تدفین کے وقت میت کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرنا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا مرنے کے بعد میت کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کرنا ثابت ہے؟ وضاحت سے جواب عنایت فرما دیں؟
جواب : جب کوئی موحد مسلمان فوت ہو جائے تو اسے قبر میں دفن کرنے کے بعد اس کے حق میں حساب کی آسانی اور ثابت قدمی کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا۔ جیسا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو کہتے : ”اپنے بھائی کے لیے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اب اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب الاستغفار عند القبر للميت فى وقت الانصراف 3221، مستدرك حاكم 370/1، بيهقي 56/4]
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«في الحديث مشروعية الاستغفار للميت عند الفراغ من دفنه وسؤال التثبيت له لانه يسئل فى تلك الحال» [عون المعبود 209/3]
”اس حدیث سے میت کے لیے اس کے دفن سے فارغ ہوتے وقت بخشش کی دعا کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرنا بھی۔ اس لیے کہ اس سے اسی حالت میں سوال کیا جاتا ہے۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ میت کو کلمہ شہادت اور سوال و جواب کی تلقین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
اسی حدیث کی شرح میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اس حدیث میں میت کے دفن سے فارغ ہونے کے وقت دعا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرنا اور بلاشبہ زندوں کی دعا مردوں کو نفع دیتی ہے۔ اس حدیث میں دفن کے وقت تلقین کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں جیسا کہ شافعیہ کے ہاں تلقین کی عادت ہے اور نہ کوئی مرفوع صحیح حدیث تلقین کے بارے میں موجود ہے اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں جو روایت بیان کی گئی ہے وہ ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔“ [مرعاة المفاتيح 230/1]
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کے لیے نہیں بیٹھتے تھے اور نہ میت کو تلقین کرتے تھے جیسا کہ لوگ آج کرتے ہیں۔“ [زاد المعاد 523/1]
اس ضمن میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے جو مروی روایت پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ

سعید بن عبداللہ الاودی نے کہا: ”میں ابوامامہ کے پاس حاضر ہوا، وہ حالتِ نزع میں تھے، انہوں نے فرمایا : ”جب میں مر جاؤں تو میرے ساتھ ایسا معاملہ کرنا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تمہارا کوئی بھائی مر جائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کر چکو تو تم میں سے کوئی ایک اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو جائے، پھر کہے : ”اے فلاں ابن فلانی !“ وہ سن رہا ہوتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا پھر کہے : ”اے فلاں ابن فلانی !“ تو وہ اٹھ کر برابر بیٹھ جاتا ہے، پھر کہے : ”اے فلاں ابن فلانی !“ تو وہ کہتا ہے : ”ہماری رہنمائی کرو، اللہ تیرے اوپر رحم کرے“ لیکن تم سمجھتے نہیں پھر کہے : ”وہ بات یاد کر جس پر تو دنیا سے گیا تھا یعنی ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کی شہادت۔“ اور اسے کہا جائے : ”بے شک تو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔“ اس لیے کہ منکر و نکیر میں سے ہر ایک اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے : ”آ میرے ساتھ چل، ہم اس کے پاس نہیں بیٹھیں گے۔ جسے اس کی دلیل وحجت و تلقین کی گئی تو پھر ان دونوں کے ماوراء اللہ تعالیٰ اس کا جج بن جاتا ہے۔“ ایک آدمی نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! اگر اس کی ماں کو نہ جانتا ہو تو پھر ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس کو حوا کی طرف منسوب کر کے کہے : ”اے فلاں ابن حوا۔“ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اسے طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں راویوں کی ایک جماعت ہے جنھیں میں نہیں پہچانتا۔“ [مجمع الزوائد 48/3]

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ حدیث مرفوعاً ثابت نہیں۔“ [زاد المعاد 523/10]
امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ائمہ محققین کے کلام سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل بدعت ہے۔ آپ ان لوگوں کی کثرت سے دھوکا مت کھائیں جو یہ کرتے ہیں۔“ [سبل السلام 773/2]
امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ [المجموع 304/5]
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ [إحياء العلوم 420/4]

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 64/2، 599]
اسی طرح قبر پر تلقین کے لیے مندرجہ ذیل روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

« لقنوا موتاكم لا الٰه الا الله » [مسلم، كتاب الجنائز : باب تلقين الموتٰي لا اله الا الله 916]
”اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔“

یہ روایت مفصل طور پر صحیح ابن حبان میں موجود ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے مراد قریب الموت شخص کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرنا ہے تاکہ اس کی موت کلمۂ توحید پر آئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« لقنوا موتاكم لا الٰه الا الله من كان آخر كلامه لا الٰه الا الله عند الموت دخل الجنة يوما من الدهر وان اصابه قبل ذٰلك ما اصابه » [صحيح ابن حبان 719، الموارد]
”اپنے مرنے والوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو، جس کا آخری کلام موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ ہوا وہ کبھی نہ کبھی جنت میں داخل ہوگا اگرچہ اس کو اس سے قبل جو مصیبت پہنچی ہو گی پہنچے گی۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ « لقنوا موتاكم » والی حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے مرنے کے بعد اسے دفن کر کے لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کی جائے بلکہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب انسان قریب المرگ ہو تو اسے لا الٰہ الا اللہ پڑھنے کو کہا جائے تاکہ اس کے جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بن جائے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی قریب المرگ آدمی کو لا الٰہ الا اللہ کہنے کا ثبوت ملتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی النجار کے ایک آدمی کی عیادت کے لیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: « لا الٰه الا الله » کہو۔ اس نے کہا: ”کیا « لا الٰه الا الله» کہنا میرے لیے بہتر ہے ؟“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں !“ [مسند أحمد 152/3، 154]
یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«واما قوله صلى الله عليه وسلم لقنوا موتاكم لا الٰه الا الله فالمراد عند الموت لا عند دفن الميت» [مرعاة المفاتيح 230/1]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : ”اپنے مرنے والوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو۔“ کا مطلب موت کے وقت ہے نہ کہ میت کو دفن کرنے کے وقت۔“
اس لیے کہ «لا الٰه الا الله» کو جانتے ہوئے دنیا سے گیا تو جنت میں داخل ہو گیا، مرنے کے بعد «لا الٰه الا الله» کی تلقین مفید نہیں ہوگی۔ مندرجہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد میت کو دفن کر کے قبر پر تلقین کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث سے نہیں ملتا۔
شوافع کے ہاں جو اس کو مستحب کہا گیا ہے اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ ہمارے ہاں جو لوگ یہ تلقین کرتے ہیں وہ حنفی ہیں اور حنفی مذہب میں بھی اس کا کوئی جواز نہیں۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
”تلقین کی صورت یہ ہے کہ حالتِ نزع کے وقت موت کے غرغرے سے پہلے اونچی آواز میں اس کے پاس کہا جائے، جسے وہ سن لے «أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ» یہ نہ کہا جائے کہ کلمہ پڑھ (بلکہ صرف پڑھا جائے) اور یہ جو تلقین موت کے بعد ہوتی ہے ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ وہ نہ کی جائے جیسا کہ عینی شرح الھدایۃ اور معراج الدرایۃ میں ہے۔“ [فتاويٰ عالمگيري 157/1]
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”اس تلقین سے مقصود ”میت کا آخری کلام کلمہ شہادت ہو“ یہ قبر کے اوپر تلقین کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”جس شخص کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہوا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔“ یہ تلقین جو مرنے کے بعد ہوتی ہے وہ ہمارے نزدیک ظاہر الروایۃ میں جائز نہیں۔“ [البناية فى شرح الهداية 207/3]
علامہ علاءالدین الکاسانی الحنفی لکھتے ہیں :
”قریب المرگ کو کلمۂ شہادت کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے کی جائے کہ اپنے مرنے والوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ میت سے مراد یہاں وہ شخص ہے جس پر جان کنی کا وقت ہو اس لیے کہ اس کی موت قریب ہے۔ اسے میت قریب الموت ہونے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔“ [بدائع الصنائع 443/1]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ یہ عمل کتاب و سنت کے علاوہ فقہ حنفیہ کی ظاہر الروایۃ کے اعتبار سے بھی ثابت نہیں لہٰذا جو بھی اس پر عمل کرتے ہیں وہ قرآن وسنت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: