ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
سوال
ایک لڑکی کسی مشکل میں ایک جاننے والے سے مدد حاصل کرتی ہے اور وہ شخص اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس لڑکی کو ڈرا دھمکا کر اس سے نکاح کر لیتا ہے۔ لڑکی نہ تو اس کی فیملی سے ہے نہ ہی علاقہ سے۔ دولت حسن اور تعلیم میں بھی لڑکی لڑکے سے افضل ہے۔ نکاح کے دوران لڑکی کے خاندان میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ لڑکا پہلے سے شادی شدہ بھی ہے۔ لڑکی نکاح سے انکار کرتی ہے تو لڑکا اسے خاندان میں بے عزت کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکی وغیرہ دیتا ہے۔ اس موقع پرلڑکی کو اپنے گھر اور علاقہ کا اتنا پتہ معلوم نہیں اور وہ مکمل لڑکے کے کنٹرول میں ہے۔ وہ لڑکا اسے ایک ہی صورت میں گھر چھوڑ کے آنے پر راضی ہے : جب وہ نکاح کے لئے ہاں کرتی ہے۔ لڑکی کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی نکاح کیا گیا اور وہ دل اور دماغ سے بھی اس نکاح کو نہیں مانتی۔ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں کہ مندرجہ بالا صورت میں زبر دستی کیا گیا نکاح جائز ہے یا نا جائز۔
الجواب
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
جو عورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔
(السنن الکبری للہیتی ۷ ۱۰۵، وسنده حسن والحدیث صحیح سنن ابی داود :۲۰۸۳ سنن الترمذی:۱۱۰۲، وقال: "هذا حدیث حسن صحیح ابن حبان : ۴۰۴۲، وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین ۲/ ۱۶۸)
اس روایت کے بہت سے شواہد بھی ہیں، بلکہ علامہ سیوطی نے اسے متواتر قرار دیا ہے۔
(دیکھئے قطف الازھار : ۸۷)
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا :
لا نكاح إلا بولي مرشد أو سلطان
خیر خواه و لی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
(الاوسط لابن المسند (۲۶۴/۸ ۷۱۸۳ وسندہ حسن)
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد وغیر ہم کا یہی قول ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
(دیکھئے سنن الترمذی : ۱۱۰۲)
لہذا ثابت ہوا کہ صورت مسئولہ میں اس لڑکی کا نکاح نہیں ہوا۔
(۲۴ / مارچ ۲۰۱۳ء)