نماز عشاء کا وقت
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: اعْتَمَ النَّبِيُّ لا ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعِشَاءِ حَتَّى ذَهَبَ عَامَةُ اللَّيْلِ وَحَتَّى نَامَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى فَقَالَ: إِنَّهُ لَوَقْتُهَا لَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں تاخیر کر دی یہاں تک رات کا کافی حصہ گذر گیا اہل مسجد سو گئے پھر آپ تشریف لائے تو نماز پڑھائی اور فرمایا : ”اگر میں آپ پر بوجھ نہ خیال کروں تو عشاء کی نماز کا وقت یہ ہے ۔ “
تحقیق و تخریج :
مسلم : 638 باب وقت العشاء و تاخيرها .
وَفِي رِوَايَةٍ: لَو لَا أَنْ يَشَقَّ عَلَى أمتي
وكُلُّ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ عِندَ مُسْلِمٌ إِلَّا حَدِيثَ الْإِسْفَارِ بِالْفَحْرِ
ایک روایت میں ہے ”اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا ۔“ حديث الاسفار بالفجر فجر کی نماز رو شنی میں پڑھنے والی روایت کے علاوہ تمام احادیث مسلم میں مذکور ہیں ۔
تحقيق وتخريج :
مسلم : 238 :
وَلِلْبُخَارِي فِي حَدِيثٍ رَوَاهُ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَالْعِشَاءَ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا إِذَا رَآهُمُ اجْتَمَعُوا عَجَلَ، وَإِذَا رَآهُمْ أَبْطَؤُوا أَخْرَ
بخاری شریف میں ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ”عشاء کی نماز کبھی کسی وقت اور کبھی کسی وقت ادا ہوتی ، جب آپ صحابہ کو دیکھتے کہ جمع ہو گئے، جلد نماز پڑھا دیتے اور جب انہیں دیکھتے کہ انہوں نے تاخیر کر دی تو آپ تاخیر سے نماز پڑھاتے ۔“
تحقیق و تخریج :
بخاری : 525٬50، ”باب وقت العشاء اذا اجتمع الناس ۔“ مسلم : 646 ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ مَا يَقُولُ : لَا يَغْلِبَنَّكُمُ الْأَعْرَابُ عَلَى إِسْمِ صَلَاتِكُمْ أَلَا إِنَّهَا الْعِشَاءُ وَهُمْ يَعْتِمُونَ بِالْإِبِلِ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں :”بدوی تمہاری نماز کے نام پر غالب نہ آ جائیں خبردار اس کا نام عشاء ہے اور وہ شام کو اونٹوں کا دودھ دھونے میں دیر کر دیتے ہیں ۔ “
تحقیق و تخریج :
مسلم : 638 یہ حدیث مسلم شریف کے درج ذیل باب میں مذکور ہے باب وقت العشاء وتاخيرها بخارى شریف کے درج ذیل باب میں مذکور ہے باب من كره ان يقال للمغرب العشاء لیکن اس میں وهم يعتمون بالابل کے الفاظ نہیں ہیں ۔ ابن ماجہ میں باب النهى ان يقال صلوة العتمة میں ہے ۔
وَعَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَيَّارِبُنِ سَلَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَرْزَةً يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ لا يُبَالِي بِبَعْضِ تَأْخِيرِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَكَانَ لَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَلَا الْحَدِيثَ بَعْدَهَا – قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ لَقِيتُهُ مَرَّةً أُخْرَى فَقَالَ: أَو ثُلُثِ اللَّيْلِ أَخْرَجَهُمَا مُسلِم
شعبہ نے سیار بن سلامہ سے روایت کیا کہتے ہیں کہ میں نے ابوبرزہ سے سنا، آپ فرماتے ہیں ”رسول الله صلى الله عليه وسلم نماز عشاء کی نصف رات تک تاخیر میں قدرے کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد باتیں کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ “ شعبہ نے کہا:”پھر میں اس سے دوسری مرتبہ ملا تو اس نے کہا: یا تہائی رات تک“ [مسلم ۔]
تحقیق تخريج :
بخاری : 541؛ 771 ، مسلم : 1647 مسلم شریف میں یہ حدیث باب استحباب التبكير بالصبح اس حديث کا ایک ٹکڑا بخاری شریف کے باب ذكر العشاء والعتمة ومن راه واسعا میں مذکورہ ہے ۔ اسی طرح بخاری شریف کے باب ما يكره من السمر بعد العشاء میں بھی مذکور ہے امام بخاری نے مکمل طویل حدیث باب وقت الظهيرة عند الزوال میں ذکر کی ہے ۔
فوائد :
➊ نماز عشاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کے مطابق عام رات کا حصہ گزر جانے کے وقت ادا کرنی چاہیے ۔
➋ نماز عشاء کو اکثر جلد ادا کیا جاتا ہے نمازیوں کی رعایت رکھتے ہوئے ۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ اس کا وقت ہے اگر میں امت پر بار گراں خیال نہ کروں تو۔ “
➌ نمازی حضرات مسجد میں اونگھ سکتے ہیں سو سکتے ہیں جائز ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نمازیوں کو بغیر شور مچائے امام کا انتظار کرنا چاہیے ہو سکتا ہے کہ امام کسی شرعی عذر کی وجہ سے لیٹ ہو گیا ہو لیکن ائمہ حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہر روز دیر سے آنے کو اپنا معمول نہ بنائیں ۔
➍ مقتدیوں کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ ہر جماعت پر لیٹ آئیں یا وہ امام کو لیٹ جماعت کروانے پر مجبور کریں ۔ امام کے لیے ضروری ہے کہ نمازی لوگوں کا خیال رکھتے دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرے ان کے روز مرہ کے معمولات پر کڑی نظر رکھے ۔ ان کے تعارف اور کاروبار سے باخبر رہے کبھی دیر سے آئیں تو ان کی رعایت رکھتے ہوئے جماعت دیر سے کھڑی کرے یا پھر مقررہ وقت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں جو حدیث میں آیا ہے کہ لوگ جلدی آجاتے تو جلدی جماعت کرواتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عشاء کی جماعت وقت سے بھی پہلے پڑھا دیتے تھے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ وقت پر نماز پڑھا دیتے تھے جب اکثر لوگ بامر ضروری دیر سے آئیں تو جماعت لیٹ کروائی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح اکثر لوگ جمع ہوں تو جماعت وقت پر کروانی چاہیے یہ امام پر منحصر ہے کہ وہ کس انداز سے مقتدیوں کو لے کر چلتا ہے ۔
➎ امام قوم کا رہنما ہوتا ہے وہ اپنے مقتدیوں اور دیگر عوام کو اچھی باتیں بتا سکتا ہے امام اپنے مقتدیوں سے لیٹ آنے یا نہ آنے کی وجوہات دریافت کر سکتا ہے ۔ لیکن نفسیات کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کرخت انداز سے پوچھنا یا حوصلہ شکنی کرنا ایک محترم باوقار امام کی شان کے خلاف ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی محبو ب رعایا کا خیال فرمایا کرتے تھے ۔
➏ عشاء کو عتمہ کانام دینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ بدو لوگوں کا رکھا ہوا نام ہے جو کہ اونٹنیوں کا دودھ دیر سے دوہنے کی وجہ سے رکھا گیا ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام کا رکھا نام ہی محبو ب ہونا چاہیے نہ کہ عوام کا رکھا ہوا نام ۔ عشام سے پہلے سونا سنت نہیں ہے اس سے یہ پتہ چلا کہ نماز کا وقت ہو جائے تو آدمی کو نماز پڑھ کر سونا چاہیے بغیر نماز ادا کیے سونا جائز نہیں اس طرح نماز کے بعد باتیں کرنا جائز نہیں ہے ۔ البتہ عشاء کے بعد محافل قرآن یا مجالس دینی کا انتظام کرنا یا ایسی گفتگو کرنا جو دینی مسائل پر مبنی ہو یا تعلیم و تربیت کی کلاسز منعقد کرنا جائز ہے ۔ گفتگو جس سے منع کیا گیا ہے وہ عشاء کے بعد فضول باتیں کرنا ہے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: