عرفہ کے دن (یعنی 9 ذوالحجہ کو ) صبح تلبیہ اور تکبیریں کہتے ہوئے عرفات جائے گا اور وہاں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرے گا اور امام خطبہ دے گا پھر (مغرب کے بعد ) عرفات سے مزدلفہ لوٹے گا اور مغرب اور عشاء کو جمع کرے گا پھر وہیں رات گزارے گا
➊ منٰی سے عرفات جانے کی کیفیت کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان يهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر منا المكبر فلا ينكر عليه
”ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ کہتے تھے ، اسے بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور بعض ہم میں تکبیریں کہتے تھے انہیں بھی برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔“
[بخاري: 1659 ، كتاب الحج: باب التلبية والتكبير إذا غدا ، مسلم: 1285 ، أحمد: 110/3 ، نسائي: 250/5 ، ابن ماجة: 3008 ، حميدي: 1211]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :
فخطب الناس ثم أذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما
” (عرفات پہنچنے کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا پھر (کسی نے ) اذان دی ، پھر اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا فرمائی۔ پھر اقامت کہی تو نماز عصر ادا فرمائی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی ۔“
[مسلم: 1218]
شیخ البانیؒ نے بھی خطبے کو نمازوں سے پہلے ہی ذکر کیا ہے۔
[حجة النبى: ص / 71]
(امیر صنعانیؒ ) سنت یہ ہے کہ امام ظہر و عصر کی نمازوں سے پہلے خطبہ دے۔
[سبل السلام: 978/2]
البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں ہے کہ
فجمع بين الظهر والعصر ثم خطب الناس
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر وعصر کی نمازوں کو جمع کیا پھر لوگوں کو خطبہ دیا ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1684 ، كتاب المناسك: باب الرواح إلى عرفة ، ابو داود: 1913 ، أحمد: 129/2]
اس تعارض کا حل یہ ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث کو سنن ابی داود کی حدیث پر ترجیح حاصل ہے۔
دوران خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے خونوں اور ان کے مالوں کی حرمت و تقدس کو شہر مکہ ، ماہ ذی الحجہ اور یوم عرفہ کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔ جاہلیت کے بعض فاسد اعمال اور رسوم و رواج کا خاتمہ کیا ، بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین اور میاں بیوی کے بعض باہمی حقوق کی نشاندہی کی۔ کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنا ، راہ راست پر قائم رہنے کا ذریعہ بتلایا۔ مزید برآں لوگوں سے تبلیغِ رسالت کا اقرار کرایا اور آسمان کی طرف انگشتِ شہادت اٹھاتے ہوئے فرمایا:
اَللّهُمَّ اشْهَدُ اللهُمَّ اشْهَدُ
”اے اللہ ! تو گواہ ہو جا ، اے اللہ! تو گواہ ہو جا۔“
[حجة النبى للألباني: ص/ 71-73]