وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: ” لا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ، وَلكنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفرِتُمْ فانْفِرُوا” مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَمَعْنَاهُ: لا هِجْرَةَ مِنْ مَكَّةَ لأَنَّهَا صَارَتْ دَارَ إِسْلامٍ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتح مکہ کے ”بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمہیں دشمن کے ساتھ قتال کرنے کے لیے نکلنے کے لیے کہا جائے تو پھر نکل کھڑے ہو۔“
متفق عليه
اس کا معنی ہے کہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ وہ دارالاسلام بن گیا ہے۔
توثيق الحديث:
[ أخرجه البخارى 226/7 – فتح ، ومسلم 1864 ، واللفظ له ، وفى الباب عن ابن عباس عند البخاري 3/6- فتح]
غريب الحدیث:
الفتح: فتح مکہ –
نية: اس سے مراد اللہ تعالی کے لیے اخلاص عمل ہے۔
استنفرتم: ” جب امام تم سے دشمن سے مقابلے کے لیے خروج کا مطالبہ کرے۔“
فقه الحديث:
➊ مکہ سے مدینہ ہجرت کے وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا، کیونکہ مکہ دارالاسلام بن گیا۔ مکہ کی طرح دیگر شہروں کا بھی یہی حکم ہے، جب مسلمان انہیں فتح کرلیں۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کہ مکہ ہمیشہ کے لیے دارالاسلام رہے گا۔
➌ جب تک دنیا میں دارالکفر اور دارالاسلام قائم ہیں ہجرت کا حکم منسوخ نہیں ہوگا، پس جو شخص دارالکفر میں ہوا اور وہ دارالاسلام کی طرف ہجرت کی استطاعت رکھتا ہو تو اس پر ہجرت کرنا فرض ہے۔ رہے وہ لوگ جو ضعیف و ناتواں ہیں خواہ مرد ہوں، عورتیں ہوں یا بچے، جو ہجرت کرنے کی استطاعت یا راستہ نہیں پاتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لیے بھی کوئی راہ نکال دے گا۔
➍ ہجرت کے ہونے سے جو خیر منقطع ہوگئی ممکن ہے وہ خیر جہاد اور نیت صالحہ سے حاصل ہو جائے۔
➎ جب امام جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے تو پھر جہاد کے لیے نکلنا واجب ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام اور امیر کی زیر امارت ہو۔
➏ اعمال کا اعتبار نیتوں کے ساتھ ہے۔
➐ جہاد کا قصد کرنا دل میں ارادہ کرنا اور اس کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