وروى عبد الكريم الحزري، عن عطاء عن عائشة: ((أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم كان يقبل ، ثم يصلى ولا يتوضا [أخرجه الدار قطني وغيره، ورحاله هؤلاء رجال الصحيحين وقد أعل]
عبد الکریم جزری عطاء سے روایت کرتے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔“
دارقطنی اور اس کے علاوہ نے روایت کیا اس کی سند کے رجال صحیحین میں سے ہیں ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 201/6 ابو داؤد: 179 ترمذی: 85 نسائی 101/1 ابن ماجه: 502 الدارقطنی: 1/ 137 سنن ترمذی جلد اصفحہ 135-138 پر شیخ احمد محمد شاکر کی تعلیقات کا مطالعہ کریں ۔
فوائد:
➊ وضو کی حالت میں آدمی اگر اپنی بیوی بچے کا بوسہ لے لے تو وضو ٹوتا نہیں اسی وضو سے نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ اگر یہی بوسہ شہوت کی وجہ سے لیا جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
➋ اپنے بیوی بچوں کے بوسے لینا جائز ہے ۔ کسی غیر محرم لڑکی کا بوسہ لینا حرام ہے ۔ ہاں کوئی استاد شفیق یا استانی اپنے طالب علم کا بوسہ لے لے اس کی اچھی عادات و اطوار کی وجہ سے درست ہے استاد یا استانی کے بارے حسن ظن رکھنا چاہیے اور اسی طرح استاد کے لیے ضروری ہے کہ خوف خدا کو ہاتھ سے نہ جانے دے اسی طرح شاگرد فرط محبت سے یا بیٹی بیٹا فرط محبت سے باپ ماں استاد استانی کا بوسہ لے سکتے ہیں ۔ اچھی یا بری نیت کا اس میں بہت زیادہ دخل ہے ۔
➌ اسی طرح اپنے عزیز و اقارب کے چھوٹے چھوٹے بچی بچوں کا بوسہ لیا جا سکتا ہے ۔
وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إذا وجد أحدكم فى بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا، فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا [ أخرجه مسلم]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ محسوس کرے اس کے لیے یہ مشکل پیش آجائے کہ کچھ نکلا یا نہیں نکلا مسجد سے وہ اس وقت تک نہ جائے یہاں تک کہ وہ آواز سن لے یا بومحسوس کرے ۔ مسلم
تحقیق و تخریج: مسلم : 362
فوائد:
➊ ہوا کا خارج ہونا شرعاً بری بات نہیں ہے ۔ اگر نماز میں یا ویسے وضو کی حالت میں ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس ہواکی دو صورتیں ہیں بدبو کا آنا دوسرا آواز کا ۔ دونوں میں سے جو بھی ہو یا دونوں ظاہر ہوں تو وضو ثابت نہیں رہتا ۔ محض شک ہو کہ ہوا خارج ہوئی ہے یانہیں بدبو بھی نہ آئی ہو تو اس صورت میں رفع شک یا تو اس طرح ہو گا کہ نمازی یہ یقین کر لے کہ ہوا خارج نہیں ہوئی تو پھر وضو نہ ٹوٹے گا اور اگر اس کا یقین غالب یہ ہو کہ ہوا خارج ہوئی ہے تو پھر وضو کر لے ۔
➋ کسی کی ہوا خارج ہو تو ہنسنا نہیں چاہیے کیونکہ ہر ایک کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہوا خارج کرنے والے کو آداب مجلس کا خیال رکھنا چاہیے اس طرح جان بوجھ کر لوگوں کو ہنسانے کے لیے ہوا خارج کرنا قبیح حرکت ہے ۔
➌ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو پیچھے چلا جائے اور اپنی جگہ پر نائب کھڑا کر جائے ۔ اگر امام کا وضو ٹوٹ گیا جبکہ اسے پتا چل گیا اور وہ جان بوجھ کر مصلے پر ڈٹا رہا تو یہ درست نہیں ہے ۔ بے وضو امامت اسلام میں جائز نہیں ۔
عبد الکریم جزری عطاء سے روایت کرتے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے ۔“
دارقطنی اور اس کے علاوہ نے روایت کیا اس کی سند کے رجال صحیحین میں سے ہیں ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 201/6 ابو داؤد: 179 ترمذی: 85 نسائی 101/1 ابن ماجه: 502 الدارقطنی: 1/ 137 سنن ترمذی جلد اصفحہ 135-138 پر شیخ احمد محمد شاکر کی تعلیقات کا مطالعہ کریں ۔
فوائد:
➊ وضو کی حالت میں آدمی اگر اپنی بیوی بچے کا بوسہ لے لے تو وضو ٹوتا نہیں اسی وضو سے نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ اگر یہی بوسہ شہوت کی وجہ سے لیا جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
➋ اپنے بیوی بچوں کے بوسے لینا جائز ہے ۔ کسی غیر محرم لڑکی کا بوسہ لینا حرام ہے ۔ ہاں کوئی استاد شفیق یا استانی اپنے طالب علم کا بوسہ لے لے اس کی اچھی عادات و اطوار کی وجہ سے درست ہے استاد یا استانی کے بارے حسن ظن رکھنا چاہیے اور اسی طرح استاد کے لیے ضروری ہے کہ خوف خدا کو ہاتھ سے نہ جانے دے اسی طرح شاگرد فرط محبت سے یا بیٹی بیٹا فرط محبت سے باپ ماں استاد استانی کا بوسہ لے سکتے ہیں ۔ اچھی یا بری نیت کا اس میں بہت زیادہ دخل ہے ۔
➌ اسی طرح اپنے عزیز و اقارب کے چھوٹے چھوٹے بچی بچوں کا بوسہ لیا جا سکتا ہے ۔
وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : إذا وجد أحدكم فى بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا، فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا [ أخرجه مسلم]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ محسوس کرے اس کے لیے یہ مشکل پیش آجائے کہ کچھ نکلا یا نہیں نکلا مسجد سے وہ اس وقت تک نہ جائے یہاں تک کہ وہ آواز سن لے یا بومحسوس کرے ۔ مسلم
تحقیق و تخریج: مسلم : 362
فوائد:
➊ ہوا کا خارج ہونا شرعاً بری بات نہیں ہے ۔ اگر نماز میں یا ویسے وضو کی حالت میں ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس ہواکی دو صورتیں ہیں بدبو کا آنا دوسرا آواز کا ۔ دونوں میں سے جو بھی ہو یا دونوں ظاہر ہوں تو وضو ثابت نہیں رہتا ۔ محض شک ہو کہ ہوا خارج ہوئی ہے یانہیں بدبو بھی نہ آئی ہو تو اس صورت میں رفع شک یا تو اس طرح ہو گا کہ نمازی یہ یقین کر لے کہ ہوا خارج نہیں ہوئی تو پھر وضو نہ ٹوٹے گا اور اگر اس کا یقین غالب یہ ہو کہ ہوا خارج ہوئی ہے تو پھر وضو کر لے ۔
➋ کسی کی ہوا خارج ہو تو ہنسنا نہیں چاہیے کیونکہ ہر ایک کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہوا خارج کرنے والے کو آداب مجلس کا خیال رکھنا چاہیے اس طرح جان بوجھ کر لوگوں کو ہنسانے کے لیے ہوا خارج کرنا قبیح حرکت ہے ۔
➌ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو پیچھے چلا جائے اور اپنی جگہ پر نائب کھڑا کر جائے ۔ اگر امام کا وضو ٹوٹ گیا جبکہ اسے پتا چل گیا اور وہ جان بوجھ کر مصلے پر ڈٹا رہا تو یہ درست نہیں ہے ۔ بے وضو امامت اسلام میں جائز نہیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]