اسلام نے سفر میں حد متعین کتنی کی ہے؟
وَعَنْ يَحْيَى بْنِ يَزِيدَ الْهُنَائِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَنسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ قَصْرِ الصَّلَاةِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ لَا إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلاثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةِ فَرَاسِخَ شُعْبَةُ الشَّاكُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ – أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ
یحیی بن یزید بنائی رضی اللہ عنہ سے روایت کہتے ہیں کہ میں حضرت انس بن مالک سے قصر نماز کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا ”نبی کریم صلى الله عليه وسلم تین میل یا یہ فرمایا تین فرسخ کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت نماز پڑھتے ۔“ یعنی (نماز قصر ادا کرتے) شعبہ کو شک ہے ۔ مسلم
تحقيق و تخریج:

مسلم: 291
وَعَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَضْرَمِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ عَلَيهِ قَالَ: يَمُكُتُ الْمُهَاجِرُ بَعْدَ قَضَاءِ نُسُكِهِ ثَلَاثًا مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .
حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حج کے مناسک پورے کرنے کے بعد مہاجر، مکہ میں تین دن ٹھہر سکتا ہے ۔“ متفق علیہ
تحقيق وتخریج:

بخاری 2933، مسلم: 1352 ، نسائی: 3/ 122
فوائد:

➊ اسلام نے سفر میں حد متعین کی ہے کتنا فاصلہ طے کریں تو وہ سفر مراد ہوتا ہے اور قصر نماز پڑھنی ہوتی ہے؟ اس بارے اختلاف پایا جاتا ہے ”نومیل کی مسافت سفر کہلائے گی اور نماز قصر ہو گی ، یہ اکثر علمائے اہل حدیث کا قول ہے ۔ اس حدیث سے مراد تین فرسخ لیے جائیں ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے ۔ 9=3×3 میل بنتا ہے ۔ یہ احتیاطی پہلو ہے جو کہ علماء نے مراد لیا ہے ۔
➋ تین دن تک نماز قصر پڑھی جا سکتی ہے چوتھے دن نماز مقیم والی شمار ہو گی یہ اس وقت ہے جب آدمی نے تین دن کے قیام کی نیت کی ہو ۔ اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مناسک حج کے بعد مکہ میں مہاجر تین دن ہی ٹھہرے ظاہر بات ہے نیت تین دن کی ہو گی اگر چار دن کی نیت کرے گا تو مقیم شمار ہو گا ۔
➌ تین دن یہ آنے اور جانے کے وقت کے علاوہ ہیں ۔
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ لَهُ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعَ قُلْتُ: كَمُ أَقَامَ بِمَكَّةَ؟ قَالَ: عَشَرًا- أَخْرَجَهُ مسلم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے ، ہم نے دوران سفر دو دو رکعت نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ واپس تشریف لے آئے، میں نے پوچھا کہ آپ کتنا عرصہ مکہ میں رہے فرمایا دس دن ۔“ مسلم
تحقيق و تخریج:

بخاری: 1081، مسلم 693
فوائد:

➊ سفر کے دوران اگر ایک جگہ نہ ٹھہرا جائے مختلف مقامات پر جانا ہو تو پھر خواہ جتنے دن بھی لگ جائیں تو نماز قصر ہی اداکی جائے گی جیسا کہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں ہے کہ آپ نے دس دن قیام فرمایا مختلف مقامات پر جاتے رہے لیکن نماز قصر اداکی ۔
وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ لَهِ تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا بِمَكَّةَ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ فَنَحْنُ إِذَا سَافَرُنَا تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا قَصَرْنَا وَإِذَا زِدْنَا أَتْمَمْنَا – أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انیسں دن مکہ معظمہ میں رہے اور آپ اس دوران نماز قصر ادا کرتے رہئے، ہم بھی جب انیس دن کے لیے سفر اختیار کرتے تو قصر پڑھتے اور جب زیادہ مدت کاسفر کرتے تو پوری نماز ادا کرتے ۔ بخاری
تحقیق و تخریج:

بخاری 1081، مسلم 693
وَفِي رِوَايَةٍ لِأَبِي دَاوُدَ: أَقَامَ سَبْعَ عَشَرَةَ يَوْمًا بِمَكَّةَ يَقْصُرُ الصَّلَاةَ
ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سترہ دن مکہ میں رہائش پذیر رہے اور اس دوران نماز قصر پڑھتے رہے ۔ “
تحقیق و تخریج:

یہ حدیث صحیح ہے ۔ ابوداؤد: 1230 ۔
وَرَوَى مَعْمَرٌ بِسَنَدِهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ وَ بِتَبُوكَ عِشْرِينَ يَوْمًا يَقْصُرُ الصَّلَاةَ وَرَوَاهُ غَيْرُ مَعْمَرٍ فَأَرْسَلَهُ –
معمر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام کیا اور اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے۔“
تحقیق و تخریج:

یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: / 3/ 295 ، ابوداؤد: 1235 ۔
فوائد:

➊ ان احادیث میں جو یہ بیان آیا ہے کہ آپ مکہ میں انیس دن رہے قصر نماز اداکی یاسترہ دن ٹھہرے تو نماز قصر اداکی ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ یہ مدت سفر ہے کیونکہ یہ مختلف ایام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی مہم میں گزرے ہیں لہٰذا ایک جگہ قیام نہ رہا جب ایک جگہ قیام نہ کیا تب قصر ادا کی یعنی یہ آپ کا سفر لڑائی کا تھا نہ کہ ایک جگہ ٹھرنے کا تھا ۔
➋ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر بیس دن گزارے اور نماز قصر ادا کرتے رہے ۔
➌ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم انیس دن سفر کرتے تو قصر کرتے اور جب ہم اس سے زائد کرتے تو پوری نماز پڑھتے ۔ اسی بنا پر مختلف مکاتب فکر نے سفر کی مدت مختلف بیان کی ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: