کیا عورت جنازہ پڑھ سکتی ہے؟
شمارہ السنہ جہلم

جواب: مرد کی طرح عورت بھی جنازہ پڑھ سکتی ہے ۔
➊ عباد بن عبداللہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن عائشة ، أمرت أن يمر بجنازة سعد بن أبى وقاص فى المسجد ، فتصلي عليه ، فأنكر الناس ذالك عليها ، فقالت: ما أسرع مانسي الناس ، ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل ابن البيضاء إلا فى المسجد
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں پڑھ لیا جائے تاکہ وہ بھی جنازہ پڑھ لیں ۔ لوگوں نے سیدہ کی بات کا انکار کیا ، آپ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں: لوگ کتنی جلد بھول گئے ہیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کاجنازہ مسجد میں ہی تو پڑھایا تھا ۔“ [صحيح مسلم: 973]
➋ عبداللہ بن ابوطلحہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن أبا طلحة دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمير بن أبى طلحة حين توفي ، فأتاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى عليه فى منزلهم ، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان أبو طلحة وراء ، وأم سليم وراء أبى طلحة ، ولم يكن معهم غيرهم
”سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عمیر کی وفات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے اور عمیر کی نماز جنازہ ان کے گھر میں ہی پڑھا دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ، ابوطلحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور ام سلیم سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑی تھیں ، چوتھا کوئی نہ تھا ۔ “
[شرح معاني الآثار للطحاوي: ٥٠8/1 ، المستدرك على الصحيحين للحاكم: ٣٦٥/١ ، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام حاکم نے ”بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح“ کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
عماره بن غزیہ مدنی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک مطلقا ”ثقہ“ ہے ۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسنة غريبة فى إباحة صلاة النساء على الجنائز
”عورتوں کے لیے نماز جنازہ پڑھنے کی اباحت پر یہ پیاری سنت ہے ۔“
فائدہ:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإذانسوة جلوس ، فقال: ما يجلسكن قلن: تنتظر الجنازة ، قال: هل تغسلن قلن: لا ، قال: هل تحملن ، قلن: لا ، قال: هل تدلين فيمن يدلي ، قلن: لا ، قال: فارجعن مأزورات غير مأجورات
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ، کچھ عورتیں بیٹھی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیسے بیٹھی ہیں؟ کہنے لگیں: جنازہ کا انتظار ہے ۔ فرمایا: آپ نے میت کو غسل دیا ہے؟ کہنے لگیں: نہیں ، پوچھا: میت کو کندھا دیا؟ کہنے لگیں: نہیں ، پوچھا: قبر پر مٹی ڈالی؟ کہنے لگیں: نہیں ۔ فرمایا: واپس چلی جائیں ، آپ کو اجر کے بجائے گناہ ملا ہے ۔ “ [سنن ابن ماجه: 1578]
تبصره:
سند اسماعیل بن سلیمان کوفی کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے ۔
اس کا ایک ”ضعیف“ شاہد بھی ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: