نماز میں عورت کی امامت
تحریر : فضیلہ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ

سوال : کیا عورت عورتوں کی امامت یا عورتوں مردوں کی اکٹھی امامت کرا سکتی ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جزا کم اللہ خیراً ( چوہدری محمد اکرم گجر جلال بلگن ضلع گوجرانوالہ )
الجواب :
اس مسئلے میں علماء کرام کا اختلاف ہے کہ کیا عورت نماز میں عورتوں کی امام بن سکتی ہے یا نہیں ؟ ایک گروہ اس کے جواز کا قائل ہے۔
❀ ایک روایت میں آیا ہے کہ :
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها فى بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها و أمرها أن تؤ م اهل دارها
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان (ام ورقہ رضی اللہ عنہا) کی ملاقات کے لئے ان کے گھر جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اذان دینے کے لئے ایک مؤذن مقرر کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو ) حکم دیا تھا کہ انہیں (اپنے قبیلے یا محلے والیوں کو) نماز پڑھائیں۔ [سنن ابي داؤد، كتاب الصلوة، باب امامة النساء ح 596و عنه البيهقي فى الخلافيات قلمي ص 4 ب]
↰ یہ سند حسن ہے، اسے ابن خزیمہ [1676] اور ابن الجارود [المنتقی : 333] نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کا بنیادی راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع صدوق، حسن الحدیث ہے۔ [تحرير تقريب التهذيب : 7432]
یہ صحیح مسلم و غیرہ کا راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔
ولید کا استاد عبدالرحمن بن خلاد : ابن حبان، ابن خزیمہ اور ابن الجارود کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث ہے لہٰذا اس پر “ حالہ مجھول ’’ والی جرح مردود ہے۔
لیلی بنت مالک (ولید بن جمیع کی والدہ) کی توثیق ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے، کر دی ہے لہٰذا اس کی حدیث بھی حسن کے درجہ سے نہیں گرتی۔
اس حدیث کا مفہوم کیا ہے ؟ اس کے لئے دو اہم باتیں مدنظر رکھیں۔
اول : حدیث حدیث کی شرح و تفسیر بیان کرتی ہے، اس کے لئے حدیث کی تمام سندوں اور متون کو جمع کر کے مفہوم سمجھا جاتا ہے۔
دوم : سلف صالحین (محدثین کرام، روایانِ حدیث) نے حدیث کی جو تفسیر اور مفہوم بیان کیا ہوتا ہے اسے ہمیشہ مد نظر رکھا جاتا ہے، بشرطیکہ سلف کے مابین اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو۔
◈ ام ورقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفی 311ھ) نے درج ذیل باب باندھا ہے۔
باب إمامة المرأة النساء فى الفريضة [ صحيح ابن خزيمه3؍89ح1676 ]
◈ امام ابوبکر بن المنذر النیسا بوری رحمہ اللہ (متوفی 318ھ) فرماتے ہیں :
ذكر إمامة المرأ ة النساء فى الصلوات المكتوبة [الاوسط فى السنن و الاجماع و الاختلاف ج 4 ص 226 ]
ان دونوں محدثین کرام کی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں اهل دارها سے مراد عورتیں ہیں مرد نہیں ہیں، محدثین کرام میں اس تبویب پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
◈ امام ابوالحسن الدارقطنی رحمہ اللہ (متوفی 385ھ) فرماتے ہیں :
حدثنا أحمد بن العباس البغوي : ثنا عمر بن شبه : (ثنا) أبو أحمد الزبيري : نا الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن لها أن يؤذن لها و يقام و تؤم نساءها
’’ بے شک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہ (رضی اللہ عنہا) کو اس کی اجازت دی تھی کہ ان کے لئے اذان اور اقامت کہی جائے ا ور وہ اپنی (گھر، محلے کی) عورتوں کی (نماز میں) امامت کریں۔“ [سنن دار قطني ج 1ص279ح 1071 و سنده حسن، وعنه ابن الجوزي فى التحقيق مع التنقيح 1؍253ح424وضعفه، دوسرا نسخه 1؍313ح 387، اتحاف المهره لابن حجر 18؍323 ]
↰ اس روایت کی سند حسن ہے اور اس پر ابن الجوزی کی جرح غلط ہے۔
ابواحمد محمد بن عبداللہ بن الزبیر الزبیری صحاح ستہ کا راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہے لہٰذا صحیح الحدیث ہے۔
امام یحیی بن معین نے کہا: ثقه ، ابوزرعہ نے کہا: صدوق ، ابوحاتم رازی نے کہا: حافظ للحديث عابد مجتهد له أوهام [الجرح و التعديل7؍297 ]
عمر بن شبه : صدوق له تصانيف [تقريب التهذيب : 4918] بلکہ ثقہ ہے۔ [تحرير تقريب التهذيب 3؍75]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: ثقة [ الكاشف2؍272]
أحمد بن العباس البغوی : ثقه ہے۔ [ تاريخ بغداد4؍329ت 2144 ]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ اس صحیح روایت نے اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا کہ أهل دارها سے مراد ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر، محلے اور قبیلے کی عورتیں ہیں، مرد مراد نہیں ہیں۔
تنبیہ : اس سے معلوم ہوا کہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے ان کا مؤذن نماز نہیں پڑھتا تھا

یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کوئی پروفیسر خورشید عالم نامی [ ؟ ] لکھتے ہیں :

”یہ دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں حدیث کے الفاظ نہیں، یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں، اس لئے اس اضافے کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ “ [ اشراق 17/5 مئي 2005ص38، 39]

حالانکہ آپ نے ابھی پڑھ لیا ہے کہ یہ حدیث کے الفاظ ہیں، دار قطنی کے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے الفاظ ہیں۔ انہیں امام دار قطنی رحمہ اللہ کی ”اپنی رائے“ کہنا غلط ہے۔ جن لوگوں کو روایت اور رائے میں فرق معلوم نہیں ہے وہ کس لئے مضامین لکھ کر امت مسلمہ میں اختلاف و انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ؟ رہا یہ مسئلہ کہ یہ الفاظ سنن دار قطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ہیں تو عرض ہے کہ امام دارقطنی ثقہ و قابل اعتماد امام ہیں۔
◈ شیخ الاسلام ابوالطیب طاہر بن عبداللہ الطبری( متوفی 450ھ ) نے کہا:
كان الدار قطني أمير المؤمنين فى الحديث [ تاريخ بغداد 12/36ت 6404 ]
◈ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 363ھ) نے کہا:
وكان فريد عصره و قريع دهره و نسيج وحده و إمام وقته، انتهي إليه علم الأثر و المعرفة بعلل الحديث و أسماء الرجال و أحوال الرواة مع الصدق و الأمانة و الفقه و العدالة [و فى تاريخ دمشق عن الخطيب قال : و الثقة و العدالته، 46/47] وقبول الشهادة وصحة الإعتقاد و سلامة المذهب . . [ تاريخ بغداد 12/34ت6404 ]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
الإمام الحافظ المجود شيخ الإسلام علم الجهابذه [سير اعلام النبلاء 16؍449 ]
↰ اس جلیل القدر امام پر متاخر حنفی فقیہ محمود بن احمد العینی (متوفی 855ھ) کی جرح مردود ہے۔
عبدالحئ لکھنوی حنفی اس عینی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
ولو لم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجو دو أجود
اگر اس میں مذہبی (یعنی حنفی) تعصب کی بدبو نہ ہوتی تو بہت ہی اچھا ہوتا۔ [ الفوائد البهيه ص 208 ]
تنبیہ : امام دارقطنی رحمہ اللہ تدلیس کے الزام سے بری ہیں، دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین [19؍1]
جب حدیث نے بذات خود حدیث کا مفہوم متعین کر دیا ہے اور محدثین کرام بھی اس حدیث سے عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی سمجھ رہے ہیں تو پھر لغت اور الفاظ کے ہیر پھیر کی مدد سے عورتوں کو مردوں کا امام بنا دینا کس عدالت کا انصاف ہے ؟
◈ ابن قدامہ لکھتے ہیں :
وهذه زيادة يجب قبولها
”اور اس زیادت (نساء ھا) کا قبول کرنا واجب ہے۔“ [المغني2؍16م 1140 ]
↰ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آثار سلف صالحین سے عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی ثابت ہوتا ہے۔ عورت کا مردوں کی امامت کرانا یہ کسی اثر سے ثابت نہیں ہے۔
ريطه الحنفيه (قال العجلي : كوفية تابعية ثقة) سے روایت ہے کہ :
أمتنا عائشة فقامت بينهن فى الصلوة المكتوبة
’’ ہمیں عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے فرض نماز پڑھائی تو آپ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔ “ [سنن دار قطني 1؍404ح1429، وسنده حسن، وقال النيموي فى آثار السنن : 514 “ وإسنادة صحيح ’’ و انظر كتابي أنوار السنن فى تحقيق آثار السنن ق 103 ]
◈ امام شعبی رحمہ اللہ (مشہور تابعی) فرماتے ہیں کہ :
تؤم المرأ النساء فى صلوة رمضان تقوم معهن فى صفهن
’’ عورت عورتوں کو رمضان کی نماز پڑھائے (تو) وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہو جائے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه2؍89ح4955وسنده صحيح، عنعته هشيم عن حصين محمولة على السماع، انظر شرح علل الترمذي لابن رجب 2؍562و الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين لراقم الحروف 111؍3 ]
◈ ابن جریج نے کہا:
تؤم المرأة النساء فى رمضان و تقوم معهن فى الصف
’’ عورت عورتوں کو رمضان میں نماز پڑھائے اور وہ اُن کے ساتھ صف میں کھڑی ہو۔“ [مصنف عبدالرزاق 3/140 ح 5085و سنده صحيح ]
معلوم ہوا کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے کہ عورت جب عورتوں کو نماز پڑھائے گی تو صف سے آگے نہیں بلکہ صف میں ہی ان کے ساتھ برابر کھڑی ہو کر نماز پڑھائے گی۔
مجھے ایسا ایک حوالہ بھی باسند نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ سلف صالحین کے سنہری دور میں کسی عورت نے مردوں کو نماز پڑھائی ہو یا کوئی مستند عالم اس کے جواز کا قائل ہو۔ (اسی طرح کسی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے مؤذن کا اُن کے پیچھے نماز پڑھنا قطعاً ثابت نہیں)

ابن رشد (متوفی 515ھ) وغیرہ بعض متاخرین نے بغیر کسی سند و ثبوت کے یہ لکھا ہے کہ ابوثور (ابراہیم بن خالد، متوفی 240ھ) اور محمد بن جریر] الطبری (متوفی 310ھ) ”اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کو نماز پڑھا سکتی ہے۔“ [ديكهئے بداية المجتهدج 1ص 145، المغني فى فقه الإمام احمد 2/15 مسئله : 1140]

↰ چونکہ یہ حوالے بے سند ہیں لہٰذا مردود ہیں۔
خلاصۃ التحقیق : عورت کا نماز میں عورتوں کی امامت کرانا جائز ہے مگر وہ مردوں کی امام نہیں بن سکتی۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے