حکمران کا انصاف اور فہم و فراست
اسلام میں حکمران کے لیے عدل و انصاف کا پیمانہ بہت بلند رکھا گیا ہے، اور اسے فہم و فراست کے ساتھ فیصلے کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا واقعہ اسی عدل کی ایک مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو فیصلے میں گہرائی اور سمجھ عطا کی، جبکہ حضرت داؤد علیہ السلام کا فیصلہ بھی حکمت سے خالی نہیں تھا۔ یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ فیصلہ کرتے وقت انصاف کے ساتھ ساتھ گہرائی میں جاکر معاملے کو سمجھنا ضروری ہے۔
حضرت علیؓ کے یمن میں قاضی مقرر ہونے کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک قاضی کو دونوں فریقین کی بات سن کر ان کے درمیان فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ انصاف میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تمہارے دل کو ہدایت دے گا اور تمہاری زبان کو مضبوط کرے گا۔ جب تمہارے سامنے دو فریق بیٹھیں، تو ان میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات بھی نہ سن لو، جیسے تم نے پہلے کی بات سنی۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تمہیں معاملہ سمجھ میں آجائے اور تم صحیح فیصلہ کرو۔” (سنن ابوداؤد: 3582)
لاعلمی کے ساتھ فیصلہ کرنا ممنوع ہے
اسلامی تعلیمات کے مطابق، اگر کوئی شخص کسی معاملے میں علم نہیں رکھتا تو اسے فیصلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَمَنْ لَمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ” (المائدہ: 47)
اس آیت میں فاسق کی تعریف ان لوگوں کے لیے کی گئی ہے جو اللہ کے احکام کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قاضیوں کی اقسام کے بارے میں فرمایا:
"قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں۔ جنت میں جانے والا وہ ہے جو حق کو پہچانے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ دوسرا وہ ہے جو حق کو پہچانے لیکن انصاف نہ کرے، اور تیسرا وہ جو بغیر علم کے فیصلہ کرے، وہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔” (سنن ابو داؤد: 3573)
حکمران کی اطاعت اور رعایا کے حقوق
حکمرانوں کی اطاعت اسلامی نظام میں لازمی ہے، جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ” (النساء: 59)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر کوئی حبشی غلام مقرر ہو جائے، جس کا سر منقیٰ (چھوٹا) ہو۔” (صحیح بخاری: 7142)
یہ تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ حکمرانوں کی اطاعت کی جائے جب تک وہ اللہ کے احکام کے مطابق چلتے ہیں۔ تاہم، اگر حکمران صریح گناہوں کا حکم دیں، تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ایک مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ حکمران کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، چاہے وہ اسے پسند ہو یا ناپسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ جب اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ضروری ہے اور نہ اطاعت کرنا۔” (صحیح بخاری: 7144)
ظلم کرنے والے حکمران کی سزا
ظالم حکمرانوں کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَمَنْ لَمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ” (المائدہ: 45)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص دس افراد کی چھوٹی جماعت پر بھی امیر مقرر ہو، اسے قیامت کے دن باندھ کر پیش کیا جائے گا۔ اسے عدل وانصاف ہی رہائی دلائے گا، اور اس کا ظلم اسے ہلاک کر دے گا۔” (مسند احمد: 9573)
حکمران کی رعایا کے ساتھ نرمی
حکمرانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کریں، کیونکہ ظلم اور سختی رعایا کو حکمران سے دور کر دیتی ہے اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جو حکمران اپنی رعایا کے ساتھ سختی کرے گا، اللہ اس پر سختی کرے گا۔ اور جو حکمران اپنی رعایا کے ساتھ نرمی کرے گا، اللہ اس پر نرمی فرمائے گا۔” (صحیح مسلم: 4722)
حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر سختی کرے، تو اس پر سختی فرما، اور جو ان کے ساتھ نرمی کرے، تو اس کے ساتھ نرمی فرما۔” (صحیح مسلم: 4722)
عادل حکمران کی فضیلت
اسلام میں عادل حکمران کی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والا حکمران قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے خاص مقربین میں شمار ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو لوگ اپنے فیصلوں میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے۔ وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل خانہ اور اپنی رعایا کے معاملات میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ کے قریب ہوں گے۔” (صحیح مسلم: 4721)
حکمران کا فہم و فراست اور اجتہاد
حکمرانوں کو فیصلے کرتے وقت نہ صرف عدل کا دامن تھامنا چاہیے بلکہ انہیں اجتہاد اور فہم و فراست سے بھی کام لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو علم اور حکمت عطا فرمائی تھی تاکہ وہ اپنے فیصلوں میں گہرائی سے معاملے کو سمجھ سکیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد (سمجھ بوجھ سے) کام لے، اور صحیح نتیجہ پر پہنچے، تو اسے دو اجر ملتے ہیں۔ اور اگر وہ اجتہاد کرے اور غلطی کرے، تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔” (صحیح بخاری: 7141)
خلاصہ
➊ فریقین کی بات سن کر فیصلہ کرنا انصاف کا تقاضا ہے۔
➋ بغیر علم کے فیصلہ کرنا ممنوع ہے، اور لاعلمی کے ساتھ فیصلہ کرنے والا جہنم میں جائے گا۔
➌ حکمرانوں کی اطاعت ضروری ہے، مگر وہ گناہ کا حکم دیں تو اطاعت نہیں کی جائے گی۔
➍ عادل حکمران قیامت کے دن اللہ کے خاص بندوں میں شمار ہوں گے۔
➎ حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے، کیونکہ ظلم سے حکمران اور رعایا کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔
➏ حکمرانوں کو اپنے فیصلوں میں عدل کے ساتھ فہم و فراست کا بھی استعمال کرنا چاہیے۔