صلاۃ الضحیٰ کے فضائل و مسائل
اسلام میں نماز کی جو قدر و قیمت اور اہمیت ہے وہ کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ نماز درجات کی بلندی، گناہوں کی معافی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔
(وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب)
(اور سجدہ کر اور بہت قریب ہوجا)
اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ان نمازوں کو اخلاص کے ساتھ ادا کرنے والوں کے لیے مغفرت اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی ادائیگی پر بھی بہت سے انعامات کے وعدے فرمائے گئے ہیں۔ نفل نمازوں میں سنن رتبہ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں صلوۃ الضحیٰ، قیام اللیل (تہجد کی نماز ) ، صلوٰۃ الوضوء ( تحيتہ الوضوء) صلوٰة المسجد (تحيتہ المسجد)، صلوۃ الاستخارہ ، صلوۃ التسبیح اور دیگر نوافل کو اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت حاصل ہے۔
اس مضمون میں صلوۃ الضحیٰ کے سلسلہ کے کچھ دلائل ذکر کیے جا رہے ہیں اور اس سلسلہ کی احادیث کو اس مضمون میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تا کہ قارئین کرام کو اس نماز کے سلسلہ کی معلومات فراہم کر دی جائیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اے اللہ! تمام اہل اسلام کو فرض نمازوں کے علاوہ ان نوافل کو بھی پابندی سے ادا کرنے کی توفیق نصیب فرما۔ (آمین)
الضحیٰ کا لغوی معنی:
امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:
الضحیٰ کے اصل معنی:
دھوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحًیٰ کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
(وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ﴾
(الشمس: 1)
’’سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔“
(اِلَّا عَشِیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا)
(النازعات: 46)
’’ ایک شام یا اس کی صبح ۔“
(وَ الضُّحٰى وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰى )
( والضحىٰ: 1-2)
’’ آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی جب وہ چھا جائے۔“
( وَ اَخْرَ جَ ضُحٰىهَا﴾
(النازعات: 29)
’’اور اس کی روشنی نکالی۔“
(وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى)
(طٰهٰ: 59)
’’اور یہ کہ لوگ اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہو جائیں ۔“
ضَحِيَ يَضْحىٰ شمس یعنی دھوپ کے سامنے آنا۔ قرآن میں ہے کہ:
(وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى )
(طٰهٰ: 119)
’’اور یہ کہ ( تم جنت میں ) نہ پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ کھاؤ گے۔“
(مفردات القرآن (اردو ) ج 2 ، ص 607، طبع مکتبہ شیخ شمس الحق لاہور )
سید عبدالدائم الجلالی صاحب رقم طراز ہیں:
ضحٰی :
وقت چاشت، دن چڑھے، وہ وقت جب کہ دھوپ چڑھ جائے۔ ضحیٰ کے معنی دھوپ کے پھیلنے اور دن کے چڑھنے کے ہیں، نیز اس وقت کو بھی ضحیٰ کہتے ہیں۔ ابن خالو یہ لغوی لکھتے ہیں:
”ضحیٰ مقصور ہے مثل ھدیٰ کے اور ضحیٰ مونث ہے اس کی تصغیر ضُحَيَّةٌ ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس کی تصغیر ضحیٰ کے بغیر ہا کے تا کہ اس کی تصغیر ضحوۃ ہی تصغیر کے مشابہ نہ ہو اور ضحیٰ کے معنی دن چڑھے کے ہیں۔
(مکمل لغات القرآن مع فہرست الفاظ : ص54، ج4، طبع دینی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
صلاة الضحىٰ:
سورج کے طلوع ہونے کے بعد جب قدر بلند ہو جائے اور زوال سے پہلے تک کے وقت کو ضحیٰ کہا جاتا ہے اور اس دوران میں جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے ’’صلوۃ الضحیٰ ‘‘ کہا جاتا ہے۔
صلاۃ الاشراق اور صلاۃ الاوابین بھی اسی نماز کے نام ہیں۔ اس کی دو رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں، چار بھی اور آٹھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
صلوٰۃ الضحیٰ کے فضائل:
➊ سید نا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهى عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ ، وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَان يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحى .))
” تم میں سے ہر ایک پر اس کے تمام جوڑوں کا صدقہ کرنا ضروری ہے، ہر قسم کی تسبیح ( سبحان اللہ کہنا) ایک صدقہ ہے، ہر قسم کی حمد ایک صدقہ ہے، ہر مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، نیکی کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے، برائی سے روکنا ایک صدقہ ہے، اور جو شخص ضحیٰ کی دو رکعتیں پڑھ لیتا ہے تو وہ اس کے لیے ( تمام جوڑوں کی طرف سے ) کافی ہو جاتی ہیں۔“
(صحیح مسلم : 720 ، مسند احمد ، ح: 21475، یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے البتہ اس میں نماز کی تعداد دو ہی رکعت بیان ہوئی ہے۔ دیکھئے سنن ابوداود، ح:1285 ، 1286 ، مسند احمد: 178/5 ، السنن الكبرى للنسائي، ح: 9028)
➋ سیدنا بریدهؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((فِي الْإِنْسَانِ ثَلْثُ مِائَةٍ وَسِتُّوْنَ مَفْصِلًا، فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلَّ مَفْصِلٍ مِّنْهُ بِصَدَقَةٍ))
انسان میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اور ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا اس پر لازم ہے۔ صحابہ نے عرض کیا:
اللہ کے نبی! اتنی طاقت کون رکھتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
((النُّخَاعَةُ فِى الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا ، وَالشَّيْءَ تُنَجِّيْهِ عَنِ الطَّرِيقِ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَكْعَتَا الضُّحى تُجْزِئُكَ .))
’’«مسجد سے بلغم کو صاف کر دینا، راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا (صدقہ ہے ) پس! اگر تو ( کوئی چیز ) نہ پائے تو ضحیٰ کی دو رکعتیں تیرے لیے کافی ہیں۔‘‘
(سنن ابی داود: 5242 ، وقال الاستاد حافظ زبیر علی زئى :اسناده حسن)
➌ سیدنا ابودرداء یا سیدنا ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((ابْنَ آدَمَ! ارْتَعْ لِى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَكْفِكَ آخِرَهُ.))
”اے ابن آدم! دن کے اول وقت میرے لیے چار رکعتیں پڑھ ، تو میں تجھے دن کے آخر وقت تک کافی ہو جاؤں گا ۔“
(جــامـع الترمذي : 475- وقال الاستاذ زبیر علی زئی رحمه الله: صحیح)
یہ حدیث سیدنا عقبہ بن عامر الجہنیؓ (مسند احمد : 153/4 وســنــده صحيح) ابومرة الطائيؓ ( مسند احمد : 287/5 و سنده صحیح) اور نعیم بن ھارؓ ( مسند احمد : 287/5 وسندہ صحیح) سے بھی مروی ہے۔
➍ سیدنا ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِ الْمُحْرِمِ ، ومن خَرَجَ إِلى تَسْبِيحَ الضُّحى لَا يُنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ وَصَلَاةٌ عَلى إِثْرِ صَلَاةٍ لَا لَغَوِّ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِينَ .))
”جو شخص باوضو ہو کر فرض نماز کے لیے اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے تو اس کا اجر احرام باندھے حاجی کے اجر کی طرح ہے اور جو شخص صرف نماز چاشت کے لیے روانہ ہوتا ہے اس کے لیے عمرہ ادا کرنے والے کی مثل اجر ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھنا کہ ان کے درمیان کوئی لغو بات نہ ہو تو اس کا عمل علمین میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
(سنن ابوداود: 558 واسنادہ حسن)
