عطائی، غير مستقل بذات اور محدود کا فرق
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

اولیاء و انبیاء کو عطائی، غير مستقل بذات اور محدود مان کر پکارنا

اللہ نے اپنے بندوں کو کچھ صفات میں اپنی صفات کاملہ کا مظہر بنایا ھے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍۢ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا۔
ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنا دیا۔
سورہ دہر آیت (2)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
یَا رَسُوْلُ ﷺ مَاشَاءَ آللَّـه وَمَاشِئتَ۔
(جو اللَّـه چاہے اور جو آپ چاہیں ) اس پر آپﷺ نے فرمایا (جَعَلْتَنِی لِـلّٰـهِ عَدْلاََ ! بَلْ مَاشَاءَ آللَّـهُ وَحْدَہُ) کیا تو نے مجھے اللہ  کے برابر بنا دیا ہے؟ بلکہ صرف یہ کہہ کہ جو اکیلا اللہ چاہیے۔

مُسْنَدِ اَحْمَد ،مسند اِبن عَبَّاسْ رضی اللہ عنہ حدیث (2611)

نوٹ: اس حدیث پہ تھوڑا سا غور کرنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (عطائی ،اختیار کا مالک اور غیر مستقل بذات کا عقیدہ رکھ کر ) ہی ماشاءاللہ وماشئت کہا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرک قرار دیا اور اس صحابی کی اصلاح فرمائی ،ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے یہی ایک مثال ہی کافی ھے۔( الْحَمْدُ للَّـه)

تنبیہ: ´یوں کہنا منع ہے ”جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں“۔`

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک شخص سے ملا تو اس نے کہا: تم کیا ہی اچھے لوگ ہوتے اگر شرک نہ کرتے، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس مسلمان نے یہ خواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں اس بات کو جانتا ہوں (کہ ایسا کہنے میں شرک کی بو ہے)۔ لہٰذا تم «ما شاء الله ثم شاء محمد» ”جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں“ کہو۔

[سنن ابن ماجه كتاب الكفارات حدیث: 2118]

فوائد و مسائل:

(1)”جو اللہ تعالیٰ، پھر حضرت محمدﷺ چاہیں۔“
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ چاہے گا صرف وہی ہوگا۔
دوسرے شخص کی مشیت اللہ کے تابع ہے۔
بیک وقت دونوں (خالق و مخلوق) کی مشیت کو ایک قرار دینا واقعی شرک ہے۔
لہذا نبیﷺ کی اصلاح کے بعد شرک کا شائبہ ختم ہو گیا۔ یہ ورایت بعض کے نزدیک حسن اور بعض کے نزدیک صحیح ہے۔

(2) ایسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کا مفہوم شرکیہ بن سکتا ہو۔

(3) شرعی مسائل خواب سے ثابت نہیں ہوتے لیکن اگر خواب میں کوئی ایسا اشارہ ملے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات کے منافی نہ ہو تو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(4) صحابہ کرام رضی رضی اللہ عنہم اپنے خواب نبی اکرم ﷺ کو سناتے تھے تاکہ اس کی تعبیر مل جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ خواب کی یہ بات ماننے کے قابل ہے یا نہیں۔

فوت شدگان کو مدد کے لئے پکارنے کا مسئلہ

اللہ تعالیٰ کے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا شرک سے سو فیصد پاک عقیدہ کیسا تھا، ملاحضہ کیجیے:

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب لوگ بادل دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس سے بارش برسے گی لیکن اس کے برخلاف آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھتے ہیں تو ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ پر نمایاں ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا ضمانت ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم (عاد) پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ انہوں نے جب عذاب دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔

(صحیح بخاری،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ،حدیث نمبر: 4829)

ایک حدیث میں ہے کہ جب تیز ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:
(اللَّهُمَّ إِني أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وخَيْر ما أُرسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بك مِنْ شَرِّهِا، وَشَرِّ ما فِيها، وَشَرِّ ما أُرسِلَت بِهِ)
جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ کے چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا اور آپ پر خوف کی سی کیفیت طاری ہو جاتی جس سے آپ بے چین رہتے کبھی باہر نکلتے کبھی اندر آتے کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے جاتے۔
جب بارش ہو جاتی تو اطمینان کا سانس لیتے۔
(صحیح مسلم، صلاة الاستقاء، حدیث: 2085۔،(899)

2۔ قوم عاد پر جب ہوا کا عذاب آیا تو اس کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ درختوں اور پودوں کو بیخ جڑ سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی۔

یہی آندھی ان کے زمین دوزمکانوں میں گھس گئی اس دوران میں وہ اپنے گھروں سے نکل بھی نہ سکتے تھے سردی کی شدت سے وہ ٹھٹھرٹھٹھر کر مر گئے۔

وہاں کھنڈرات کے علاوہ کوئی چیز نظر نہ آتی تھی وہ تیز اور سخت ٹھنڈی ہوا قوم عاد پر آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل چلتی رہی اس واقعے سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی چیزکی ظاہری شکل و صورت سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس پر تکیہ ہی کر لینا چاہیے بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔

نوٹ: اللہ تعالیٰ کی طرف بارش برسانے کا اذن سیدنا میکائیل علیہ السلام کے پاس ہے اور وہ فرشتوں کے سردار اور زندہ بھی ھیں اس کے باوجود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی میکائیل کو مدد کیلئے نہیں پکارا تو یہ کیسے ہو سکتا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت شدگان سے مدد مانگنے کا حکم دیں ،مزید یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بارش مانگنے کے لئے درج ذیل کلمات نہیں سکھائے:
(اے میری امت کے لوگو )
تم بارش کے لئے میکائیل علیہ السّلام کو (محدود عطائی اختیار کا مالک سمجھ  کر اور غیر مستقل بذات کا عقیدہ رکھتے ہوۓ ) صبح وشام باربار یوں پکاراکرو(١) اَلْمَدد یَا مَیْکَا ئیل)یَا مَیْکَا ئیل نظر کرم فرما (٣) یَا مَیْکَا ئیل رحمت فرما (٤)یَا مَیْکَا ئیل بارش برسا،
نَعُوذُ اللَّـهِ مُحَمَّدْ رَسُولُ اللَّـه نے ان کلمات کی بجائے (صَلَاۃُ الاِسْتِسْقَاء ) یعنی بارش کیلئے نماز کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع لانے کی تلقین فرمائی کیونکہ فرشتوں کے ڈیوٹی پر معمور ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم فرشتوں کو پکارنا شروع کردیں کیونکہ فرشتوں کو( غائب میں مدد کیلئے پکارنا ) خالصتاً شرک اور ناقابل معافی گناہ ھے نَعُوذُ باللَّـهِ۔

گستاخانہ نعرے ،اور نماز غوثیہ ،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ فرشتوں کے زندہ سردار میکائیل کو (غائب میں مدد کیلئے پکارنا ) اگر خالصتاً شرک ھے تو پھر جوش میں آکر بزرگوں سے اندھی عقیدت میں مندرجہ ذیل گستاخانہ نعرے لگانا کہاں کی توحید اور کہاں کی مسلمانی ہے ۔۔۔۔۔؟(فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے )!

(١)المدد یا علی مشکل کشا،،،جانے یا علی

(٢) المدد یا غوث اعظم دستگیر ،،،،،،یا شیخ عبدالقادر جیلانی ،،، نعوذ باللہ

(۳)یا معین الدین چشتی ،،،،،پار لگا دے کشتی

(۴)بری بری سرکاربری،،،، کھوٹی قسمت کردے ہری ،،، نعوذ بااللہ

نوٹ: بعض اسلام کے گستاخ لوگوں نے اپنی مشکلات وپریشانیوں کے حل کے لیے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ (المتوفی ٥٦١ء) سے ایک شرکیہ( نماز غوثیہ ) منسوب کررکھی ھے ملاحظہ کیجیے:
نماز غوثیہ کا طریقہ حاجت پوری ہونے کے لئے صلوۃ الاسرار بھی نہایت ھی مؤثر ھے ،اسے نماز غوثیہ بھی کہتے ھیں اس کی ترکیب یہ ھے کہ بعد نماز مغرب سنتیں پڑھ کر دورکعت نفل پڑھے اور بہتر یہ ھے کہ الحمد کے بعد ہر رکعت میں گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے، سلام کے بعد اللہ کی حمدوثنا کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ١١مرتبہ درود سلام عرض کرے،،،،،،،،،پھر عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور ہر قدم پر کہے یا غوث الثقلین ویاکریم الطرفین اغثنی وامددنی فی قضاء حاجتی یا قاضی الحاجات۔
ترجمہ اے جنوں وانسانوں کے فریاد رس،اور اے ماں باپ کی طرف سے بزرگ میری فریاد کو پہنچئے اور میری مدد کیجئے اے حاجتوں کے پورا کرنے والے ،،،،،،

(بریلوی مولانا امجد علی قادری بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ ٢٦٣)۔
(وبریلوی مولانا محمد الیاس عطار قادری فیضان سنت فضائل نوافل صفحہ ١٠٥٤)

نوٹ: قرآن حکیم نے واضح طور پر ان لوگوں کے انجام کا بھی ذکر کردیا ھے جو اولیاء اور بزرگانِ دین وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دعا کیلئے پکارتے ھیں چنانچہ ارشادِ باری تعالٰیٰ ہوتا ھے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَـهٝٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُـمْ عَنْ دُعَآئِهِـمْ غَافِلُوْنَ۔
اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو قیامت تک اس کے پکارنے کا جواب نہ دے سکے اور انہیں ان کے پکارنے کی خبر بھی نہ ہو۔
سورہ الاحقاف آیت (5)
وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُـوْا لَـهُـمْ اَعْدَآءً وَّكَانُـوْا بِعِبَادَتِـهِـمْ كَافِـرِيْنَ۔
اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔
شورة الاحقاف ايت (6)
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ،اللہ کے محبوب امام الانبیا ء والمرسلین کے مبارک اسوہ حسنہ کی جھلکیاں ملاحظہ کیجیے:
(1) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ الرُّحَيْلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ أَخِي زُهَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ قَالَ:‏‏‏‏ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ۔
ترجمہ
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی کام سخت تکلیف و پریشانی میں ڈال دیتا تو آپ یہ دعا پڑھتے:«يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث» ”اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں۔
سنن ترمذی حدیث (3524) مستدرک للحاکم حدیث (1828)حسن

(2) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھے، جب سورج طلوع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر گئے، میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نکل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے گئے یہاں تک کہ ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے، ہم اندر گئے تو وہ لیٹی سوئی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ! اس وقت کیوں سو رہی ہو؟“ انہوں نے کہا: مجھے رات سے بخار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دعا جو میں نے تجھے سکھائی وہ کہاں ہے؟“ انہوں نے کہا: میں بھول گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوں کہو: «يَا حَيُّ، يَا قَيُّوْمُ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ، أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ كُلَّهُ، وَلَا تَكِلْنِيْ إِلَىٰ نَفْسِيْ طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَلَا إِلَىٰ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ.» “

« أخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة”، 2319، 2320، 2321، 2322، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2007، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10330، والبزار فى «مسنده» برقم: 6368، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3565، والطبراني فى «الصغير» برقم:
(3) وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّـٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَـهٝٓ اِلَّا هُوَ ۖ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْـرٍ فَـهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ۔
ترجمہ
اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اور کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
سورۃ الانعام آیت (17)

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض کے اختتام پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
«لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد»
” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں اور کسی صاحب نصیبہ کو تیرے بغیر بغیر کوئی نصیبہ نہیں دیتا۔“
«أخرجه البخاري، حديث:844، ومسلم، حديث:593.»

تشریح:

  • اس حدیث میں منقول دعا اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں کہ جس کی طرف حاجات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کیا جا سکے۔
    دنیا و مافیہا اور آسمانوں کی ہر ایک چیز اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اپنے خالق کی ہر وقت محتاج ہے۔
  • وہ قادر مطلق ہے‘ کسی کو کچھ دینے اور نہ دینے کے جملہ اختیارات بلا شرکت غیرے اسی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں۔
  • اس کی سرکار میں دنیوی جاہ و حشمت اور عزت و سلطنت اس کے فضل اور رحمت کے سوا ذرہ بھر بھی کارگر اور منافع بخش ثابت نہیں ہو سکتیں

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو خالص توحید کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر تادم مرگ قائم رہنے کی توفیق دے، آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: