قسطوں کا مروجہ کاروبار شریعت کی نظر میں
تحریر:ابوالحسن مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ

قسطوں کا کاروبار شریعت کی نظر میں

حرام امور کی مذمت

سید نا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه أمن الحلال أم من الحرام ؟ ))

لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو جو چیز بھی مل جائے ، وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ نہ دیکھے گا کہ وہ حلال ہے یا حرام ؟ [ یعنی حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجائے گی ۔ ]

(صحیح بخاری: ۲۰۵۹)

دوسری حدیث میں ہے:

(( بادروا بالأعمال فتناً كقطع الليل المظلم ، يصبح الرجل مؤمناً و يمسي كافرًا ، أو يمسي مؤمناً ويصبح كافرًا، يبيع دينه بعرض من الدنيا . ))

ان فتنوں کے پیش آنے سے پہلے (نیک) اعمال میں جلدی کرو جو تاریک رات کی ٹکڑیوں کی مانند ہوں گے (کہ اس وقت) آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو جائے گا ( اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ) وہ اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کی خاطر بیچ ڈالے گا۔

(صحیح مسلم: ۱۱۸، دار السلام:۳۱۳)

نیز حرام کھانے والے کے لئے سخت وعید بھی بیان فرمائی:

(( لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت ، النار أولى به . ))

وہ گوشت جس نے حرام سے پرورش پائی ، جنت میں داخل نہیں ہوگا ( اور جس گوشت نے حرام سے نشو نما پائی ہو) اس کے لئے جہنم کی آگ ہی اولیٰ ہے۔

(احمد۳ ۲۹۹،۳۲۷ ، وھوحدیث حسن، الموسوعة الحديثية ۳۳۲/۲۲، وصحه ابن حبان، الموارد: ۱۵۶۹، والی کم ۴ ۴۲۲٫ و وافقه الذہبی)

تنبیہ:

عبدالرحمٰن بن سابط کا سیدنا جابرؓ سے سماع ثابت ہے، دیکھئے

الجرح والتعدیل (۲۴۰/۵ت ۱۱۳۷)

لہٰذا اس روایت کی سند حسن ہے۔

اور دوسری روایت میں ہے کہ (حرام خور طویل سفر طے کرتا ہے اور ) آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے کہتا ہے :

اے میرے رب ! اے میرے رب ! جبکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا پہننا حرام اور حرام ہی سے اس نے پرورش پائی تو پھر اس کی دعا کیونکر قبول ہو؟

(صحیح مسلم: ۱۰۱۵، دار السلام : ۲۳۴۶)

اس پرفتن دور میں حلال و حرام کا فرق اب ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور لوگ مختلف طریقوں سے حرام خوری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔

سود کی حرمت

حرام کاموں میں سب سے بڑا حرام کام سود ہے جس نے عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے اور یہ چیز بینکوں کی شکل میں امت مسلمہ پر مسلط ہو چکی ہے حالانکہ سود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا إِنْ كُنتُم مُؤْمِنِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ﴾

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور (اصل رقم کے علاوہ) وہ حصہ چھوڑ دو جو باقی بچ جائے سود سے، اگر تم واقعی مومن ہو۔ پس اگر (سود سے) باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔

(البقرۃ: ۲۷۹)

اور سیدنا جابرؓ سے روایت ہے:

لعن رسول الله ﷺ آكل الربا وموكله وكاتبه و شاهدیه وقال : (( هم سواء))

رسول الله ﷺ نے سود کھانے والے کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا:

یہ (گناہ میں) برابر (کے شریک) ہیں۔

(صحیح مسلم: ۱۵۹۸، دار السلام:۴۰۹۳)

نیز سیدنا عبداللہ بن حنظلہ غسیل ملائکہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سود کا ایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھائے چھتیس زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے۔

(مسند احمد ۲۲۵/۵ وسنده حسن سنن دار قطنی ۱۶/۳ ح ۲۸۱۹)

تنبیہ :

اس کی سند حسن ہے۔ (مشكوة المصابيح 12825) ’’سنده ضعيف في سماع ابن أبي مليكة من عبد الله بن حنظلة لہٰذا الحديث نظر و للحديث عنة أخرى ‘‘

حافظ بزار کا یہ فرمانا:

’’ وقد رواه بـعـضـهـم عـن ابـن أبـي مليكة عن رجل عن عبد الله بن حنظلة

بلا دلیل ہے لہٰذا اس قول کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

تجارت میں سود

تجارت میں قرض کی صورت میں بھی سود وصول کیا جاتا ہے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ آسان اقساط پر چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ یہی اشیاء جب نقد خریدی جائیں تو ان کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن ادھار اور آسان اقساط کی صورت میں ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوا)

اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

(البقرۃ: ۲۷۵)

عصر حاضر میں قسطوں والا کاروبار عروج پر ہے اور لوگ آسان اقساط پر مختلف اشیاء مثلاً پنکھے، واشنگ مشینیں، فریج، ٹی وی اور گاڑیاں وغیرہ خریدتے ہیں اور ان چیزوں کی نقد اور ادھار قیمتوں میں کافی فرق ہوتا ہے ایک چیز اگر نقد دس ہزار روپے میں ملتی ہے تو قسطوں کی صورت میں بارہ ہزار روپے کی ہے، اب یہ دو ہزار روپے جو اس کی قرض رقم کے ساتھ وصول کئے جارہے ہیں، ان کی حیثیت شرعی اعتبار سے کیا ہوگی؟ ظاہر ہے یہ کھلاسود ہے۔

اس مسئلہ کو یوں سمجھ لیں کہ کوئی آدمی کسی کمپنی یا دکان سے دس ہزار روپے اس شرط پر قرض لیتا ہے کہ وہ یہ قرض رقم دس ہزار کے بجائے بارہ ہزار روپے آسان قسطوں میں ادا کرے گا، ظاہر بات ہے کہ یہ سود ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص دس ہزار روپے قرض لینے کے بجائے دس ہزار روپے کی کوئی چیز اس صورت میں خریدتا ہے کہ وہ اس چیز کے بارہ ہزار روپے آسان قسطوں میں بطور قرض ادا کرے گا، ظاہر بات ہے کہ اس شخص کے ذمے تو دس ہزار روپے ہی واجب تھے لیکن قرض لینے کی وجہ سے اس کی اصل رقم میں دو ہزار روپے مزید اضافہ کر دیا گیا ہے لہٰذا یہ بھی سود ہے ۔ نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

(( الربا في النسيئة و في رواية قال : لا ربا فيما كان يدا بيد . ))

سودا دھار میں ہوتا ہے اور ایک روایت میں ہے جو چیز نقد بیچی جائے اس میں سود نہیں ہے۔

(صحیح بخاری : ۲۱۷۹،۲۱۷۸ صحیح مسلم:۵۹۶، دار السلام : ۴۰۹۰،۴۰۸۹،۴۰۸۸)

سیدنا فضالہ بن عبیدؓ نے فرمایا :

’’کل قرض جرمنفعة فهو وجه من وجوه الربا‘‘

ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود کی وجوہ میں سے ایک وجہ (قسم) ہے

(اسنن الکبریٰ للبیہقی ۳۵۰٫۵ وسنده صحیح واخطا من ضعفه)

سید نا ابو موسیٰ الاشعریؓ کے بیٹے ابو بردہؒ سے روایت ہے کہ میں مدینہ گیا تو (سیدنا) عبد اللہ بن سلامؓ سے ملا۔ انھوں نے فرمایا:

کیا تم (میرے پاس) نہیں آتے تا کہ میں تمھیں ستو اور کھجور کھلاؤں اور گھر میں داخل ہو جاؤ ؟ پھر فرمایا:

تم ایسے علاقے میں ہو جہاں سود پھیلا ہوا ہے، اگر تمھارا کسی آدمی پر کوئی حق (قرض) ہو پھر وہ تمھیں بھوسہ، جو یا (فضول) جنگلی دانوں والی گھاس تحفہ میں دے تو اسے نہ لینا کیونکہ یہ سود ہے۔

(صحیح بخاری : ۳۸۱۴)

ادھار کے بدلے زیادہ قیمت جائز نہیں

قسطوں کی صورت میں جو ادھار کے بدلے زیادہ قیمت ادا کی جاتی ہے، اس کے نا جائز ہونے کے درج ذیل دلائل ہیں:

➊ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے :

نھی رسول الله ﷺ عن بيعتين في بيعة

رسول اللہ ﷺ نے ایک چیز کی دو قیمتیں مقرر کرنے سے منع کیا ہے۔

( ترمذی: ۱۲۳۱، و اسناده حسن ، نسائی: ۴۶۳۶ ، وصححہ ابن الجارود : ۶۰۰ ، وابن حبان : ۴۹۵۲)

➋ سیدنا ابو ہریرہؓ کی یہ حدیث ان الفاظ سے بھی مرفوعاً مروی ہے:

((من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا))

جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گایا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود ہوگا۔

(سنن ابی داود : ۳۴۶۱، و اسناده حسن، وصحه ابن حبان : ۱۱۱۰، والحاکم ۴۵٫۲ ، ووافقه الذہبی)

➌ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

’’لا تحل صفقتان في صفقة و أن رسول الله ﷺ لعن آكل الربا وموکله و شاهدیه و کاتبه

ایک عقد (بیع) میں دو معاملے کرنا حلال نہیں ہے اور بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے پر ، اسکے گواہوں پر اور اس کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے۔

(مسند احمد ا/۳۹۳، و اسناه حسن، والموسوعة الحديثية ۲۷۰،۲۶۹/۶)

’’لا تحل“ کے الفاظ معجم الاوسط (۳۶۴/۲) اور مجمع الزوائد (۸۴/۴) میں ہیں جبکہ مسند احمد میں ’’لا تصلح“ ہے۔

➍ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

’’لا تصلح الصفقتان في الصفقة، أن يقول : هو بالنسيئة بكذا وكذا، وبالنقد بکذا و کذا

ایک عقد میں دو معاملے کرنا جائز نہیں ہے ( اور ایک عقد میں دو معاملے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ) ایک شخص کہے کہ اگر تم نقد خرید و تو اتنے روپے میں اور اگر ادھار خرید و تو اتنے روپے میں۔

(مصنف عبدالرزاق ۱۳۷/۸ ح ۱۴۶۳۳، وسنده حسن)

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کی اس وضاحت سے واضح ہو گیا کہ کسی چیز کی نقد اور ادھار کی صورت میں قیمت جدا جدا مقرر کرنا درست نہیں بلکہ ادھار کی صورت میں زیادہ وصول کی گئی قیمت سود ہے۔

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’صفقتان في صفقة ربا

ایک عقد میں دو معاملے کرنا سود ہے۔

(السنتہ للمروزی: ۱۹۱، وسندہ حسن)

راویانِ احادیث اور محدثین وفقہاء نے ان احادیث کی یہی وضاحت کی ہے۔

امام بیہقی فرماتے ہیں:

➊ قال عبدالوهاب يعني يقول : هو لك بنقد بعشرة و بنسيئة بعشرين .

عبدالوہاب ( بن عطاء ) فرماتے ہیں :

یعنی دکاندار یوں کہے:

یہ چیز تیرے لئے نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں ہے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی ۳۴۳٫۵، السلسلة الصحيحتہ ۴۲٫۵)

➋ علامہ ابن قتیبہ دینوری غریب الحدیث (۱۸/۱) میں فرماتے ہیں:

’’ومن البيوع المنهي عنها شرطان في بيع ، وهو أن يشتري الرجل السلعة إلى شهرين بدينارين و إلى ثلاثة أشهر بثلاثة دنانير وهو بمعنى بيعتين في بيعة ‘‘

اور منع کردہ بیوع میں سے ایک سودے میں دو شرطیں لگانا اور وہ یہ ہے کہ آدمی دو ماہ تک سودا فروخت کرے دو دیناروں میں اور تین ماہ تک تین دیناروں میں یہ معنی ”بيعتين في بيعة“ کا ہے۔

(السلسلۃ الصحیحتہ الالبانی ۴۲۰٫۵ ۵ ۲۳۲۶).

➌ اور مسند احمد میں سماک بن حرب کا یہی قول ہے۔
(۳۹۸/۱)

سماک بن حرب معروف ثقہ وصدوق تابعی ہیں جنھوں نے اسی (۸۰) صحابہ کرام کو پایا ہے اور اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کی تفسیر و توضیح اس مقام پر دوسرے لوگوں سے مقدم ہے۔
اس لئے کہ راوی حدیث اپنی روایت کا مفہوم دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتا ہے۔

➍ امام محمد بن نصر المروزی نے کتاب السنۃ ( رقم : ۱۹۴، دوسرا نسخہ : ۲۰۵) میں اور امام عبدالرزاق نے المصنف ( ۱۳۷/۸، ح ۱۴۶۲۹) میں صحیح سند کے ساتھ قاضی شریح سے حرف بحرف ان کا قول او پر ذکر کردہ حدیث کے مطابق نقل کیا ہے۔

➎ امام محمد بن سیرین سے ایوب (السختیانی ) نقل کرتے ہیں: أنه كان يكره أن يقول : أبيعك بعشرة دنانير نقدا أو بخمسة عشر إلى أجل “ وہ مکروہ سمجھتے تھے کہ آدمی یوں کہے: میں تمھیں نقد دس دینار میں اور ادھار پندرہ دینار میں فروخت کروں گا۔

(مصنف عبدالرزاق ۱۳۶/۸ ح ۱۴۶۳۰، وسندہ صحیح)

➏ امام طاؤس کہتے ہیں:

’’إذا قال : هو بكذا و كذا إلى كذا و كذا، وبكذا وكذا إلى كذا و كذا فوقع البيع على هذا فهو / بأقل الثمنين إلى أبعد الأجلين

جب آدمی یوں کہے:

فلاں چیز اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک اور اتنی اتنی رقم کے ساتھ ، اس اس طرح مدت تک ہے تو بیع واقع ہو جائے گی اور اس کے لئے دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہوگی اور دومدتوں میں سے دور کی مدت ہوگی۔

(مصنف عبدالرزاق ۱۳۶/۸ ح ۱۴۶۳۱، وسندہ صحیح)

➐ امام نسائی نے باب ”بيعتين في بيعة “ کے تحت لکھا ہے:

’’ وهو أن يقول : أبيعك هذه السلعة بمائة درهم نقدا أو بمائتي درهم نسيئة

میں تمھیں یہ سودا نقد سو درہم میں اور ادھار دوسو درہم میں فروخت کرتا ہوں۔

(سنن النسائی قبل حدیث: ۴۶۳۶ جس ۶۳۷ مطبوعہ دارالسلام )

➑ حافظ ابن حبان نے اپنی صحیح (۳۴۷/۱۱ رقم ۴۹۷۳) میں فرمایا ہے:

’’ذكر الزجر عن بيع الشي بمئة دينار نسيئة و بتسعين دينارا نقدا.

کسی چیز کو ادھار سود دینار میں اور نقد نوے دینار میں بیچنے پر زجر وتو ریخ کا بیان۔

➒ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

’’أن يقول : بعتك بألفين نسيئةً، بألف نقدًا فأيهما شئت أخذت به وهذا بيع فاسد …. وعلة النهي على الأول عدم استقرار الثمن و لزوم الربا عند من يمنع بيع الشي بأكثر من سعر يومه لأجل النسيئة .

آدمی یوں کہے:

میں تجھے یہ چیز دو ہزار میں ادھار بیچتا ہوں اور نقد ایک ہزار میں تمھیں جس طرح پسند ہو لے لو تو بیع فاسد ہے اور اس سے منع کی علت یہ ہے کہ اس چیز کی قیمت مقرر نہیں کی گئی اور پھر اس میں سود ہے، اس شخص کے ہاں جو ادھار کی وجہ سے اس دن کے بھاؤ سے زیادہ قیمت لیتا ہے۔

(امام للشافعي/ مختصر المزنی ص ۸۸ سبل السلام، البوع باب شروطه و مانھی عنہ واللفظ له ص۵۵۲ تحت ح ۷۹۱)

➓ امام ترمذی فرماتے ہیں:

’’حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم وقد فسر بعض أهل العلم قالوا : بيعتين في بيعة أن يقول : أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة و بنسيئة بعشرين.‘‘

ابو ہریرہؓ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے اور اس حدیث کی تفسیر میں بعض اہلِ علم نے کہا کہ ایک چیز میں دو بیعوں کا معنی یہ ہے کہ آدمی کہے:

میں تجھے یہ کپڑانقد دس کا اور ادھار بیس کا بیچتا ہوں۔

(سنن الترمذی بعد حدیث : ۱۲۳۱)

⓫ امام بغوی فرماتے ہیں:

’’ وقوله : ولا شرطان في بيع ، فهو أن يقول : بعتك هذا العبد بألف نقدا أو بألفين نسيئة ، فمعناه معنى البيعتين في بيعة .‘‘

نبی ﷺ کا فرمان :

ایک سودے میں دو شرطیں جائز نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یوں کہے:

میں تجھے یہ غلام نقد ایک ہزار میں اور ادھار دو ہزار میں فروخت کرتا ہوں، اس کا معنی ’’البيعتين في بيعة“ کا معنی ہے۔ [یعنی اس حدیث کا یہی مفہوم ہے۔]

(شرح السنته ۱۴۵/۸ ح ۲۱۱۲)

مذکورہ بالا ائمہ محدثین کی توضیحات سے واضح ہو گیا کہ نقد اور ادھار کے فرق پر بیع کرنا درست نہیں اور ادھار کی وجہ سے جو قیمت زائد لگائی جاتی ہے، وہ سود کے زمرے میں آتی ہے اور رسول الله ﷺ کے فرمان:

(( فله أو كسهما أو الربا))

کے مطابق واضح سود ہے۔ اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

شبہات کا ازالہ

پہلا شبہ:

جوعلماء قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز کہتے ہیں، انھوں نے اس حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ اس میں ممانعت کا سبب اور علت قیمت کا مجہول ہونا ہے اور وہ اس طرح ہے کہ جب بائع(بیچنے والا) کہے:

یہ چیز نقد سو روپے میں اور ادھار ڈیڑھ سو روپے میں ہے اور خریدار کہے کہ مجھے منظور ہے اور یہ طے نہ ہو کہ سو روپیہ ادا کرنا ہے یا ڈیڑھ سوروپے، لہٰذا جب طے ہو گیا تو قیمت مجہول نہ رہی اور خریدار نے واضح کر دیا کہ وہ نقد لے گا یا ادھار۔

ازالہ:

یہ قول کئی وجہ سے باطل ہے:

➊ اس جگہ بیع میں جہالت کا ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ خریدار اور بائع با اختیار ہیں اور وہ دونوں ہی اگر دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کا یقین کیے بغیر جدا ہو جائیں اور بائع خریدار کو بعد میں ملے اور خریدار سے کہہ دے کہ مجھے ادھار منظور ہے اور وہ نقد پیسے اسے دے دے اس صورت میں کوئی ایسی جہالت نہیں پائی جاتی جو بیع کی صحت کے لئے مضر ہو اور یہ بات بھی واضح اور عیاں ہے کہ ہر جہالت بیع کی صحت کے لئے مضر نہیں ہوتی ، اسی لئے تو اناج کے ڈھیر کی بیع جائز ہے اسی طرح اخروٹ ، بادام ، اور تربوز وغیرہ کی چھلکے کے اندر ہی بیع درست ہے حالانکہ ان سب میں جہالت ہوتی ہے لیکن یہ جہالت غیر مضر ہے اور ادھار والی بیع میں ممانعت کی علت میں جو جہالت ذکر کی جاتی ہے وہ بھی غیر مضر ہے اور اگر اس کا مضر ہونا مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ممانعت کی علت ہونا نہیں ہوگا کیونکہ حقیقت میں اس جہالت کی وجہ سے یہ ممانعت قطعا نہیں ہے۔

➋ اگر یہ ممانعت قیمت کی جہالت کی وجہ سے ہوتی تو فرمان نبوی ﷺ:

(( فله أو كسهما أو الربا ))

اس بائع کے لئے کم مقدار والی قیمت ہے یا پھر سود ہے، کا کیا مطلب اور کیا موقع ومحل رہتا ہے؟

اور یہ بات یقینی ہے کہ اس بیع سے ممانعت کی اصل وجہ رقم کی وہ زیادتی ہے جو دکاندار یا بائع ادھار کی وجہ سے وصول کرتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے تو دو ہی صورتیں بنتی ہیں :

دکاندار یا بائع یا تو کم مقدار والی قیمت کے ساتھ اپنی چیز بیچے گا اور وہ نقد کی قیمت ہے یا پھر ادھار کی وجہ سے سودی اضافہ وصول کرے گا جس کی اس نے ادھار کی صورت میں شرط لگائی تھی۔

دوسرا شبہ :

بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ ’’بیعتین في بيعة“ کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز ایک مدت تک ادھار دیتا ہے پھر اس خریدار سے خود کم قیمت پر نقد خرید لیتا ہے جسے ’’بيع العينة“ کہا جاتا ہے اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إذا تبـايـعـتـم بالعينة و أخذتـم أذناب البقر و رضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلاً لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم))

جب تم بیع عینہ کرنے لگ جاؤ گے اور گائے بیل کی دموں کے پیچھے لگ جاؤ گے اور کھیتی باڑی کو پسند کرو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تمھارے اوپر ذلت مسلط کرے گا ، اس وقت تک اسے دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔

(سنن ابی داود : ۳۴۶۲، مسنداحمد ۲۸/۲ ح ۴۸۲۵، واسناده ضعیف)

تنبیہ:

اس روایت کی سند میں اسحاق بن اسید قول راجح میں ضعیف ہے اور اس کے شواہد بھی ضعیف ہیں جن کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہی ہے۔

ازالہ :

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیع عینہ بھی باطل ہے، اس لئے کہ یہ سود کا ذریعہ ہے اور اس کی حرمت پر بہت سے آثار صحابہ دلالت کرتے ہیں اور حدیث ’’نهى عن بيعتين في بيعة “ کے عموم میں یہ بھی داخل ہے۔

لیکن نبی ﷺ کا یہ فرمان

((من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا))

جو ایک بیع میں دو بیعیں کرلے تو اس کے لئے ان دونوں میں سے کم مقدار والی قیمت ہے یا پھر سود ہے، اس بیع عینہ پر منطبق نہیں ہوتا اور نہ یہ بیع اس حدیث کا مصداق ہی ہے۔

اس لئے کہ بائع یاد کا ندار جب کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے کم قیمت میں خرید لیتا ہے اس صورت میں ((فله أو كسهما أو الربا)) کوئی معنی نہیں رکھتا۔

جائز کہنے والوں کے دلائل اور ان کا تجزیہ

جو لوگ قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز قرار دیتے ہیں، انھوں نے اس کے لئے مختلف دلائل کا سہارا لیا ہے:

پہلی دلیل:

ان کا کہنا ہے کہ اشیاء اور معاملات میں اصل اباحت ہے اور کسی بھی شے کے حرام ہونے کی دلیل چاہئے اور قسطوں والی بیع معاملات میں سے ایک معاملہ ہے لہٰذا یہ مباح ہے اور اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

تجزیہ:

یہ بات تو درست ہے کہ اشیاء و معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ اس کے ناجائز ہونے کی دلیل مل جائے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس معاملے کے حرام ہونے کی کوئی دلیل ہے؟

تو یادر ہے کہ اس کے حرام ہونے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے جو سیدنا ابو ہریرہؓ سے بایں الفاظ مروی ہے

((من باع بيعتين فله أوكسهما أو الربا))

جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے اور اسی طرح کچھ آثار صحابہ بھی بیان ہو چکے ہیں، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہیں!

دوسرا یہ کہ سد الذرائع بھی اس اباحت اصلیہ کے خلاف دلیل ہے۔ یعنی ناجائز کاموں کی طرف لے جانے والے ذرائع اور وسائل کو روکنا۔ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے ،عوام الناس کو ایسے فتاویٰ جات دے کر انھیں سودی کاموں پر دلیر کرنا اور سودی معاملات کی راہ ہموار کرنا ہے جو کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

دوسری دلیل :

قسطوں والی بیع اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت جائز ہے:

(وَاحَلَّ اللهُ البيع)

اللہ تعالیٰ نے بیع حلال کی ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾

اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ الا یہ کہ تمھاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔

(النساء:۲۹)

بیع تقسیط ( قسطوں والی خرید و فروخت) بھی باہمی رضا مندی سے تجارت ہے۔

تجزیہ:

وہ بیوع اور تجارت جو شرعاً نا جائز ہیں وہ ان آیات کے عمومی حکم میں داخل نہیں ہیں ورنہ لازم آئے گا کہ شراب، خنزیر اور گندم کے بدلے برابر برابر اور ایک جانب سے نقد اور دوسری جانب سے ادھار اور نقد بنقد ایک طرف سے زائد وغیرہ بیوع (سودے) جائز قرار پائیں! کیونکہ یہ بھی تو بیوع ہی ہیں حالانکہ ان بیوع کے جواز کے یہ لوگ بھی قائل نہیں ہیں کیونکہ یہ شرعاً حرام ہیں۔ اسی طرح قسطوں کی صورت میں ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنا بھی حلال نہیں جیسا کہ حدیث ابی ہریرہؓ سے واضح ہے۔

تیسری دلیل :

عقلی قیاس بیع تقسیط مروجہ کے حلال ہونے کا تقاضا کرتا ہے، اس لئے کہ تاجر کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز کی جتنی چاہے قیمت مقرر کر سکتا ہے کبھی وہ کسی خریدار کو ایک چیز تھوڑی قیمت میں دے دیتا ہے اور وہی چیز دوسرے خریدار کو زیادہ قیمت میں فروخت کر دیتا ہے جب یہ اس کے لئے جائز ہے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ جو خریدار اُسے قیمت (دیر سے) لیٹ ادا کرتا ہے وہ اس سے زیادہ قیمت وصول کرے اور جو اسے نقد دیتا ہے وہ اس سے کم قیمت وصول کرے۔

تجزیہ:

جو لوگ اس قیاس کو عقلی کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں، یہ ایسے لوگوں کی عقل کے اعتبار سے تو جائز ہے جن کی عقل شریعت کی پابند نہیں بلکہ شرع پر حاکم بنی بیٹھی ہے لیکن جن کی عقل شریعت کی پابند ہے ان کے نزدیک جائز نہیں۔ کیونکہ وہ نص کے مقابلے میں عقل سے کام نہیں لیتے ۔ یہاں تو نص موجود ہے جس کا سابقہ صفحات پر تذکرہ ہو چکا ہے۔ ہاں تاجر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس قیمت کے ساتھ ادھار فروخت کرے جس کے ساتھ وہ اب نقد بیچنا چاہتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کی غربت یا دوستی کی وجہ سے وہ اسے کم قیمت پر بیع دیتا ہے اور کبھی اسے روزانہ کا گاہک سمجھ کر کم قیمت پر فروخت کر دیتا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے گاہکوں سے زیادہ قیمت وصول کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس بیع میں قیمت کی زیادتی اور اضافہ ادھار کی وجہ سے نہیں ہے۔ جس بیع میں قیمت کی زیادتی صرف ادھار کی وجہ سے ہو، وہ منع اور حرام ہے۔ اس طرح کی بیع کی حقیقت یہ بن جاتی ہے کہ اس دکاندار یا بائع نے اس گاہک کے ساتھ قرض کا لین دین کیا ہے اور اس نے اس قرض و دین میں زیادتی اور اضافہ لیا ہے کیونکہ اسے اس پر کچھ صبر بھی کرنا پڑے گا چنانچہ تاجر جب خریدار سے کہے گا کہ یہ سامان ہے اگر تو اس کی قیمت اب ادا کرتا ہے تو میں تجھے ایک ہزار کا فروخت کرتا ہوں لیکن اگر تو مجھے اس کی قیمت ایک سال بعد ادا کرے گا تو میں تجھ سے ڈیڑھ ہزار روپے لوں گا تو پھر اس بیع کی حقیقت یہ بنتی ہے کہ دراصل گا ہک نے تاجر سے یہ سامان ابھی ایک ہزار روپے کے بدلے خرید لیا ہے اور اپنے قبضے میں کر لیا ہے چونکہ اب وقتی طور پر اس کے پاس ایک ہزار موجود نہیں ہے، اب یہ ہزار اس کے ذمہ قرض ہے جو اس نے سال بعد ادا کرنا ہے اور تاجر نے اسے زبانِ حال سے یہ کہ دیا ہے کہ میں تجھے اس شرط پر ایک سال کی مہلت دیتا ہوں کہ تم مجھے پانچ سوروپے زائد بھی دو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے یہ شخص خریدار کے ساتھ بیع کا معاملہ کرنے والا تا جر تھا، اب تاجر سے منتقل ہو کر ہزار کے بدلے پندرہ سو وصول کر کے سودی معاملہ کرنے والا بن گیا ہے اور یہی بعینہ سود ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا یہ قیاس باطل ہے۔

صحیح عقلی قیاس یہ ہے کہ ادھار کی شکل میں نقد کی قیمت سے زیادہ وصول کرنا ہی زیادتی اور اضافہ ہے جو سودی لین دین والا کرتا ہے۔ جو اس کے رأس المال (اصل سرمائے) سے زائد ہوتا ہے۔

چوتھی دلیل :

نقد سے زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار کی یہ بیع ، بیع سلم ہی ہے اس لئے کہ یہ ادھار کی بیع، بیع سلم کا عکس ہے کیونکہ بیع سلم میں قیمت پہلے دی جاتی ہے اور سامان بعد میں وصول کیا جاتا ہے اور ادھار کی بیع میں سامان پہلے دیا جاتا ہے اور رقم بعد میں وصول کی جاتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے۔

تجزیہ:

یہ قول بھی فاسد ہے اور باطل قیاس ہے۔ اس کے باطل ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بیع سلم یا بیع سلف کے مباح ہونے کی واضح دلیل موجود ہے جبکہ اس ادھار والی بیع کی حرمت کی واضح دلیل موجود ہے تو جسے شرع نے حرام کیا ہو، وہ اس طرح کیسے ہو سکتی ہے جسے شرع نے حلال کیا ہو؟ جس چیز کی حلت پر نص شرعی موجود ہو، اس پر اسے کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے جس کی حرمت پر نص موجود ہو؟

ادھار والی اس مروجہ بیع کی حرمت پر حدیث ابی هریرہؓ ((من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا)) موجود ہے اور علماء وفقہاء اور محدثین کی ایک کثیر جماعت نے اس کا مطلب نقد اور ادھار میں قیمت کے فرق کے ساتھ بیع (خرید و فروخت) بیان کیا ہے جو سابقہ صفحات پر گزر چکا ہے اور بیع سلم کی حلت میں عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو اس وقت مدینہ والے سال، دو سال تک بیع سلم کیا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر نبی ﷺ نے انھیں فرمایا تھا:

((من أسلف في شيءٍ ففي كيل معلوم و وزن معلوم إلى أجل معلوم))

جو شخص بھی بیع سلم کرے تو وہ ایک معین مدت تک معین ماپ اور معین وزن ہی میں کرسکتا ہے۔

(بخاری: ۲۲۴۰)

لہٰذا جو چیز نص اور دلیل سے حرام ہو اسے ایسی چیز پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جو نص اور دلیل سے حلال ہو کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس باطل ہے اور ایک وجہ یہ ہے کہ بیع سلم ، بیع کے عام قاعدے سے مستثنیٰ اور مخصوص ہے اور جو چیز خود کسی عام قاعدے سے مخصوص ہو، اس پر قیاس کرنا جائز نہیں ہوتا اور بیع میں عام قاعدہ یہی ہے کہ معدوم ( غیر موجود ) شے کی بیع درست نہیں ہے اور بیع سلم کو اس قاعدے سے مستثنیٰ کیا گیا ہے دیکھئے:

الوجيز في أصول الفقه
(ص۵۲، از عبدالکریم زیدان)

”جب اصل (مقیس علیہ) کسی عام قاعدے سے مستثنی ہو تو اس پر کسی چیز کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔“

(الوجیز ص ۱۹۹)

بیع مسلم پر اس بیع اجل (ادھار کی بیع) کو اس لئے بھی قیاس کرنا درست نہیں ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ بیع الاجل میں جو زیادہ قیمت لی جاتی ہے وہ صرف ادھار کی وجہ سے ہے جو عین سود ہے۔ جبکہ بیع سلم میں مدت اور ادھار کی وجہ سے پھلوں کی اصل قیمت سے زائد کچھ بھی وصول نہیں کیا جاتا، لہٰذا دونوں میں فرق واضح ہے اور معترضین کا قیاس، قیاس مع الفارق اور باطل ہے۔

پانچویں دلیل:

قسطوں والی مروجہ بیع کو جائز کہنے والوں نے آیت مدینہ سے بھی استدلال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَينِ إِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ﴾

اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے قرض کا معاملہ مقرر و معین مدت تک کرو تو اسے لکھ لو ۔

(البقرہ: ۲۸۲)

ان کا کہنا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقرر و عین مدت تک قرض کا معاملہ کیا جاسکتا ہے اور قسطوں والی بیع بھی مقررہ مدت تک قرض کا معاملہ ہے لہٰذا یہ جائز ٹھہرا۔

تجزیہ:

اس آیت کریمہ کا ادھار والی مروجہ بیع سے نہ قریب کا تعلق ہے اور نہ ہی دور کا۔ اس میں صرف قرض لکھنے ، اس پر گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے۔

اس میں یہ بات موجود نہیں کہ ادھار کے بدلے زیادہ قیمت وصول کر سکتے ہو لہٰذا اس آیت سے یہ مسئلہ کشید کرنا محض سینہ زوری ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

چھٹی دلیل:

ان لوگوں کا چھٹا استدلال یہ ہے کہ نبی ﷺ نے خود ادھار والی بیع کی ہے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے اُدھار اناج خریدا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی ۔

(صحیح بخاری: ۲۰۶۸ صحیح مسلم :۱۲۰۳)

تجزیہ:

یہ بات تو درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا تھا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الرہن میں موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث میں یا اس طرح کی کسی دوسری حدیث میں یہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس یہودی کو وقتی قیمت سے زیادہ قیمت دے کر ادھار سودالیا تھا؟

جو شخص اس بات کا مدعی ہے وہ دلیل پیش کرے بصورت دیگر وہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے ایسا کام لگا رہا ہے جو آپ نے نہیں کیا۔

ساتویں دلیل:

رسول اللہ ﷺ نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ اُدھار خریدا۔ آپ ﷺ نے عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کو حکم دیا تھا کہ صدقے کے اونٹوں کے بدلے اونٹ لے۔ انھوں نے دو دو اور تین تین اونٹنیوں کے بدلے ایک ایک اونٹ اُدھار لیا لہٰذا اُدھار کے بدلے اضافہ ہوسکتا ہے۔

(ابوداود: ۳۳۵۷، مسند احمد۲/ا۱۷، واسنادہ ضعیف)

تجزیہ:

یہ حدیث مسند احمد سنن ابی داود اورسنن دارقطنی (۶۹٫۳ ح ۳۰۳۳ وسندہ حسن ) میں موجود ہے ۔ مکمل حدیث اس طرح ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان اونٹوں پر سوار کر کے ایک لشکر روانہ کروں جو میرے پاس تھے، چنانچہ میں نے اپنے اونٹوں پر لشکر کو سوار کیا حتی کہ اونٹ ختم ہو گئے اور لشکر کے کچھ مجاہدین بچ گئے ، ان کے لئے کوئی سواری نہ تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ بعض لوگ بچ گئے ہیں، ان کے لئے کوئی سواری نہیں بچی۔ آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ صدقہ کے اونٹوں کے بدلے میں لوگوں سے ادھار اونٹ خرید لو تا کہ لشکر تیار ہو جائے اور جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم انھیں وہ اونٹنیاں دے دیں گے جو طے کی ہیں تا کہ تم اس لشکر کو تیار کر کے روانہ کر دو۔

عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں :

میں لوگوں سے صدقے کے دو دو اور تین تین اونٹنیوں کے بدلے ایک ایک اونٹ لینے لگا، اس شرط پر کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ہم آپ کا دین واپس کر دیں گے حتی کہ وہ لشکر میں نے تیار کر کے روانہ کر دیا۔ جب صدقے کے اونٹ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں وہ اونٹنیاں ادا کر دیں۔

یاد رہے کہ یہ بیع حیوانوں کے ساتھ خاص ہے کیونکہ نص اور دلیل صرف حیوان کی بیع کے متعلق وارد ہوئی ہے، اس سے عام قاعدہ اور ضابطہ اخذ نہیں کیا جاسکتا جس سے رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ بات کی تردید کی جائے اور وہ یہی ہے کہ ایک جنس کی دو چیزوں میں ایک طرف سے زائد وصول کر کے بیع کرنا جائز نہیں اور جو لوگ عبد اللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے ادھار کی وجہ سے ہر طرح کی زیادتی وصول کرنے پر جواز کا استدلال کرتے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ ان کا قیاس ایسی جگہ پر ہے جہاں قیاس کی گنجائش ہی نہیں ورنہ تو ایک دینار کے بدلے میں دو دیناروں کی بیع ادھار جائز ٹھہرے گی ، اسی طرح ایک من گندم کی بیع دو من گندم کے ساتھ ادھار بھی جائز ہوگی وغیرہ ، حالانکہ اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔ پھر یہ بھی یادر ہے کہ ایک اونٹ کی دو اونٹوں کے بدلے بیع میں یہ شرط نہیں ہے کہ یہ بیع دو اونٹوں کے ایک اونٹ سے افضل ہونے کی وجہ سے ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک اکیلا اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری نے عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ ’’قد يكون البعير خيراً من البعيرین‘‘ کبھی ایک اونٹ دو اونٹوں سے بہتر ہوتا ہے۔

(بخاری قبل حدیث : ۲۲۲۸)

بہر حال مذکورہ حدیث حیوان کے ساتھ ایک طرف سے زیادتی کی ادھار بیع کے ساتھ ہی خاص ہے عام قاعدہ نہیں ہے ورنہ ایک جنس کی دو چیزوں کی آپس میں بیع کمی بیشی کے ساتھ جائز ٹھہرے گی جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابو داود اور مسند احمد کی مرفوع روایت سند ضعیف ہے اور سید نا عبد اللہؓ کا دو کے بدلے ایک اونٹ لینا موقوفاً ذاتی عمل ہے نہ کہ مرفوعاً۔ واللہ اعلم

آٹھویں دلیل

زیادہ قیمت کے ساتھ ادھار فروخت کرنے میں عوام الناس کے لئے آسانی ہے اور شریعت کے بہت سارے امور کا مدار آسانی پر ہے۔ غریب لوگ جو ضروریات زندگی کی اشیاء یکمشت قیمت ادا کر کے نہیں خرید سکتے ، وہ قسطوں کی صورت میں آسانی سے خرید سکتے ہیں اور دکاندار کو چونکہ قسطوں کی صورت میں لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے، اس لئے وہ اس کے بدلے میں زیادہ قیمت وصول کر کے فائدہ اٹھا لیتا ہے اس طرح تاجر اور خریدار دونوں کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔

تجزیہ:

قسطوں کے کاروبارکو جواز فراہم کرنے کے لئے جو دلیل ذکر کی گئی ہے یہ دلیل وہ لوگ بھی دیتے ہیں جو خالص سودی کاروبار کرتے ہیں ۔ جو شخص سود پر کسی سے قرض لیتا ہے وہ بھی اس مال یا جائیداد اور خرچ کرنے یا سرمایہ کاری کی صورت میں فائدہ اٹھا رہا ہے پھر جب اسے آسانی ہوتی ہے، اس وقت وہ اصل سے کچھ زائد رقم دے کر جس سے قرض لیا ہوتا ہے اسے فائدہ پہنچا دیتا ہے، اس طرح قرض دینے والے اور لینے والے دونوں فائدہ حاصل کر لیتے ہیں، لہٰذا یہ سود بھی جائز ٹھہرا۔ !

