یہودیوں سے تجارت: شریعت کی روشنی میں موجودہ رہنمائی
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال کا جواب:

موجودہ دور میں یہودیوں کے ساتھ معاشی، تجارتی، یا مذہبی معاملات کے حوالے سے شریعتِ اسلامیہ کی رہنمائی کچھ اہم اصولوں پر مبنی ہے، جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔

غیر مسلموں کے ساتھ تجارت:

اسلامی نقطہ نظر سے غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ تجارت میں کوئی حرام پہلو نہ ہو اور نہ ہی اس میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہو۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی سے مثالیں ملتی ہیں کہ آپ ﷺ نے غیر مسلموں کے ساتھ معاملات کیے ہیں۔ جیسے کہ آپ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے رہن رکھی ہوئی تھی۔

موجودہ دور کے حالات:

تاہم، موجودہ دور میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور دشمنی کا ماحول بنا ہوا ہے، جہاں مسلمانوں کے خلاف مالی فائدہ حاصل کر کے ان کے خلاف ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں یہودیوں کے ساتھ تجارت کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے، بلکہ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ ان کی تجارت سے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے۔

حدیث نبوی کی روشنی میں:

حدیثِ نبوی ﷺ ہے:
’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ [ابن ماجه]
یعنی نہ خود کو نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ۔

اس حدیث کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان ایسے تجارتی معاملات سے بچیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہو۔

اجتماعی اقدامات:

مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ اسلامی ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دیں، اور یہودیوں کے ساتھ تجارتی تعلقات سے اجتناب کریں۔ یہ کام اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے بہتر طور پر انجام دیا جا سکتا ہے۔
اس سے مسلمانوں کے مابین اتحاد بڑھے گا اور یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی۔

کاروباری دوست کے لیے مشورہ:

اس بھائی سے گزارش ہے کہ وہ یہودیوں کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔ مسلمانوں میں بھی بہت سے بڑے تاجر اور صنعت کار موجود ہیں، جن کے ساتھ مل کر تجارتی تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں۔
یہ نہ صرف اسلامی اصولوں کے مطابق ہے بلکہ مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں بھی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے