ماجہ حدیث (1738)
عن أبي هريرة: سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال ” أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ .
ترجمہ
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔
مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •
اسی طرح
[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا.
ترجمہ
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔
(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣)
عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. رواه رزين
ترجمہ
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا.
(مسند رزین)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ.
ترجمہ
عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوا عاشوراءکے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کرکے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
جوآدمی چاہے وہ روزہ رکھے یہ نفلی روزہ بن گیا تھا پہلے یہ فرض تھا
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يَصُومُهُ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صَوْمَهُ.
ترجمہ
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی یہ روزہ رکھنے کاحکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ ترک کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ یہ روزہ نہیں رکھتے تھے
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَوْمَ عَاشُورَاءَ إِنْ شَاءَ صَامَ .
ترجمہ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عاشورہ کے دن اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھ لے۔
صحیح بخاری حدیث (2000)
حَدَّثَنِی یَحْیَی، عَنْ مَالِکٍ، عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ﷺ ، أَ نَّہَا قَالَتْ : کَانَ یَوْمُ عَاشُورَائَ یَوْماً تَصُومُہُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ یَصُومُہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ الْمَدِینَۃَ صَامَہُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ کَانَ ہُوَ الْفَرِیضَۃَ، وَتُرِکَ یَوْمُ عَاشُورَائَ، فَمَنْ شَائَ صَامَہُ، وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ پیغمبر ﷺ سے روایت ہے ، کہتی ہیں کہ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کے دن قریش مکہ بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی زمانۂ جاہلیت میں ( نبوت سے پہلے ) یہ روزہ رکھا کرتے تھے ، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ( یہاں بھی ) آپ ﷺ نے یہ روزہ رکھا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ، پھر جب رمضان فرض کر دیا گیا تو صرف وہی فرض ٹھہرا اور یوم عاشور ( کی فرضیت ) کو ترک کر دیا گیا ، پھر جو چاہتا اس کا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا اسے چھوڑ دیتا۔
مؤطا حدیث (611)
تنبیہ
لہذا ثابت ہؤا کہ یہ نفلی روزہ ھے جو چاہیں رکھ لے جو چاہیں چھوڑ دے
عاشورا ء کے روزے رکھنے کی وجہ
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ قَالُوا : هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ ، فَصَامَهُ مُوسَى ، قَالَ : فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ .
ترجمہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ ( دوسرے سال ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن ( فرعون ) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے ( شریک مسرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔
صحیح بخاری حدیث (2004)
یوم عاشورا ء کا روزہ رکھنا کیسا ھے اور کیا دس محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی ضروری ھے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ عَاشُورَاءَ، وَيَأْمُرُ بِصِيَامِهِ .
ترجمہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء ( محرم کی دسویں تاریخ ) کا روزہ رکھتے، اور اس کے رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ حدیث (1733)
نوٹ سلف وخلف کے جمہورعلماء اس بات کے قائل ھیں عاشورا ء سے محرم الحرام کی دسویں تاریخ مراد ہے۔
وَعَن ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: حِينَ صَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ يُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لأصومن التَّاسِع» .
رَوَاهُ مُسلم
ترجمہ
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو وہ دن ہے کہ یہود و نصاریٰ اس کی تعظیم کرتے ہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں نویں (محرم) کا (بھی) روزہ رکھوں گا ۔‘‘
رَوَاهُ مُسلم
إن عشت إن شاء الله إلى قابل صمت التاسع مخافة ان يفوتني يوم عاشوراء”.-” إن عشت إن شاء الله إلى قابل صمت التاسع مخافة أن يفوتني يوم عاشوراء
ترجمہ
سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، تاکہ یوم عاشورا کا روزہ فوت ہو جانے کا خطرہ (ختم ہو جائے)۔“
معجم الکبیر للطبرانی حدیث (10664) صحیح
إن عشت إن شاء الله إلى قابل صمت التاسع مخافة أن يفوتني يوم عاشوراء
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة” 1 / 619
أخرجه الطبراني في ” المعجم الكبير ” ( 3 / 99 / 2)
من طريقين عن أحمد بن يونس أنبأنا ابن أبي ذئب عن القاسم بن عباس عن عبد الله بن عمير عن ابن عباس مرفوعا .
قلت : و هذا سند صحيح رجاله كلهم ثقات
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ ، لَعَلَّهُ قَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ، لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ "، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ عَاشُورَاءَ.
ترجمہ
ابو بکر بن ابی شیبہ ، ابو کریب ، وکیع ، ابن ابی ذئب ، قاسم بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمیر ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں آنے والے سال تک زندہ رہا تو میں نویں تاریخ کا بھی ضرور روزہ رکھوں گا اور ابو بکر کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا عاشورہ کے دن کا روزہ۔
صحیح مسلم حدیث (2667)-(1134) معجم الکبیر للطبرانی حدیث (10132)
تنبیہ
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: ” إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، قَالَ: نَعَمْ
ترجمہ
ابو بکر بن ابی شیبہ ، وکیع بن جراح ، حاجب ابن عمر ، حضرت حکم بن اعرج سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس گیا اس حال میں کہ وہ زم زم ( کے قریب ) اپنی چادر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے عاشورے کے روزے کے بارے میں خبر دیجئے انہوں نے فرمایا کہ جب تو محرم کا چانددیکھے تو گنتا رہ اور نویں تاریخ کے دن کی صبح روزے کی حالت میں کر ۔ میں نے عرض کیا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح روزہ رکھتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں۔
صحیح مسلم حدیث (2664)-(1133)
نوٹ
اگر کوئی کہے کیا اس کا یہ مطلب ھے کہ دس محرم کو روزہ نہیں ہوگا ؟تو عرض ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ
وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ : عَلِیُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدَانَ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَیْدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ (ح) وَأَخْبَرَنَا أَبُوالْحَسَنِ: عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُقْرِئُ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ الْقَاضِی حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِیعِ حَدَّثَنَا ہُشَیْمٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِی لَیْلَی عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ-: ((صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَائَ وَخَالِفُوا فِیہِ الْیَہُودَ، صُومُوا قَبْلَہُ یَوْمًا أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا))۔ ہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ الْمُقْرِئِ ، وَفِی رِوَایَۃِ ابْنِ عَبْدَانَ : ((صُومُوا قَبْلَہُ یَوْمًا وَبَعْدَہُ یَوْمًا))۔
ترجمہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یوم عاشورہ کے روزے رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ ان سے پہلے ایک دن روزہ رکھو یا ایک دن اس کے بعد۔ (ابن عبدان کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دن سے پہلے روزہ رکھے یا اس کے بعد ایک دن۔ )
سنن الکبری للبیہقی حدیث (8409)مسند البزار حدیث (1052) صحیح ابن خزیمہ حدیث(2095)
اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔
حافظ لابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی حسن کہا ہے۔
انظر الاتحاف المھرۃ لابن حجر حدیث (2225)حسن
مَا أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی عَطَاء ٌ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَہُودَ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی یَزِیدَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَذَلِکَ مَوْقُوفًا۔
[صحیح۔ اخرجہ عبدالرزاق]
عطاء بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ کہتے تھے نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھو یہودیوں کی مخالفت کرو۔
مصنف عبدالرزاق حدیث ٨٤٠٤
مَا أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ اللَّہِ بْنُ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بِبَغْدَادَ أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی عَطَاء ٌ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَہُودَ۔ وَرَوَاہُ أَیْضًا عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ أَبِی یَزِیدَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَذَلِکَ مَوْقُوفًا۔
[صحیح۔ اخرجہ عبدالرزاق]
(٨٤٠٤) عطاء بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ وہ کہتے تھے نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھو یہودیوں کی مخالفت کرو۔
سنن الکبری للبیہقی حدیث (8488)-سنن الماثورۃ للشافعی حدیث (337) مصنف عبدالرزاق حدیث (7839)
اور یہ ظاہر ھے کہ راوی اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ھے حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی 773ھجری 852ھجری نے اسے بعض لوگوں کے قاعدے کے بطور الزام ذکر کیا ہے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری حدیث (2111)
اہم نکات
➊رسول صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم پہلے دس محرم کا روزہ رکھتے تھے جب پتہ چلا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ھیں تو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کہا اگلے سال زندہ رہا تو میں نو محرم کا بہی روزہ رکھوں گا۔
➋کسی صحابی یا تابعی یا محدثین سے قطعاً صحیح یا حسن سند کے ساتھ ثابت نہیں ھے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے نو کا نہ رکھا جائے اگر کسی صاحب علم کے پاس کوئی روایت صحیح یا حسن سند کے ساتھ ھے تو پیش کرے قیامت کی صبح تک کا چیلنج ھے۔
➌معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر نبوی پر کھڑے ہو کر مخاطب کیا تھا کہ ھم دس کا روزہ رکھے گئے کسی صحابی نے یہ نہیں کہا تھا کہ دس کا روزہ منسوخ ہوگیا ہے یا صرف ہم نو کا روزہ رکھیں گئے گویا کہ اجماع ہوگیا تھا نو -اور دس کا روزہ رکھنا جائز ہے اور اسی کا حکم رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روز روشن کی طرح ثابت ہے۔
علماء محققین نے کہا ہے کہ راجع موقف یہی ہے کہ دس کے ساتھ نو کا روزہ رکھا جائے اگر نو کا روزہ نہ رکھ سکے تو مخالفت یہود کے پیش نظر گیارہ کا بھی روزہ ان شاءاللہ مقبول عنداللہ ھوگا۔
موسوعۃ الحدیثہ مسند احمد جلد( 4)صفحہ نمبر(52)
تنبیہ
اگر کوئی اس بات پر بضد ھے کہ صرف نو کا ہی روزہ رکھا جائے تو اس کو کہا جائے ایک صحیح حدیث یا صحیح صحابی کا اثر یا کسی ثقہ تابعی کا ایک قول پیش کریں جس میں یہ ہو کہ صرف نو کا روزہ رکھا جائے دس کا روزہ رکھنا جائز نہیں ھے کوئی بھی صحیح سند کے ساتھ حدیث یا صحابی یا ثقہ تابعی کا قول پیش نہیں کرسکتا۔
خلاصہ تحقیق
نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے تمام ثقہ محدثین سے نو محرم الحرام کا اور دس اور گیارہ محرم الحرام کا روزے رکھنا ثابت ہے۔ واللہ أعلم
اللہ تعالیٰ ھم سب کو قرآن وحدیث کے مطابق ژندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب العالمین