(العیاذ باللہ)

ثابت ہوا کہ اُدھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنے والوں کی دلیل سودی کاروبار پر بھی فٹ ہورہی ہے اور سود خور یہ دلیل پیش کر کے سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ واقعتاً آسانی کرنا چاہتے ہیں تو ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کئے بغیر بھی آسانی کر سکتے ہیں اور سود سے بھی بچ سکتے ہیں۔ کسی چیز کو قسطوں پر دینے میں خریدار پر آسانی ہے لیکن اگر ساتھ زیادہ قیمت لگا ئیں گے تو تنگی بھی ہوگی اور سود بھی وصول ہوگا تو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مہلت کیوں نہیں دیتا اور انتظار کیوں نہیں کرتا تا کہ شرعی حقیقی آسانی ہو جس کی اسلام نے ترغیب دی ہے اور اس پر اجر و ثواب بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَانْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ)

اگر تنگ دست ہو تو آسانی تک اسے مہلت دینا ہے۔

(البقرۃ:۲۸۰)

اور مروجہ ادھار بیع روح اسلام کے خلاف ہے اور ایسے تاجروں سے لوگ اپنی مجبوری کی وجہ سے اشیاء خریدتے ہیں، اگر انھیں ایسا تاجرمل جائے جو ادھار کے بدلے زائد قیمت وصول نہ کرتا ہو تو لوگ اس سے اشیاء خریدیں گے ، ادھار کے بدلے زائد رقم وصول کرنے والوں سے قطعاً سودا نہیں خریدیں گے۔ اس سے اس کے مال میں اضافہ بھی ہوگا، تجارت بڑھے گی اور لوگوں پر مہلت کی آسانی کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور جس تاجر کا جتنا مال زیادہ فروخت ہوتا ہے، اسے اتنازیادہ نفع ملتا ہے اور اللہ کی رضا اس پر مستزاد ہے۔

یہ بھی یادر ہے کہ اگر لوگوں کی حاجت اور ضرورت کی بنا پر حلت وحرمت کی بنیا درکھی جائے تو پھر شرع میں ہر حرام کے حلال ہونے کی بھی لوگ دلیلیں بنالیں گے۔

اصل تو یہ ہے کہ شریعت نے جس چیز کو حلال بنایا وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دیا وہ حرام ہے۔ لوگوں کی حاجات اور ضروریات کو حلال و حرام میں دخل نہیں ہے اور مروجہ قسطوں کی بیع ، بیوع محرمہ میں داخل ہے اور رفع حرج اور ارادہ کیسر کا قاعدہ اس پر فٹ نہیں ہوتا۔

جو لوگ نقد قیمت ادا کر کے سامان خریدنے کی ہمت نہیں رکھتے اور جو ہمت رکھتے ہیں دونوں کو حلال پر اکتفا کرنا چاہئے اور حرام سے اجتناب کرنا چاہئے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا)

جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے لئے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردیتا ہے۔

(الطلاق :۲)

اور فرمایا:

﴿وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾

اور اسے وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

(الطلاق:۳)

نیز فرمایا:

﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾

اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے، وہ اسے کافی ہے۔

(الطلاق:۳)

نویں دلیل:

اُدھار مال دینے والا اپنے مال کو خطرے میں ڈالنے والا ہے کیونکہ اسے مکمل طور پر یقین نہیں ہوتا کہ اُدھار لینے والا اسے وہ قرض واپس بھی کرے گا یا نہیں اور جتنی مہلت لمبی ہو گی، اتنا ہی خطرہ بڑھتا چلا جائے گا لہٰذا ایسا دکاندار یا تاجر اس خطرے کو برداشت کرنے کی وجہ سے اُدھار کے بدلے زائد رقم وصول کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

تجزیہ:

اس دلیل کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سود پر قرض دینے والے بھی بعینہ یہی دلیل دیتے ہیں اور اس دلیل کی بنا پر تو سود بھی جائز ٹھہرتا ہے۔

حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ وہ تاجر جو ادھار کی وجہ سے قیمت میں زیادتی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز نقد تو سوروپے کی ہے اور اُدھار ایک سو دس روپے کی اور خریدار کو اس نے مثلاً سال کی مہلت دے دی تو اس نے حقیقت میں تمھیں وہ چیز سوروپے کی فروخت کی ہے اور خریدار کے ذمے اس کے سوروپے ثابت ہو گئے ، جب خریدار بعد میں اسے ایک سودس روپے دے تو گویا دکاندار نے اس کے سوروپے کے بدلے میں اسے ایک سو دس روپے دیئے ہیں جوصریحا سود ہے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ انظار اور مہلت کی وجہ سے مال کو خطرے میں ڈالنے والی دلیل بالکل بودی اور سود خوروں کو سود کا جواز فراہم کرنے والی ہے۔

دسویں دلیل:

جمہور علماء نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔

تجزیہ:

گیارہویں دلیل:
بعض لوگ جب کوئی دلیل بیع تقسیط کے جواز کی نہیں پاتے تو کہہ دیتے ہیں کہ ((من باع بيعتين في بيعة فله أو كسهما أو الربا)) والى حديث ضعیف وشاذ ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ہے۔

تجزیہ:

الفصل في بيع الأجل‘‘ اس مسئلہ میں بہت مفید اور اس باب میں یکتا ہے تو اس کی تلاش میں فضیلۃ الشیخ عبدالرحمٰن ضیاء صاحب حفظہ اللہ سے جامعہ ابن تیمیہ لاہور میں ملاقات ہوئی ، انھوں نے بتایا کہ یہ رسالہ ان کے پاس موجود ہے بلکہ انھوں نے اس کے اکثر حصے کا اُردو میں ترجمہ بھی کر دیا ہے اور شفقت فرماتے ہوئے یہ رسالہ اور اس کا ترجمہ عنایت فرمایا لہٰذا اس بحث کا اکثر حصہ اسی رسالے سے ماخوذ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی حسنات میں اضافہ کرے اور سیئات سے درگز رفرمائے ۔ آمین اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ راقم الحروف کو ایسے جید باعمل علمائے کرام سے کما حقہ فائدہ اُٹھانے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!