کیا حاملہ کو حیض آ سکتا ہے؟
ماخوذ: ماہنامہ السنہ، جہلم

کیا حاملہ کو حیض آ سکتا ہے؟

حاملہ عورت حائضہ نہیں ہوسکتی ، جیسا کہ:

❀ حدیث ہے، کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا:
مرة فليراجعها، ثم ليطلقها طاهراً أو حاملاً.
’’اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔“
(صحیح بخاری: ۵۲۵۱، صحیح مسلم: ١٤٧١، واللفظ له)

اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آسکتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کو طہر کے قائم مقام کیا ہے، اگر حمل میں بھی حیض آ سکتا، تو حیض میں طلاق کو منع قرار دے کر حمل میں طلاق دینے کے حکم کا کیا معنی؟

❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
إذا رأت الـحـامـل الـصــفــرـة توضأت وصلت، وإذا رأت الدم اغتسلت وصلت، ولا تدع الصلاة على كل حال.
” جب حاملہ زرد رنگ کا پانی دیکھے، تو وضو کر کے نماز پڑھے، اور جب خون دیکھے، تو غسل کر کے نماز پڑھے، کسی بھی صورت میں نماز نہیں چھوڑ سکتی ۔“
(مصنف عبدالرزاق: ۳۱۷/۱، الأوسط لابن المنذر: ۳۲۹/۲، وسنده حسن)

تنبيه :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے ضعیف مخالف ایک ضعیف روایت بھی آتی ہے:
قال ابن المنذر: حدثنا محمد بن عبداللہ بن عبدالحكم ثنا ابن وهب أخبرني ابن لهيئة والليث بن سعد عن بكير بن عبدالله عن أمعة عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلّم أنها سئلت عن الحامل ترى حتى يذهب الدم.
’’آپ سے سوال کیا گیا کہ اگر حاملہ کو خون آئے تو نماز پڑھے گی؟آپ نے فرمایا :خون ختم ہونے تک نماز نہیں پڑھے گی۔‘‘
(الأوسط لابن المنذر /٢٤٣٩)

یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے، عبداللہ بن وہب المصری نے ’’تدلیس عطف ‘‘ کی ہے چناچہ اپنے پہلے شیخ ابن لہیعہ (جو کہ ضعیف مدلس ہیں) سے سماع کی تصریح کی ہے، جبکہ دوسرے شیخ لیث بن سعد کو عطف کے ذریعے ان سے ملا دیا ہے۔

محدثین کے ہاں ایسی صورت میں مدلس راوی کا دوسرے شیخ سے سماع ثابت نہیں ہوتا ، چنانچہ جن سے سماع کی صراحت ہے، وہ خود ضعیف و مدلس ہیں اور ’’عن“ سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ لیث بن سعد ثقہ ہیں، لیکن ان سے سماع کی صراحت نہیں، لہذا یہاں تدلیس عطف مؤثر ہے۔

فائده :

اس روایت کی راویہ ام علقمہ صدوقہ اور حسنۃ الحدیث ہے، اس کو امام عجلی، امام ابن حبان ، امام حاکم وغیرہ نے ’’ثقہ ‘‘ قرار دیا ہے۔

❀ امام شعبه بیان کرتے ہیں کہ امام حکم بن عتیبہ نے حاملہ کو آنے والے خون کے بارے میں فرمایا:
لیس بشیی
”یہ کچھ بھی نہیں ۔

❀ حماد بن ابی سلیمان فرماتے ہیں:
هي بمنزلة المستحاضة .
”ایسی عورت مستحاضہ کے حکم میں ہے۔“
(مصنف ابن ابی شیبه: ۲۱۲/۲ ، وسنده صحیح)

❀ امام جابر بن زید (مصنف ابن ابی شیبه ۲ ۲۲، وسنده حسن) ، سلیمان بن یسار (مصنف ابن ابی شیبه ۲ /۲۱۲، مصنف عبدالرزاق: ۳۱۷/۱، وسنده صحيح) ، عطاء بن ابی رباح (مصنف عبدالرزاق: ۳۱٦/۱ ، وستده صحیح) ، سعید بن مسیب (مصنف عبدالرزاق : /٣٦، وسنده صحيح) ، امام احمد بن حنبل (مسائل احمد لأبی داؤد: ٢٥) ، ابن المنذر (الأوسط: ۱۲) اور امام ابوعبید وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔

تنبيه :

❀ امام زہرى (مؤطا امام مالك، وسنده) ،مجاہد (دارمی: ۹۹۲ ، وسنده صحيح)، عکرمہ (دارمی: ٩٦٣، وسنده صحیح) ، بكر بن عبد الله المزفي (دارمی: ٩٦٧، وسنده صـحیح)، قتاده (مصنف عبدالرزاق: ۳۱۹۷۱، وسنده صحيح) کا مذہب ہے کہ حاملہ کو حیض آ سکتا ہے، واضح رہے کہ یہ بے دلیل مذہب ہے ۔

الحاصل :

حاملہ عورت کو حیض نہیں آسکتا، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے طلاق کی بحث میں غیر حاملہ کی عدت تین حیض بیان کی ہے جبکہ حاملہ کی وضع حمل ،اگر حاملہ کو بھی حیض آسکتا ہوتا ،تو اس کی عدت بھی تین حیض مقرر کر دی جاتی ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!