حسد کا علاج
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

271۔ حسد کا علاج کیا ہے ؟
جواب :
درج ذیل طریقوں سے حسد کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
➊ اللہ نے جو تیری قسمت میں کر دیا اس پر راضی ہو جاؤ۔
➋ حاسد کے ساتھ احسان کرنا۔
➌ حاسد کی اذیت پر صبر کرنا۔
➍ مخفی رکھنا، اپنی ضرورتوں کی تکمیل پر کتمان کے ساتھ مدد حاصل کرو، اس لیے کہ ہر نعمت والے سے حسد کیا جاتا ہے۔
➎ اللہ کی پناہ مانگتے رہنا اور دم وغیرہ کروانا۔
اس کے دلائل یہ ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
«وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ ‎ ﴿٥١﴾ »
”اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، يقيناً قریب ہیں کہ مجھے اپنی نظروں سے (گھور گھور کر) ضرور ہی پھسلا دیں، جب وہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یقیناً یہ تو دیوانہ ہے۔“ [القلم: 51]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«العين حق»
”نظر حق ہے۔“ [صحيح البخاري 319/10 صحيح مسلم 78/2]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«استعيذوا بالله فإن العين حق»
”اللہ کی پناہ مانگا کرو، پس بےشک نظر حق ہے۔“ [صحيح. سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3508]
انھیں سے روایت ہے :
« أميرني النبى أو أمم أن نسترقي من العين »
”مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نظر سے دم کروانے کا حکم دیا۔“ [صحيح البخاري مع الفتح 199/1 صحيح مسلم 183/4]

272۔ قرآن کریم کے ساتھ حسد کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
جواب :
درج ذیل سورتوں کی تلاوت کرنے سے حسد کا علاج کیا جاتا ہے۔
«قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ‎ ﴿١﴾ ‏ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ‎ ﴿٢﴾ ‏ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ‎ ﴿٣﴾ ‏ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ‎ ﴿٤﴾ ‏ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ‎ ﴿٥﴾ ‏ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ‎ ﴿٦﴾»
”کہہ دے اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔ اور تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔“ [الكافرون: 1-6]

«قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ‎ ﴿١﴾ ‏ اللَّهُ الصَّمَدُ ‎ ﴿٢﴾ ‏ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ‎ ﴿٣﴾ ‏ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‎ ﴿٤﴾»
”کہہ دے وہ الله ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔“ [الإخلاص: 1-4]

«قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ‎ ﴿١﴾ ‏ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ‎ ﴿٢﴾ ‏ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ‎ ﴿٣﴾ ‏ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ‎ ﴿٤﴾ ‏ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‎ ﴿٥﴾»
”تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“ [الفلق: 1-5]

«قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎ ﴿١﴾ ‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎ ﴿٢﴾ ‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎ ﴿٣﴾ ‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎ ﴿٤﴾ ‏ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ‎ ﴿٥﴾ ‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎ ﴿٦﴾»
”تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔“ [الناس: 1-5]

275۔ کیا کوئی قابل تعریف حسد بھی ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله القرآن، فهو يتلوه آناء الليل وآناء النهار، ورجل آتاه الله مالا، فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار »
”نہیں ہے حسد مگر دو آدمیوں میں، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن دیا، پس وہ دن اور رات کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ آ دمی جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے دن اور رات کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے۔“ [صحيح البخاري كتاب التوحيد، رقم الحديث 97]
حسد کی اس نوع کو ”رشک“ کا نام دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت جیسی نعمت کی تمنا کرے۔ مذموم حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے سے نعمت کے زوال کی خواہش کرے۔ « ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم. »

279۔ حسد کی علامات کیا ہیں ؟
جواب :
نیند کی کمی یا کثرت، پسینہ یا تری، پیشاب کثرت سے آنا، شہوت کی کمزوری پورے جسم یا بعض اعضا کا سن ہو جانا۔

280۔ کیا جن بھی انسان سے حسد کرتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گھر میں ایک لڑکی دیکھی، جن کے چہرے پر ”سفعة“ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«استرقوا لها الله بها النظرة »
اس کو دم کرواؤ، کیوں کہ اسے نظر لگی ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 76]
”سفعۃ“، یعنی اس کے چہرے میں کسی جگہ ایسی رنگت تھی جو اصلی نہ تھی۔ ”النظرۃ“، جن کی طرف سے نظر لگنے کو کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کی طرف سے نظر لگنے پر بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے۔ جب کہ حق بات یہ ہے کہ یہ لفظ عام ہے اور ہر ایک کو شامل ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے سورة الفلق میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : «وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ‎ ﴿٥﴾» کے بارے میں فرمایا ہے:
اس میں لفظ حاسد عام ہے اور جن و انس کو شامل ہے، اس لیے کہ شیطان اور اس کا گروہ مومنین سے اس پر جو اللہ نے انھیں عطا کیا ہے، حسد کرتے ہیں، جیسے ابلیس نے ہمارے باپ آدم سے حسد کیا تھا۔ وہ آدم علیہ السلام کی اولاد کا بھی دشمن ہے، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
«إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ»
”بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے، پس تم اس کو دشمن ہی بنا۔“ [الفاطر: 6]
لیکن وسواس جن شیاطین کے ساتھ خاص ہیں اور حسد انسان شیاطین کے ساتھ خاص ہے، لیکن عرف عام میں وسواس اور حسد ان دونوں ہی کو شامل ہیں۔ [تفسير المعوذتين لابن القيم ص: 62]

282۔ لوگوں میں سب سے بڑھ کر حسد کا نشانہ کون لوگ بنتے ہیں ؟
جواب :
ہر نعمت والا جو بیدار رہنے سے اعراض کرنے والا ہو، حسد کا نشانہ بنتا ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (جو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں) سے کہا:
«ما لي أرى أجسام بني أخي ضارعة أى نحيفة تصيبهم حاجة؟ قالت: لا، ولكن العين تسرع إليهم، قال: ارقيهم قالت: فعرضت عليه كلاما لا بأس به، فقال: نعم ارقيهم »
”کیا بات ہے کہ مجھے میرے بھتیجے بھتیجیاں کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ کیا تمھیں کوئی پریشانی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، لیکن نظر انھیں بہت جلد لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو دم کر۔ اسماءکہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ کلمات پیش کیے جن میں کوئی گناہ نہ تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، ان کو دم کیا کر۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2198]

283۔ کیا حسد حاسد کے دل میں نفرت بھی پیدا کر سکتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
حاسد لوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا فتحت عليكم فارس والروم، أى قوم أنتم؟ قال عبد الرحمن بن عوف: نقول كما أمرنا الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أو غير ذلك؟ تتنافسون، ثم تتحاسدون، ثم تتدابرون، ثم تتباغضون أو نحو ذلك، ثم تنطلقون فى مساكين المهاجرين، فتجعلون بعضهم على رقاب بعض»
”جب تمھیں روم و فارس کی فتح نصیب ہو گی، تم (اس وقت) کون لوگ ہو گے؟ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے سوا تو نہیں؟ تم ایک دوسرے سے مقابلہ کرو گے، پھر حسد کرنے لگو گے، پھر ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو گے، پھر باہم بغض کرنے لگو گے وغیرہ، پھر تم مسکین مہاجرین کی طرف جاؤ گے اور ان کے بعض کو بعض کی گردنوں پر رکھو گے۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 2962 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 3996]

284۔ کیا قلب سلیم میں بھی حسد پیدا ہو سکتا ہے ؟
جواب :
نہیں!
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟
«قال كل مخموم القلب صدوق اللسان قالوا: صدوق اللسان نعرفه، فما مخموم القلب؟ قال: هو التقي النقي، لا إثم فيه، ولا بغي، ولا غل، ولا حسد »
”آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ہر مخموم القلب اور زبان کا سچا، انھوں نے کہا: زبان کے سچے کی ہمیں پہچان ہے، مخموم القلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ پرہیز گار اور پاکیزہ شخص ہے جس میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ بغاوت اور نہ کینہ اور نہ حسد ہی۔‘‘ [سنن ابن ماجه 1409/2 رقم الحديث 42/6]
حافظ عراقی نے ”تخریج الإحیاء“ رقم الحدیث 1364 میں کہا ہے۔ اس کی سند صحیح ہے۔

285۔ لوگوں کے درمیان سے حسد کب ختم ہو گا ؟
جواب :
جب سیدنا عیسی علیہ السلام ابن مریم کا نزول ہو گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والله لينزلن ابن مريم حكما عدلا، فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير، وليضعن الجزية، ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها، ولتذهبن الشحناء والبغضاء والتحاسد، وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد »
”اللہ کی قسم! ابن مریم عادل حکمران بن کر لازماً اتریں گے، پھر وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر دیں گے اور جزیہ عائد کر دیں گے اور (اس وقت) اونٹنی کو (آزاد) چھوڑا جائے گا تو کوئی اس پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور باہمی عداوت، بغض اور حسد بہرحال ختم ہو جائے گا۔ اور انہیں مال کی طرف بلایا جائے گا تو کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔“ [صحيح مسلم، رقم الحديث 155، 643]

286۔ کیا حسد قطع تعلقی کا باعث بنتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
حسد قطع تعلقی کا باعث بن جاتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، وتدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق تلاث ليال »
”آپس میں بغض نہ رکھو اور نہ آپس میں حسد کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور تم اللہ کے بندے، بھائی بھائی ہو جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلق رہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5718 صحيح مسلم، رقم الحديث 2559]

287۔ حسد اور آگ کے درمیان کیا مناسبت ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
« إياكم والحسد، فإن الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب، أو قال: العشب »
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے:حسد سے بچو! پس بے شک حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے، جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے آگ گھاس کو کھا جاتی ہے۔“
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حسد حاسد کے نیک اعمال کو ضائع اور اس کی حسنات کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے حاسد کو توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور کثرت ذکر کو لازم پکڑ نا چاہیے، تا کہ وہ اس موذی مرض سے نجات حاصل کر سکے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 4903]
ابراہیم بن ابی اسید راوی کا دادا غیر معروف ہے۔ لہذا یہ ضعیف ہے۔

 

290۔ حسد، رشک اور حرص میں کیا فرق ہے ؟
جواب :
حسد
یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی پر کوئی نعمت دیکھے اور یہ تمنا کرے کہ وہ نعمت اس سے زائل ہو جائے اور مجھے مل جائے یا کم از کم وہ اس نعمت سے محروم ہو جائے۔
رشک:
رشک یہ ہے کہ انسان کسی پر کوئی نعمت دیکھے تو تمنا کرے کہ مجھے بھی اس جیسی نعمت مل جائے۔ رشک میں انعام یافتہ سے نعمت کے چھننے کی خواہش نہیں ہوتی۔ پہلی چیز (حسد) مذموم اور دوسری چیز (رشک) محمود ہے۔ اس پر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان دلالت کرتا ہے :
«لا حسد إلا فى الاثنتين»
”حسد (رشک) صرف دو آدمیوں سے ہو سکتا ہے۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 73، صحيح مسلم رقم الحديث 816]
حرص:
یہ ارادے کی شدت اور مطلوب کو پانے کی جستجو ہے، اس کی دو قسمیں ہیں:
➊ حرص فاجع
➋ حرص نافع
حرص فاجع: (باعث حسرت حرص) یہ ہے کہ آدمی دنیا کی حرص کرے۔ اس میں مشغول ہو اور اس کے لیے مصائب برداشت کرے، اس کی محبت سے اسے فراغت نہ ملے۔
حرص نافع : حرص نافع اللہ تعالیٰ کی محبت کی حرص اور اس کے ختم ہو جانے کا خوف۔ اس کو حرص نافع کہتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل