تحفہ دیتے وقت اولاد کے درمیان فرق رکھنے اور بعض کو بعض پر ترجیح دینے والے کے متعلق شریعت کا حکم
اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور بشیر بن سعد انصاری سے، جس نے تحفہ دینے میں اپنے بیٹے نعمان کو ترجیح دی تھی، فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587 صحيح مسلم 11622/18]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2650 صحيح مسلم 1266/14]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر گواہ بننے سے معذرت کی اور کہا: ”میرے علاوہ کسی دوسرے کو اس پر گواہ بنا لو۔“ [سنن ابي داود، رقم الحديث 2375]
لہٰذا کسی کے لیے جائز نہیں کہ اپنی اولاد میں سے کچھ کے لیے جانبداری کا مظاہر کرے، بلکہ اس کو ان کے درمیان تحائف کی مساویانہ تقسیم کرنی چاہیے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان برابری رکھی ہے، لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے برابر دے، یہ محض تحفے اور خوشدلی سے کچھ دینے کے متعلق ہے، لیکن جو کچھ باپ اپنی اولاد کو اس کی ضرورت کی وجہ سے دیتا ہے تو اس میں اس کے درمیان عدل کی یہ صورت ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دے، خواہ دوسروں کو جو اس نے دیا ہے وہ اس سے زیادہ ہو یا کم۔
مثال کے طور پر اگر بڑے بیٹے کو کتابوں اور سٹیشنری کی ضرورت ہو تو وہ اس کو اتنی رقم دے جس سے وہ اپنی کتابیں اور دیگر لوازمات مدرسہ خرید لے اور دوسروں کو، جن کو ضرورت نہیں، اس کے برابر نہ بھی دے تو اس میں بڑے بیٹے کو ترجیح نہیں، بلکہ یہ عدل ہے۔ جب دوسرے بھی بڑے کے مقام تک پہنچ جائیں اور ان کو بھی ان اشیاء کی ضرورت ہو جن کی اس کو تھی تو جتنا اس کو دیا تھا ان کو بھی اتنا دے دے۔
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی بڑی اولاد کی، جب وہ نکاح کے قابل ہو جائے، اپنی زندگی میں شادی کر دیتے ہیں، پھر وہ چھوٹوں کے حق میں، جن کی شادی نہیں ہوئی ہوتی، اتنے مال کی وصیت کر جاتے ہیں، جتنا بڑوں کی شادی پر خرچہ ہوا تھا، یہ حرام ہے اور اس وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں، جو اس نے ان کے لیے وصیت کی تھی، اسے ترکے میں واپس کیا جائے اور ورثاء کے درمیان شرعی طریقے کے مطابق وراثت تقسیم کی جائے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 12/247]