➎ سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (جہاد کے لیے) روانہ فرمایا۔ پس وہ بہت بڑا مال غنیمت لے کر لوٹے اور وہ اپنی مہم سے بھی بہت جلد واپس آگئے ۔ تو ایک شخص نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! ہم نے کوئی ایسا لشکر کبھی نہیں دیکھا کہ جو جہاد سے اس لشکر کے علاوہ جلد واپس آ گیا ہو۔ اور اتنا بڑا مال غنیمت بھی لے کر لوٹا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((أَلا أُخْبِرُكُمْ بِأَسْرَعَ كَرَّهُ مِنْهُ ، وَأَعْظَمَ غَنِيْمَةٌ رَجُلٌ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ فَأَحْسَنَ وُضُوء. ثُمَّ تَحَمَّلَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيهِ الْغَدَاةَ ، ثُمَّ عَقَبَ بِصَلَاةِ الصَّحْوَةِ فَقَدْ أَسْرَعَ الْكَرَّةَ وَأَعْظَمَ الْغَنِيمَةَ))
"کیا میں تمھیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے واپس آنے والا اور عظیم مال غنیمت لانے والا ( عمل ) نہ بتاؤں؟
جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے اور احسن طریقے سے وضو کرے پھر وہ مسجد کی طرف چل پڑے اور وہاں صبح کی نماز ادا کرے اور پھر اس کے بعد ( جب سورج طلوع ہو کر بلند ہو جائے تو وہ ) نماز ضحیٰ ادا کرے تو یہی وہ شخص ہے کہ جس کا عمل بہت جلد واپس آنے والے اور عظیم مال غنیمت لانے والے (لشکر) سے بھی بڑھ کر ہے ۔ “
(مسند ابویعلی: 6559- وقال الهيثمي في المجمع (408/2) رواه ابویعلی ورجاله رجال الصحيح – قلت: و اسناده صحیح)
کسی لشکر کا جہاد کے لیے جانا اور بے انتہا مال غنیمت لے کر بہت ہی جلد واپس آ جانا ان باتوں نے صحابہ کرامؓ ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا، اس موقع پر نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو بتایا کہ اگر کوئی شخص ضحیٰ کی نماز کا اہتمام کرے تو یہی ایسا شخص ہے کہ گویا اس نے عظیم مال غنیمت اور جلد واپس آنے والے لشکر سے بھی زیادہ اجر و ثواب حاصل کر لیا ہے اور اس اجر وثواب کا مقابلہ دنیا کا مال و دولت بالکل نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوا کہ ضحیٰ کی نماز کی ادائیگی سے انسان اجر وثواب سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
➏ عمرو بن عبسہ سلمیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((صَلَّ صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ ….. ثُمَّ صَلَّ ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ . ))
’’ صبح کی نماز پڑھ پھر نماز پڑھنے سے رک جاتی کہ سورج طلوع ہو جائے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے … پھر نماز (چاشت) پڑھ، کیوں کہ اس وقت کی نماز کی گواہی کراماً کاتبین دیں گے اور فرشتے حاضر ہوں گے ۔“
(صحیح مسلم: 832)
➐ سید نا زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو نماز چاشت پڑھتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے فرمایا:
انھیں علم ہے کہ اس وقت کے علاوہ نماز (چاشت) پڑھنا افضل ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
((صَلوةُ الأَوَّابِينَ حِيْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ .))
” صَلوةُ الأَوَّابِينَ کا وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں ( شدت حرارت سے ریت گرم ہو جانے کی وجہ سے ) گرمی محسوس کریں ۔“
(صحیح مسلم : 748)
اس حدیث میں صلاۃ الضحیٰ کو ’’ صلاۃ الاوابین“ کہا گیا ہے یعنی ’’اللہ کی طرف بہت ہی زیادہ رجوع کرنے والوں کی نماز۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ نماز بہت ہی زیادہ فضیلت والی ہے۔
➑ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((لا يُحَافِظُ عَلى صَلَاةِ الضُّحى إِلَّا اَوَّابٌ))
چاشت کی نماز کی محافظت صرف اواب ( اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والا) ہی کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا:
((هِيَ صَلوةُ الا وَّابِينَ .))
’’ یہی ( نماز ) صلاۃ الاوابین ہے ۔“
(صحيح ابن خزيمة: 1224، مستدرك حاكم: 314/1)
امام حاکمؒ اور امام ذہبیؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح علی شرط مسلم“ کہا ہے اورعلامہ البانیؒ نے حسن قرار دیا ہے۔
(الصحيحة ، ح: 703 ، 1994)
➒ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی جنھیں میں کبھی چھوڑنے والا نہیں ہوں:
➊ سونے سے پہلے وتر کی نماز ادا کرنا۔ اور
➋ چاشت کی دو رکعتیں، انھیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا کیوں کہ یہ صلاۃالاوابین ہے،
➌ اور ہر ماہ میں تین روزے رکھنا۔
(صحیح ابن خزیمة : 1223)
اس حدیث کا ایک راوی سلیمان ابی سلیمان الہاشمی ہے جسے حافظ ابن حجر نے مقبول کہا ہے۔ لیکن ہماری تحقیق میں یہ راوی حسن الحدیث ہے۔ امام ابن حبان نے اسے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے اور امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔
ایک غلط فہمی کی وضاحت:
بعض لوگوں نے مغرب کے بعد کے نوافل کے لیے ’’ صلوٰۃ الاوابین“ کا نام استعمال کر رکھا ہے، جب کہ مغرب کے بعد کے نوافل کا یہ نام کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ نیز مغرب کے بعد نوافل پڑھنے والی تمام روایات موضوع وضعیف ہیں۔ البتہ صحیح ابن خزیمہ میں ایک روایت ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”سید نا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز مغرب ادا کی، پھر آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ نے نماز عشاء ادا فرمائی۔“
(صحيح ابن خزيمة : 1194 وسنده حسن)
اس حدیث میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے مغرب سے عشاء تک کتنی رکعات ادا فرمائیں ، صرف یہ ہے کہ آپ نے نماز پڑھی۔ امام ابن خزیمہؒ کی تبویب سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس دوران میں کچھ نوافل ادا فرمائے ۔ اور امام موصوف نے سیدنا حذیفہؓ کی روایت کے بعد سیدنا ابو ہریرہؓ کی بھی ایک روایت نقل کی ہے لیکن اس روایت کا ایک راوی یحییٰ بن ابی کثیر الطائی، ابونصر الیمانیؒ ہے جس کے متعلق حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
ثقة ، ثبت ، لكنه يدلس ويرسل ۔
آپ ثقہ، ثبت راوی ہیں لیکن آپ تدلیس اور ارسال کیا کرتے تھے۔ (تقریب: 8597) مدلس راوی کے متعلق یہ قاعدہ وقانون ہے کہ جب وہ اپنی بیان کردہ روایت میں سماع کی تصریح کرے تو وہ روایت صحیح ہوتی ہے اور جس روایت کو وہ عن سے بیان کرے اور سماع کی تصریح نہ کرے تو ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس روایت میں یحییٰ ابن ابی کثیر نے سماع کی تصریح نہیں کی علاوہ ازیں اس میں عمر بن ابی شعم ضعیف ہے۔ ان علتوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف روایت حجت و دلیل کا مقام نہیں رکھتی لہٰذا ایسی روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔
اس روایت کو غالباً امام موصوف نے حذیفہؓ کی روایت کی وضاحت، تشریح اور تقویت کے لیے بیان کیا ہے تاکہ ان کے قائم کردہ باب میں وزن پیدا ہو جائے۔ سیدنا حذیفہؓ کی روایت کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’سید نا عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کے بعد کی دو رکعتوں میں قراءت لمبی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ نمازی چلے جاتے تھے ۔
(سنن ابو داود : 1301 ، واسناده حسن)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حذیفہ کی حدیث میں مغرب وعشاء کے درمیان جس نماز کا ذکر کیا گیا ہے وہ مغرب کی دوسنتیں ہی ہیں کہ جن میں آپ لمبی قراءت کیا کرتے تھے۔ نماز مغرب کے بعد کی نماز کے سلسلہ میں ایک مزید مثال اور اس کی وضاحت دوسری احادیث ملاحظہ فرمائیں تا کہ یہ مسئلہ بالکل بے غبار ہو جائے۔
سیدنا کعب بن عجرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ بنو عبد الاشہل قبیلے کی مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے وہاں مغرب کی نماز ادا فرمائی نماز کے بعد آپ نے ان کو دیکھا ((يُسَبِّحُونَ بَعْدَهَا)) وہ اس کے بعد نفل پڑھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا:
((هَذِهِ صَلَاةُ الْبُيُوتِ))
’’ یہ گھروں میں پڑھی جانے والی نماز ہے۔(انھیں گھروں میں ادا کیا کرو)۔“
(ابوداود: 1300 ، ترمذی: 604 ، والنسائی: 1601، اسناده حسن)
اس حدیث میں مغرب کے بعد کی سنتوں کے لیے’’ يُسَبِّحُونَ “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے شبہہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہاں دو سے زیادہ رکعات مراد ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ الفاظ صرف مغرب کی دوسنتوں ہی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ جیسا کہ روایات کے عموم سے بھی یہ واضح ہوتا ہے۔
نیز صحابہ کرامؓ مغرب کے بعد کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرنے لگے تھے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ ان سنتوں کو گھروں میں ادا کیا کرو۔ نبی ﷺ کی یہ عادت مبارک تھی آپ سنتوں کو گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ مغرب کی دوسنتیں بھی گھر ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ اور دوسنتوں سے زیادہ پڑھنا کسی بھی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے بلکہ صحیح احادیث میں صرف دوسنتوں ہی کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے کی بعض احادیث کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
➊ سیدہ ام حبیبہؓ کی روایت
(صحیح مسلم: 729/103 ، ترمذی: 415)
➋ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت
(صحیح بخاری: 1180، 1181، مسلم:729)
➌ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی روایت
(صحیح مسلم: 730 ، ابوداود: 1251)
➍ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت
(ابو داود : 1301)
رسول اللہ ﷺ کا نماز فجر کے بعد کا معمول:
” سیدنا جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج اچھی طرح سے طلوع ہو جاتا۔“
(صحیح مسلم : 670)
’’سیدنا جابر بن سمرہؓ بیان کرتے ہیں جب نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھتے تو سورج کے اچھی طرح طلوع ہو جانے تک آلتی پالتی مار کر (چارزانوں ہو کر) اپنی جگہ بیٹھے ہتے ۔“
(صحیح مسلم : 670- ابوداؤد : 4852)
’’سماک بن حربؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہؓ سے پوچھا کہ کیا آپ رسول اللہ ﷺ سے مجلس کیا کرتے تھے؟
انھوں نے فرمایا:
جی ہاں، بہت زیادہ۔ آپ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو آپ اپنی نماز کی جگہ سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جاتا۔ پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو آپ کھڑے ہو جاتے اور صحابہ کرامؓ اس دوران میں دور جاہلیت کی باتوں کو بیان کر کے ہنستے تھے اور نبی ﷺ مسکراتے تھے۔
(صحیح مسلم : 2322)
جامع الترمذی کی روایت میں سیدنا جابر بن سمرہ ہی یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی مجلسوں میں سو مرتبہ سے بھی زیادہ شریک رہا ہوں ۔ پس صحابہ کرام ؓ آپ کے سامنے امور جاہلیت کے متعلق اشعار پڑھتے اور اس پر گفتگو کرتے تھے اور آپ خاموش رہتے اور کبھی تبسم فرماتے ۔
(جامع ترمذی : 2859)
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یا نماز فجر کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک اپنی جائے نماز پر تشریف فرما رہتے اور جب سورج اچھی طرح طلوع ہو جاتا تو آپ اپنی جائے نماز سے کھڑے ہو جاتے ۔
صلاۃ الضحیٰ کا وقت اور تعداد :
صلاة الضحیٰ کا ابتدائی وقت وہ ہے کہ جب سورج طلوع ہونے کے بعد قدر بلند ہو جائے۔
’’ سعید بن نافع تابعیؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابو بشیر انصاری دلیلن نے اس وقت ’’صلاۃ الضحیٰ‘‘ پڑھتے ہوئے دیکھا کہ جب سورج طلوع ہو رہا تھا، تو انھوں نے مجھے ٹو کا اور مجھے ایسے وقت میں نماز پڑھنے سے منع کیا اور پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَا تُصَلُّوْا حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ فِي قرْنَى الشَّيْطَان))
جس وقت سورج طلوع ہو رہا ہو تو اس وقت نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے کیوں کہ وہ (سورج) شیطان کے دوسینگوں کے درمیان میں طلوع ہوتا ہے ۔“
(مسند احمد: 217/5 و اسناده حسن)
امام ابن شاہینؒ اور امام ابن حبانؒ نے سعید بن نافع انصاریؒ کو ثقات میں ذکر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ وہ اہل مدینہ کے ہم پلہ ( برابر) تھے۔
(تــاريــخ اسـمـاء الثقات : 446، الثقات: 196/4)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ کا ابتدائی وقت سورج کے طلوع ہونے کے بعد قدر بلند ہو جانے پر ہے۔
’’عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے علی (ابن ابی طالبؓ) سے رسول اللہ ﷺ کی دن کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:
تم اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ہم نے کہا:
جو شخص اس کی طاقت رکھے گا وہ پڑھ لے گا۔ تو انھوں نے فرمایا:
جس وقت مشرق میں سورج اس طرح ہوتا جس طرح کہ عصر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے تو آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دورکعتیں اس کے بعد پڑھتے اور چار رکعات عصر سے پہلے بھی پڑھتے تھے، ہر دو رکعتوں میں مقرب فرشتوں، انبیاء اور مومنین ومسلمین میں سے متبعین انبیاء پر سلام پہلے جدائی ڈالتے تھے۔(یعنی دو دو رکعتیں الگ الگ پڑھتے تھے )
(شمائل ترمذی 286 سنن ترمذی ، ح : 599 وقال حديث حسن ، سنن نسائی : 875 وقال الشيخ حافظ زبیر علی زئی : وسنده حسن)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چاشت کی نماز کا وقت وہ ہے کہ جب سورج مشرق کی طرف اس طرح ہو جس طرح کہ عصر کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے۔ اور گذشتہ صفحات میں سیدنا زید بن ارقمؓ کی روایت گزر چکی ہے جس میں چاشت کی نماز کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں شدت حرارت سے ریت کے گرم ہو جانے کی وجہ سے ) سخت گرمی محسوس کرتے ہوں۔ بہر حال سورج طلوع ہونے کے بعد جب وہ قدر بلند ہو جائے سے لے کر زوال سے پہلے تک کا وقت صلاۃ الضحیٰ کا وقت ہے۔ اس دوران میں کسی بھی وقت اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
چاشت کی نماز کی تعداد:
چاشت کی نماز کی کم از کم تعداد دو رکعت ہے اور اس سلسلہ کی بعض احادیث کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور بعض کو یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں:
” مجھے میرے خلیل ابو القاسم(ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے:
➊ ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی ،
➋ چاشت کی دو رکعت پڑھنے کی۔
➌ اور سونے سے قبل وتر پڑھ لینے کی ۔“
(صحیح مسلم : 721، صحیح البخاری: 1981 ، 1178)
صحیح البخاری میں ہے:
” مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی جنھیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ مجھے موت آجائے ۔‘
(1178)
’’ سید نا ابو درداءؓ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب (ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی۔ میں جب تک زندہ رہا انھیں کبھی بھی ترک نہیں کروں گا:
➊ ہر مہینے میں تین روزے۔
➋ چاشت کی نماز
➌ اور وتر پڑھے بغیر نہ سونا ۔“
(صحیح مسلم: 722 )
’’سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے جو بہت موٹے آدمی تھے، رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا ( مجھ کو گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دیجیے ) انھوں نے اپنے گھر نبی ﷺ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر بلایا اور چٹائی کے کنارے کو آپ کے لیے پانی سے صاف کیا، آپ نے اس پر دو رکعت نماز پڑھی۔ فلان بن فلان بن الجارود نے سیدنا انسؓ سے پوچھا کہ کیا نبی ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟
تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے اس روز کے علاوہ آپ کو کبھی بھی یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
(صحیح البخاری : 670، 1179- 6080)
سیدنا محمود بن الربیعؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عتبان بن مالک انصاریؓ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک تھے وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا میرے (گھر) اور قوم کی مسجد کے بیچ میں ایک نالہ تھا اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کو پار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ تشریف لا کر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمھاری یہ خواہش جلد ہی پوری کروں گا ۔“ پھر دوسرے ہی دن آپ ﷺ سیدنا ابوبکر بھی ان کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ ﷺ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کرو گے؟
میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔“
(صحیح البخاری : 1186)
چاشت کی چار رکعتیں:
⓱ ’’معاذہؒ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ رسول الله ﷺ چاشت کی نماز کتنی رکعات پڑھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:
چار رکعت ( پڑھتے تھے ) اور جب اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔“
(صحیح مسلم : 719)
چاشت کی آٹھ رکعتیں:
عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰؒ ( ثقہ تابعی ) کہتے ہیں کہ مجھے ام ہانیؓ کے سوا کسی نے بھی نہیں بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کو نماز چاشت پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اس (ام ہانیؓ ) نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر میں فتح مکہ والے دن داخل ہوئے تو غسل فرمایا، پھر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نے اتنی مختصر نماز پڑھتے ہوئے آپ کو اس کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا، سوائے یہ کہ آپ رکوع اور سجود پوری طرح ادا فرما رہے تھے۔
(شمائل ترمذی : 289 سنن ترمذی: 474 ، صحيح مسلم: 336 ،صحيح البخاري: 1176)
امام نوویؒ صحیح مسلم پرصلاۃ الضحیٰ کا باب قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
چاشت کی نماز کی کم از کم تعداد دو رکعات ہے اور مکمل تعداد آٹھ رکعات ہیں اور درمیانہ تعداد چار یا چھ رکعات ہیں۔
(صحیح مسلم، قبل حدیث: 1660)
سفر میں صلوٰۃ الضحیٰ :
’’سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے سفر میں صلوۃ الضحیٰ کی آٹھ رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘
(مسند احمد : 146/3، 156 وسنده حسن۔ ضحاک بن عبد اللہ حسن الحدیث ہے۔)
سفر سے واپسی پر صلوۃ الضحیٰ:
عبد الله بن شقیقؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا:
” کیا نبی ﷺ صلوۃ ضحیٰ پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:
نہیں، الا یہ کہ جب آپ سفر سے واپس آتے تو پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم : 717، شمائل ترمذی : 290)
اس حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے چاشت کی نماز کی نفی فرما رہی ہیں البتہ وہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ گویا انھوں نے نبی ﷺ کو جو عمل کرتے ہوئے دیکھا اسے بیان کر دیا۔ صحیح مسلم کی حدیث (716) جو پیچھے گزر چکی ہے اس میں سیدہ عائشہؓ کا فرمان ہے کہ نبی ﷺ چار رکعات چاشت کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور چار سے زیادہ بھی جتنی اللہ چاہتا ادا فرما لیا کرتے تھے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ انھیں بعد میں اس بات کی اطلاع ملی تھی تو انھوں نے اس حقیقت کو بیان کر دیا۔
سید نا کعب بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب چاشت کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے تو مسجد میں داخل ہوتے اور بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں ادا فرماتے ۔“
(صحیح البخاری : 3088۔ صحیح مسلم : 716)
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ اس وقت (سفر سے واپسی پر ) مسجد میں تشریف فرما تھے۔ چاشت کا وقت تھا۔ پس آپ نے فرمایا:
((صَلّ رَكْعَتَيْنِ))
’’دو رکعت ادا کرلو۔“
اور نبی ﷺ پر میرا کچھ قرض تھا چنانچہ آپ نے وہ قرض ادا کیا اور کچھ زیادہ ہی دیا۔
(صحیح البخاری : 443۔ صحیح مسلم : 715)
سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ آپ سفر کے لیے روانہ ہوتے اور یا سفر سے واپس تشریف لاتے۔ ( تب آپ صلاۃ الضحیٰ ادا فرماتے تھے )
(مســـنـــد احـــمـــد :132/3، وسنده حسن)
سیدہ عائشہؓ کے موقف کی وضاحت:
عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں، سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک کام کو چھوڑ دیتے تھے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا تھا اور اسے اس خیال سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ آپ کو جب یہ عمل کرتا دیکھیں گے تو وہ بھی عمل کرنا شروع کر دیں گے اور اس طرح وہ عمل ان پر فرض ہو جائے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی اور بے شک میں یہ نماز پڑھتی ہوں۔ (صحیح البخاري : 1128، صحيح مسلم : 1662)
اور ایک روایت میں فرماتی ہیں:
((مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا .))
میں نے رسول اللہ ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور البتہ میں یہ نماز پڑھتی ہوں ۔
(صحیح البخاری : 1177 ، صحیح مسلم : 1662)
سُبْحَة کی جمع سُبح ہے اور اس کا مطلب دعاء ذکر اور نفل نماز ہے۔ (بیان اللسان ، ص : 353)
حافظ ابن عبد البر الاندلسیؒ موطا کی شرح ’’التمهید“ میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” اما قولها : ما سبح سبحة الضحى، فمعناه، ما صلى صلاة الضحى، قال الله عز وجل: (فلولا انه كان من المسبحين)
(الصافات : 143)
قال المفسرون: من المصلين الا ان اهل العلم لا يوقعون اسم سبحة الاعلى النافلة، دون الفريضة لقوله ﷺ واجعلوا صلاتكم معهم سبحة ، اى نافلة .
(أخرجه احمد : 455/1 عن ابن مسعود والطبراني في الكبير : 161/10 عن ابن مسعود، صحیح مسلم : 534/26)
سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی اللہ عز وجل کا فرمان ہے:
اگر (سیدنا یونسؑ) تسبیح یعنی نماز پڑھنے والے نہ ہوتے تو وہ قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے۔
(الصافات: 43)
مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ نماز پڑھنے والے اور اہل علم کے نزدیک سُبحَة کا اطلاق نوافل پر ہوتا ہے۔ فرض نماز پر نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
”اپنی نمازوں کے ساتھ سبحة یعنی نوافل کا بھی اہتمام کیا کرو۔‘‘ (فتح المالك تبويب ’’التمهيد‘‘ 160/3 طبع دار الكتب العلمية بيروت) سبحة کے الفاظ قرآن کریم میں رات کی نماز کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
(دیکھئے: الدهر : 26 ، ق : 40، الطور : 49)
چاشت کی نماز نبی ﷺ سے پڑھنا ثابت ہے۔ البتہ آپ اسے مسلسل نہیں پڑھتے تھے۔ اب جب صحابہ کرامؓ نے آپ کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اسے بیان کر دیا اور جنھوں نے نہیں دیکھا تو انھوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور اس نماز کو مسلسل نہ پڑھنے کی وجہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ کہیں لوگوں کے ذوق و شوق کو دیکھ کر یہ نماز ان پر فرض ہی نہ کر دی جائے۔ اسی طرح کا ایک عمل آپ کا نماز تراویح کے متعلق بھی بیان ہوا ہے کہ آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں ایک مرتبہ دو راتوں تک لوگوں کو باجماعت نماز تراویح پڑھائی اور تیسرے دن جب آپ کی نماز تراویح کا چرچا ہوا تو صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت نماز تراویح میں شریک ہونے کے لیے جمع ہوگئی تھی تو آپ ﷺ تراویح پڑھانے کے لیے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور پھر آپ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ مجھے تمھارے اس ذوق و شوق کو دیکھ کر خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ کر دی جائے۔ لیکن نبی ﷺ کی وفات کے بعد یہ خدشہ ختم ہو گیا اور اب اگر کوئی اس عمل کو ہمیشہ کرتا رہے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سید نا عمر فاروقؓ نے اسے جاری و ساری کروا دیا کیوں کہ اس کے فرض ہو جانے کا خدشہ اب باقی نہیں رہا تھا۔ الشیخ شعیب الارناؤوط رقم طراز ہیں:
قال السندي: قولها: ما داوم، او قالته بحسب علمها، وقد جاء عنها الاثبات احيانا، فلعلها علمت بذلك من غيرها بعد هذا۔
(مسند الامام احمد بن حنبل مع الموسوعة : 102/41، تحت حدیث : 2455)
الشیخ السندی نے کہا:
سیدہؓ کا قول ہے کہ آپ نے صلاۃ الضحیٰ نہیں پڑھی یعنی آپ نے اس پر دوام نہیں کہا یا انھوں نے اپنے علم کے مطابق یہ بات بیان فرمائی تھی اور ان سے کبھی اس کا اثبات بھی ثابت ہے۔ غالباً اس کے بعد انھیں اس بات کا علم ہوا کہ آپ نے صلاۃ الضحیٰی ادا فرمائی تھی ۔
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ کے موقف کی وضاحت:
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے بھی اس نماز سے لاعلمی کا اظہار فرمایا ہے۔ دیکھئے (صحيح البخاری : 1175) بلکہ انھوں نے اس نماز کے اہتمام کو بدعت قرار دیا ہے۔ دیکھئے (صحیح البخاری : 1775 ، صحیح مسلم : 3036)
حافظ ابن حجر العسقلانیؒ نے اس موضوع پر جو بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عمرؓ سفر میں سنتیں ادا کرنے کے جواز کے قائل نہیں تھے اور نہ وہ چاشت کی نماز کے قائل تھے۔
قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ ابن عمرؓ نے نماز چاشت کو لازم قرار دینے اور مساجد میں اسے ظاہر کر کے پڑھنے اور باجماعت ادا کرنے کا انکار کیا ہے۔ کیوں کہ یہ سنت کی مخالفت ہے اور ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ایک قوم کو چاشت کی نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کا انکار کیا اور فرمایا کہ اگر اسے پڑھنا ہی ہے تو گھروں میں ادا کرو۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
(فتح الباری شرح صحیح البخاری : 52/3، 53 تحت حديث : 1175 – مسند الامام احمد بن حنبل، ج 276/10، 277، تحقيق و تخريج الشيخ شعيب الأرناؤوط واصحابه طبع مؤسسة الرساله)