وعن أبى قلابة، قال: جاءنا مالك بن الحويرث فصلى بنا فى مسجدنا، فقال: إني لا صلى بكم وما أريد الصلاة ، ولكني أريد أن أريكم كيف رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى – قال أيوب: فقلت لأبي قلابة: وكيف كانت صلاته؟ قال: مثل صلاة شيخنا هذا ، ويعني عمرو بن سلمة – قال أيوب: وكان ذلك الشيخ يتم التكبير، وإذا رفع رأسه من السجدة الثانية جلس واعتمد على الأرض ثم قام
ابوقلابہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث ہماری مسجد میں آئے اور اس نے ہمیں ہماری مسجد میں نماز پڑھائی ، اور فرمایا: ”میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں حالانکہ میں نماز کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہیں دکھلاؤں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے نماز پڑھتے دیکھا؟ ایو ب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی؟ فرمایا ہمارے اس شیخ کی نماز کے مانند یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، ایوب کہتے ہیں کہ یہ شیخ تکبیر پوری کہتے جب دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے زمین پر آرام سے بیٹھنے کا سہارا لیتے ، پھر کھڑے ہوتے ۔“ [بخاري]
تحقیق و تخریج: بخاری 824
فوائد:
➊ نماز کی تصحیح کے لیے عملی تربیت منعقد کی جا سکتی ہیں اور ان کی ورکشاپی مراکز اکثر مساجد ہوتی ہیں ۔
➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی من وعن نماز کو جانتا ہو اور پریکٹیکل کر سکتا ہو اور آگے بتا بھی سکتا ہو ۔
➌ کوئی کسی کے پاس جائے جبکہ وہ عالم و امام بھی ہو تو میزبان کی مسجد میں جماعت کروا سکتا ہے اس میں موجودہ امام کی اجازت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔
➍ دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کے لیے اٹھنے کے لیے پہلے بیٹھنا چاہیے پھر دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگا کر ان کے اعتماد پر اٹھنا چاہیے ۔ اس تھوڑے سے بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں ۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسری رکعت کے لیے سجدہ سے فوراً اٹھتے ہی سیدھا ہو جانا درمیان میں نہ بیٹھنا خلافت سنت ہے اسی طرح گھٹنوں کو پکڑتے ہوئے اٹھنا بھی سنت کے خلاف ہے ۔
ابوقلابہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث ہماری مسجد میں آئے اور اس نے ہمیں ہماری مسجد میں نماز پڑھائی ، اور فرمایا: ”میں تمہیں نماز پڑھاتا ہوں حالانکہ میں نماز کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہیں دکھلاؤں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے نماز پڑھتے دیکھا؟ ایو ب کہتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ سے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی؟ فرمایا ہمارے اس شیخ کی نماز کے مانند یعنی عمرو بن سلمہ کی طرح، ایوب کہتے ہیں کہ یہ شیخ تکبیر پوری کہتے جب دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھاتے تو بیٹھتے زمین پر آرام سے بیٹھنے کا سہارا لیتے ، پھر کھڑے ہوتے ۔“ [بخاري]
تحقیق و تخریج: بخاری 824
فوائد:
➊ نماز کی تصحیح کے لیے عملی تربیت منعقد کی جا سکتی ہیں اور ان کی ورکشاپی مراکز اکثر مساجد ہوتی ہیں ۔
➋ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی من وعن نماز کو جانتا ہو اور پریکٹیکل کر سکتا ہو اور آگے بتا بھی سکتا ہو ۔
➌ کوئی کسی کے پاس جائے جبکہ وہ عالم و امام بھی ہو تو میزبان کی مسجد میں جماعت کروا سکتا ہے اس میں موجودہ امام کی اجازت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے ۔
➍ دوسرے سجدے کے بعد دوسری رکعت کے لیے اٹھنے کے لیے پہلے بیٹھنا چاہیے پھر دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگا کر ان کے اعتماد پر اٹھنا چاہیے ۔ اس تھوڑے سے بیٹھنے کو جلسہ استراحت کہتے ہیں ۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسری رکعت کے لیے سجدہ سے فوراً اٹھتے ہی سیدھا ہو جانا درمیان میں نہ بیٹھنا خلافت سنت ہے اسی طرح گھٹنوں کو پکڑتے ہوئے اٹھنا بھی سنت کے خلاف ہے ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]