کیا شیطان ہی ابراہیم علیہ السلام اور ان کے باپ کے درمیان عناد کا باعث تھا
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

جواب :
فرمان باری تعالی ہے :
يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِيًّا ﴿٤٤﴾ يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴿٤٥﴾
”اے میرے باپ ! شیطان کی عبادت نہ کر، بے شک شیطان ہمیشہ سے رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ! بے شک میں ڈرتا ہوں کہ تجھ پر رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آ پڑے، پھر تو شیطان کا ساتھی بن جائے۔“ [مريم: 44, 45 ]
یعنی تو اپنے شرک اور اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے شیطان کا دوست بن جائے گا، پھر ابلیس کے سوا تیرا کوئی دوست ہوگا نہ کوئی مددگار اور نہ کوئی فریاد رس، جب کہ ابلیس کے پاس کسی معاملے کا کوئی اختیار ہے اور نہ اس کے علاوہ کسی کے پاس۔ ( سوائے اللہ کے)
بلکہ تیرا اپنے رب کی اطاعت کرنا ہی اس کے عذاب سے تیرے لیے بچاؤ کا موجب ہے تو اپنے ان بتوں کی عبادت کر کے ابلیس کی اطاعت نہ کر، بلاشبہ ابلیس ہی اس کام کی طرف دعوت دیتا اور اس سے خوش ہوتا ہے۔
فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا یعنی ابلیس کی ذات کے سوا نہ کوئی تیرا دوست ہوگا نہ مددگار اور نہ کوئی فریاد رس، جب کہ اس سے کچھ نہ بن پائے گا، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: