فضائل اعمال: استغفار کی فضیلت
❀سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں :
ہم شمار کرتے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مجلس میں سو مرتبہ (استغفار کرتے ، جس کے الفاظ یہ ہیں)
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ
اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رجوع فرما، یقیناً تو بہت رجوع فرمانے والا ، بخشنے والا ہے۔
(سنن ابی داود : ۱۵۱۲، ابن ماجه : ۳۸۱۴ ، الترمذی: ۳۴۳۴، ابن حبان : ۲۴۵۹ صحیح)
❀سیدنا عبد الله بن بسرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوا تو اس کے لئے طوبیٰ(خوشخبری) ہے۔
(سنن ابن ماجہ: ۳۸۱۸، اسناده حسن)
فوائد :
طوبٰی جنت کا یا جنت میں ایک درخت کا نام ہے۔
(مرعاۃ المفاتیح ۶۲/۸)
❀سیدنا اغرالمزنیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
(بعض اوقات) میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ۔
(صحیح مسلم : ۲۷۰۲)
فوائد :
اس حدیث کے تحت امام قرطبی رحمہ اللہ نے بڑی جامع بحث کی ہے، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے: اس حدیث سے کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ جسطرح عاصی و باغی شخص کا دل گناہوں کے اثر کو قبول کرتا ہے، ویسے نبی ﷺ کے دل کو بھی گناہ نے متاثر کیا ہے۔ (العیاذ باللہ) بلکہ وہ مغفور ومکرم ہیں اور کسی چیز کے ذریعے سے ان کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ غین (بادل کا چھا جانا) گناہ کے سبب سے نہیں ہے۔
(المفہم ۲۷٫۷)
بعض علماء نے اس حدیث کی وضاحت میں کئی اقوال بیان کئے ہیں:
➊چونکہ نبی ﷺ ذکر پر مداومت فرماتے تھے، پس جب کوئی وقفہ یا سہو ہو جاتا تو اس بنا پر استغفار کرتے تھے۔
➋آپ ﷺ شکر اور اظہار عبودیت کے لئے استغفار فرماتے۔
➌آپ ﷺ کو جب امت کے احوال سے مطلع کیا جاتا تو آپ ان کے لئے استغفار کرتے تھے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے المفہم لامام قرطبی (۲۶/۷، ۲۷) شرح الابی و السنوسی علی صحیح مسلم (۱۰۳۱۰۲/۹)
❀سیدنا زید (ابن حارثہ) مولٰی رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جو شخص یہ کہے:
اسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَاتُوبُ اِلَيْهِ
میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے، میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، اگر چہ وہ میدانِ جہاد سے فرار ہوا ہو۔
(سنن ابی داود: ۱۵۱۷، الترمذی: ۳۵۷۷، حسن)
❀سیدنا ابوبکر الصدیقؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے :
جس بندے سے گناہ سرزد ہو جائے ، پس وہ اچھے طریقے سے وضو کرے، پھر دو رکعتیں نماز ادا کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ اسے معاف فرما دے گا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ
اور وہ لوگ جب کسی برائی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں.
[آل عمران:۱۳۵]
(سنن ابی داود: ۱۵۲۱، الترمذی: ۳۰۰۶ ، ابن ماجه: ۱۳۹۵، اسناده حسن)
فوائد :
مذکورہ تمام روایات میں استغفار کی فضیلت واضح ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب و ترہیب میں متعدد ارشادات جا بجا ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾
اور الله تعالیٰ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے اور (اسی طرح) اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ بخشش مانگنے والے ہوں۔
(الأنفال:۳۳)
❀نیز فرمایا:
وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمُ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رحِيمًا
جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا ، نہایت مہربان پائے گا۔ (النساء: ۱۱۰)
❀رسول الله ﷺ نے فرمایا :
اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں اکثریت تمھاری (عورتوں کی) دیکھی ہے۔۔۔ الخ
(صحیح بخاری :۳۰۴ صحیح مسلم: ۷۹)
❀خود نبی اکرم ﷺ کا عمل مبارک بھی کثرت استغفار تھا۔
❀سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے پڑھتے :
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، اَسْتَغْفِرُ اللهَ وَاتُوبُ إِليه۔
پاک ہے اللہ اور اپنی حمد وثنا کے ساتھ میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری: ۴۹۶۷ صحیح مسلم : ۴۸۴)
اللہ ہم سب کو اپنے حضور عاجزی و انکساری ، خشوع و خضوع اور توبہ واستغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)