شکاری کتے کی خرید و فروخت بھی ممنوع ہے
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث حضرو

سوال:

احادیث میں شکاری کتا رکھنے کی اجازت ہے۔ کیا جن کتوں کو رکھا جا سکتا ہے ان کی خرید و فروخت بھی جائز ہے؟

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے، نیز شکاری کتا رکھنے کی اجازت دی ہے۔

دیکھئے صحیح مسلم (1575) وغیرہ لیکن ان کی خرید و فروخت بغیر کسی استثنا کے مطلقاً ممنوع قرار دی ہے۔

رسول الله ﷺ نے فرمایا:

(( لاَ يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ …..))

’’کتے کی قیمت حلال نہیں ہے۔ ‘‘

(سنن أبي داود : 3484، سنن النسائي:4298 وسنده حسن)

سیدنا ابو جحیفہؓ نے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔

(سنن أبي داود: 3483 وسنده صحيح)

سیدنا ابو مسعود انصاریؒ کا بیان ہے :

أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَ مَهْرِ الْبَغِيِّ وَ حُلْوَانِ الْكَاهِنِ

یقیناً رسول الله ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی اجرت اور کاہن کے نذرانے سے منع فرمایا ہے۔

(صحيح البخاري: 2237، صحیح مسلم: 1567)

مذکورہ احادیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر قسم کے کتے کی قیمت حرام ہے، البتہ بعض روایات میں شکاری کتے کی خرید و فروخت سے متعلق رخصت ہے لیکن وہ تمام روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف اور غیر ثابت ہیں۔ درج ذیل سطور میں ہم ترتیب واران کا جائزہ لیتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُوْ كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ” نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ إِلا كَلْبَ الصَّيْدِ

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا:

شکاری کتے کے علاوہ کتے کی قیمت ممنوع ہے۔

(سنن الترمذي: 1281)

اس روایت کی سند میں ابوالمہزم یزید بن سفیان متروک ہے۔

(التقريب : 8397)

جمہور محدثین نے اسے ضعیف و متروک ہی قرار دیا ہے، نیز امام ترمذیؒ نے فرمايا:

’’ هَذَا حَدِيثُ لَا يَصِحُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

لہٰذا اس روایت سے استثنا کا استدلال مردود ہے۔

عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ : ’’نَهَى عَنْ ثَمَنِ السِّنَّورِ وَ الْكَلْبِ الأَكَلْبَ صَيْدٍ۔‘‘

(شرح مشكل الآثار للطحاوي ،4/58 ‘ 12/83 واللفظ له، سنن الدارقطني 3/27 ح 3089،3068،3065،3067 ، السنن الكبرى للبيهقي 6/11، مسند أبي يعلىٰ 3/427 ح 1919، مصنف ابن أبي شيبة : 20910، مسند أحمد 3/317 ح 14451)

اس روایت کی سند میں بنیادی راوی ابو الزبیر ہیں جو کہ ثقہ و صدوق ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست مدلس بھی ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی صراحت نہیں کی، لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔

حافظ ابن حبان نے فرمایا:

’’ هَذَا الْخَبَرُ بِهَذَا اللفظ لَا أَصَلَ لَهُ‘‘

(المجروحين 1/237)

امام نسائی نے اسے منکر قرار دیا ہے۔

دیکھئے سنن النسائي (4668)

➌ یہی روایت السنن الكبرىٰ للبيهقى ( 10/6) میں ایک دوسری سند سے مروی ہے جس کے بارے میں امام بیھقیؓ نے خاص جرح کر رکھی ہے۔ آپ نے فرمايا:

’’ وَرِوَايَةُ حَمَّادٍ عَنْ قَيْسٍ فِيْهَا نَظَر۔

یعنی یہاں خاص حماد کی قیس سے روایت میں نظر ہے۔ نیز فرماتے ہیں:

’’الأَحَادِيْثُ الصِّحَاحُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، النَّهْيِ عَنْ نَمَنِ الْكَلْبِ خَالِيَّةٌ مِنْ هَذَا الْإِسْتِثْنَاءِ وَإِنَّمَا الْإِسْتِثْنَاءُ فِي الْأَحَادِيثِ الصَّحَاحِ فِي النَّهْيِ عَنِ الْإِقْتِنَاءِ وَ لَعَلَّهُ شُبِّهَ عَلَى مَنْ ذكَرَ فِي حَدِيْثِ النَّهْيِ عَنْ ثَمَنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الرُّوَاةِ الَّذِينَ هُمْ دُونَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِيْنَ، وَاللهُ أَعْلَمُ۔‘‘

کتے کی قیمت سے متعلق ممانعت والی صحیح احادیث جو نبی ﷺ سے مروی ہیں وہ اس استثنا کے بغیر ہیں ۔ صحیح احادیث میں (کتا رکھنے کے بارے میں ) جو ممانعت ہے صرف اسی میں شکاری کتے کا استثنا ہے۔ ممکن ہے صحابہ کرامؓ و تابعین کے علاوہ جن راویوں نے کتے کی قیمت سے ممانعت والی روایت بیان کی ہے ان پر (الا كَلْبَ صَيْدِ) مشتبہ ہو گیا ہو،
واللہ اعلم ۔

( السنن الكبرىٰ للبيهقي: 7/6)

علاوہ ازیں اس روایت کے مرفوع اور موقوف ہونے میں بھی اختلاف ہے۔

خلاصة التحقيق:

صحیح احادیث کی رُو سے ہر قسم کے کتے کی خرید و فروخت حرام ہے اور جن روایات میں شکاری کتے کا استثنا ہے وہ غیر ثابت ہیں۔ حافظ ابن حبانؒ فرماتے ہیں:

’’ وَ لَا يَجُوزُ ثَمَنُ الْكَلْبِ الْمُعَلَّم وَ لَا غَيْرِهِ

نہ شکاری کتے کی قیمت جائز ہے اور نہ کسی دوسرے کتے کی۔

(المجروحین: 237/1)

جمہور اہل علم کا فیصلہ بھی یہی ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے