صلہ رحمی، رشتے ناطوں کا خیال و فضیلت
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب فضل صلة الرحم والتحذير من قطعها»
صلہ رحمی کی فضیلت اور قطع رحمی سے پرہیز
«عن ابي ايوب الانصاري رضى الله عنه ان رجلا قال: يا رسول الله اخبرني بعمل يدخلني الجنة، فقال القوم: ما له ما له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ارب ما له، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: تعبد الله لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصل الرحم ذرها قال: كانه كان على راحلته.» [متفق عليه: رواه بخاري 5983، ومسلم 13: 13.]
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ لوگوں نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے؟ اسے کیا ہو گیا ہے؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو کچھ نہیں ہوا ہے۔ اس کو ضرورت درپیش ہے۔ پو چھو رہا ہے۔ پھر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ، اور نماز قائم کرو، زکاة ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔ چلو اب اس (اونٹنی) کو چھوڑ دو۔ راوی نے کہا: شاید آپ اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔

«عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال فى مرضه ارحامكم ارحامكم» [حسن: رواه ابن حبان فى صحيحه 436.]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض کی حالت میں فرمایا: : ”رشتے ناطوں کا خیال رکھنا، رشتے ناطوں کا خیال رکھنا۔

«عن أبى بكرة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن أعجل الطاعة ثوابا صلة الرحم حتي إن أهل البيت ليكونوا فجرة فتنمو أموالهم ويكثر عددهم إذا تواصلوا، وما من أهل بيتي يتواصلون فيحتاجون.» [حسن: رواه ابن حبان فى صحيحه 440.]
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی اطاعت جس کا بدلہ بہت جلد ملتا ہے وہ صلہ رحمی ہے۔ یہاں تک کہ گھر والے فاجر و فاسق ہوتے ہیں، لیکن جب وہ صلہ رحمی کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے مالوں اور افرادی قوت میں اضافہ ہو تا ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہو سکتا جو صلہ رحمی کر کے محتاج ہو۔

«عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أعجل الطاعة ثوابا صلة الرحم وإن أهل البيت ليكونون فجارا فتنمو اموالهم ويكثر عددهم إذا وصوا ارحامهم وإن أعجل المعصية عقوبة البغي والخيانة واليمين الغموس تذهب المال وتقل فى الرحم وتذر الديار بلاقع.» [حسن: رواه الطبراني فى الأوسط – مجمع البحرين 2108.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک وہ اطاعت جس کا بدلہ بہت جلد ملتا ہے، وہ صلہ رحمی ہے۔ یہاں تک کہ گھر والے فاجر و فاسق ہوتے ہیں، لیکن جب وہ صلہ رحمی کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کے مالوں میں اور افرادی قوت میں اضافہ ہو تا ہے۔ اور بے شک ایسا گناہ جس کی سزا بہت جلد ملتی ہے۔ وہ بد کاری اور خیانت ہے۔ جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانے سے مال برباد ہو تا ہے، رشتے ناطے میں دراڑ (یعنی کمی) پیدا ہوتی ہے اور اس علاقے کو قحط سالی سے دوچار کر دیتی ہے۔

«باب من وصل الرحم وصله الله»
جو شخص رشتہ ناطہ جوڑے گا اللہ بھی اس سے تعلق رکھے گا
«عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: ” إن الرحم شجنة من الرحمن، فقال الله: من وصلك وصلته ومن قطعك قطعته”.» [صحيح: رواه البخاري 5988.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: رحم کا تعلق رحمان کی ذات سے ہے۔ اللہ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا، میں اس سے جڑوں گا، اور جو تجھ سے کٹے گا میں بھی اس سے اپنا ناطہ توڑ لوں گا۔

«عن ابي هريرة، وال وال الرسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله خلق الخلق حتى إذا فرغ منهم قامت: الرحم فقال هذا مقام العائذ بك من القطيعة قال: نعم، اما ترضين ان اصل من وصلك واقطع من قطعك؟، قالت: بلى، قال فذاك لك، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقرءوا إن شئتمفَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ‎‏ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا.» [متفق عليه: رواه البخاري 5987، ومسلم 2554.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے ساری مخلوق پیدا فرما دی، یہاں تک کہ جب اس سے مکمل فارغ ہو گیا تو رحم (رشتہ) کھڑا ہوا، اور اس نے گزارش کی کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی سے پناہ مانگے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اس سے ناطہ جوڑوں، جو تجھ سے ناطہ جوڑے۔ اور اس سے ناطہ توڑ لوں جو تجھ سے ناطہ توڑنے؟ اس نے کہا: ہاں، کیوں نہیں۔ (ایسا ہی ہونا چاہے) تو الله نے فرمایا: ”پس وہ تیرے لیے ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کرنے لگو اور رشتوں ناطوں کو کاٹ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے۔ کیا وہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوے ہیں؟ ” [سوره محمد: 22-24]

«عن عائشة رضي الله عنها قالت قال الرسول صلى الله عليه وسلم الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلني وصله الله ومن قطعها قطعه الله» [متفق عليه: رواه البخاري 5989، ومسلم 2555 واللفظ له.]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: : رحم (رشتہ) عرش الہی سے لٹکا ہوا ہے۔ وہ دعا کر رہا
ہے جو مجھے جوڑے، اللہ اس سے جڑے، اور جو مجھے توڑے تو اللہ اس سے اپنے تعلق کو توڑ لے“۔

«عن ابن عباس عن النبى صلى الله عليه وسلم إن الرحم شجنة أخذة بحجزة الرحمن يصل من وصلها ويقطع من قطعها.» [حسن: رواه أحمد 2953، والبزار – كشف الأستار 1883، والطبراني 398/10 .]
حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک رشتہ ایک ایسی شاخ ہے جو رحمن کی کمر پکڑی ہوئی ہے۔ الہ رحمن اس سے ناطہ جوڑے گا جو رشتے کو جوڑے گا اور اس سے ناطے کو لوٹے گا جو رشتے کو توڑے گا۔

«عن عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله: انا الرحمن، خلقت الرحم، وشققت لها من اسما من اسمي، عن عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه: سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله: انا الرحمن، خلقت الرحم، وشققت لها من اسمي اسما فمن وصلها وصلته، ومن قطعها قطعته.» [صحيح: رواه الترمذي 1907، وأبوداود 1695، وأحمد 1681، وابن حبان 443، والحاكم 158/4 .]
حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ الله عز وجل نے فرمایا: میں رحمان ہوں، میں نے رشتے کو پیدا کیا ہے، میں نے اپنے نام سے کاٹ کر اس کا ایک نام رکھا ہے، جو اس سے جڑے گا میں اسے جڑوں گا۔ اور جو اس کو کاٹے گا۔ میں اس سے اپنا تعلق توڑ لوں گا۔

«باب أن الرحم يبل ببلالها»
رشتوں اور ناطوں کو خوشگوار بنائیں
«عن عمرو بن العاص، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم جهارا غير سر يقول: الا إن آل ابي فلان يعني فلانا ليسوا باولياء، إنما وليي الله وصالح المؤمنين، وفي رواية البخاري ولكن لهم رحم ابلها ببلاها، يعني اصلها بصلتها.» [متفق عليه: رواه البخاري 5990، ومسلم 215.]
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خفیہ نہیں علانیہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ سنو! اے آل ابو فلال، یعنی اے فلاں، میرے کوئی دوست نہیں۔ میرے دوست صرف الله اور نیک اہل ایمان ہیں۔ اور بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ لیکن ان سے رشتہ ناطہ ہے میں اس کو ترو تازہ رکھوں گا۔ یعنی میں اس رشتے کی بنیاد پر اس سے تعلق کو قائم رکھوں گا۔

« باب يبسط الرزق بصلة الرحم»
صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی ہوتی ہے
«عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من احب ان يبسط له فى رزقه وينسا له فى اثره فليصل رحمه”.» [متفق عليه: رواه البخاري 5986، ومسلم 2557]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص چاہتا ہے کہ اس کارزق کشادہ
کیا جائے، اور اس کی عمر دراز کی جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داری کا حق ادا کرے۔

«عن انس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحب أن يمد له فى عمره وأن يزاد له فى رزقه فليبر والديه وليصل رحمه.» [حسن: رواه أحمد 13401، وابن أبى الدنيا فى مكارم الأخلاق 244، والبيهقي فى الشعب 7471]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ بات پسند ہو کہ
اس کی عمر لمبی ہو، اور اس کی روزی میں اضافہ کیا جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور اپنے رشتے ناطے جوڑے۔

«عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ” من سره ان يبسط له فى رزقه وان ينسا له فى اثره فليصل رحمه”.» [صحيح: رواه البخاري 5985.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ کیا جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے تو اس کو چاہیے کہ رشتہ داری کا خیال رکھے۔

«عن على رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال من سر أن يمد له فى عمره ويوسع له فى رزقه ويدفع عنه ميتة السوء فليتق الله وليصل رحمه.» [حسن: رواه عبد الله بن أحمد فى زوائده على المسند 1213، والحاكم 160/4]
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں اضافہ ہو اور اس سے بری موت دور ہو تو اس کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔

«عن عائشة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال لها إنه من اعطي حظه من الرفق فقد أعطى حظه من خير الدنيا والآخرة وصلة الرحم وحسن الخلق وحسن الجوار يعمران الديار ويزيدان فى الأعمار.» [حسن: رواه أحمد 25259.]
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جس شخص کو نرمی میں سے کچھ حصہ دیا گیا تو اس کو گویا دنیا اور آخرت میں سے حصہ دیا گیا۔ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا، اچھے اخلاق کا پیکر بن کر رہنا اور پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا یہ ایسی خوبیاں ہیں جن سے ملک پھلتے پھولتے ہیں اور عمروں میں خیر وبرکت ہوتی ہے۔

 

«باب فضل واصل الرحم على القاطع»
رشتہ توڑنے والے پر رشتہ جوڑنے والے کی فضیلت
«عن ابي هريرة: ان رجلا، قال: ” يا رسول الله، إن لي قرابة اصلهم ويقطعوني، واحسن إليهم ويسيئون إلي، واحلم عنهم ويجهلون علي، فقال: لئن كنت كما قلت، فكانما تسفهم المل، ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك.» [صحيح: رواه مسلم 2558.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے کچھ رشتے دار ہیں۔ میں ان سے رشتہ جوڑ تا ہوں، لیکن وہ مجھ سے توڑ لیتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ جہالت سے پیش آتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ایسے ہی ہو، جیسا کہ تم نے کہا ہے تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور تمھارے ساتھ اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار لگا ر ہے گاجب تک تم اسی رویے پر قائم رہو گے۔

«باب ليس الواصل بالمكافئ»
بدلے میں صلہ رحمی کرنے والا ناطہ جوڑنے والا نہیں ہے۔
«عن عبد الله بن عمرو، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ” ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذى إذا قطعت رحمه وصلها”.» [صحيح: رواه البخاري 5991.]
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلہ رحمی کے بدلے صلہ رحمی کرنے والا، ناطہ جوڑنے والا نہیں ہے۔ اصل رشتہ جوڑنے والا وہ ہے جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ رشتہ جوڑے۔

«باب صلة الأخ المشرك»
مشرک بھائی کے ساتھ صلہ رحمی
«عن عبد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب راى حلة سيراء عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل فاعطى عمر بن الخطاب رضى الله عنه منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لم اكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب رضى الله عنه اخا له بمكة مشركا. وفي لفظ للبخاري: اني لم اعطكها لتلبسها ولكن تبيعها او تكسوها.» [متفق عليه: رواه مالك فى اللباس 18، والبخاري 886، ومسلم 2068.]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے ریشم کا دھاری دار جوڑا مسجد کے دروازے پر بکتا ہوا دیکھا تو فرمایا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اس جوڑے کو خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب وفود آپ سے ملنے کے لیے آئیں، ان کے استقبال کے لیے پہن سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لباس تو صرف وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے چند جوڑے تحفے میں آئے تو آپ نے عمر بن خطاب کو ایک جوڑا عطا فرمایا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں جب کہ آپ نے عطارد کے جوڑے کے بارے میں اس طرح فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں پہننے کے لیے نہیں دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ جوڑا اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا۔ اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ: یہ میں نے تمھیں پہننے کے لیے نہیں عطا کیا ہے، تم اس کو بیچو یا کسی کو پہنا دو۔

«باب من وصل رحمه فى الشرك، ثم أسلم»
جس نے حالت شرک میں صلہ رحمی کی پھر وہ مسلمان ہوا
«عن حكيم بن حزام، انه قال: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، اي رسول الله ارايت امورا كنت اتحنث بها فى الجاهلية من صلة رحم وعتاقة وصدقة افيها من اجر؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” اسلمت على ما سلف من خير”» [متفق عليه: رواه البخاري 5992، ومسلم 123: 195.]
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: اے الله کے رسول ! میرے ان اعمال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو زمانہ جاہلیت میں انجام دیا کرتا تھا، جیسے: صدقہ و خیرات، غلاموں کو آزاد کرنا اور صلہ رحمی، کیا مجھے ان کا اجر ملے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی سابقہ اچھائیوں کی وجہ سے ہی اسلام لے آئے ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!